یہ ایک حقیقت ہے کہ عام پاکستانی کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ پاکستان کے معاشی اشار یے کیا ہیں، اسٹاک مارکیٹ کے اعدادو شمارکیا ہیں، زر مبادلہ کے ذخائر کیا ہیں، پاکستان میں کتنی گاڑیاں فروخت ہو رہی ہیں، ایکسپورٹ کتنی بڑھ رہی ہیں، ہاں اسے اس بات سے ضرور غرض ہے کہ مہنگائی کتنی بڑھ رہی ہے ذاتی انکم کتنی کم ہو رہی ہے، بے روز گاری کتنی بڑھ رہی ہے، اس کے گھریلوحالات کب ٹھیک ہونگے لیکن ہویہ رہا ہے کہ پچھلے دو ماہ میں پٹرول کی قیمت چار بار بڑھی ہے۔
یکم دسمبر کو پٹرول 101 روپے تھا جو اب 112 روپے 60 پیسے کا ہو گیا ہے، عالمی منڈی میں پٹرولیم کی قیمتوں میں تقریباً 22 فیصد اضافہ ہوا ہے اس کے باوجود پاکستان میں پٹرول کی قیمت خطے کے ممالک میں سب سے کم ہیں یعنی بھارت میں اس وقت پٹرول 76 فیصد مہنگا ہے، بھارت میں پٹرول کی جو قیمت ہے وہ پاکستانی روپوں میں 190 روپئے بنتی ہے، بنگلہ دیش میں اس وقت پٹرول 168 روپے لیٹر ہے، نیپال میں 110 روپے لیٹر، سری لنکا میں 161 روپے لٹر فرو خت ہو رہا ہے۔ اس طرح پاکستان میں پورے خطے کے مقابلے میں پٹرول سستا ہے۔
اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی حکام نے ایک ایسا موقع گنوایا جب عالمی منڈی میں تیل بہت سستا تھا اس وقت آرڈر نہیں کیا گیا، اس وقت نہیں خریدا گیا ورنہ قیمت اور بھی کم ہو سکتی ہے، کورونا کے دنوں میں ایک وقت ایسا آیا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات بہت سستی ہو گئی تھیں لیکن اب دنیا میں کاروبار چل پڑا کورونا کے باوجود دنیا بھر میں معیشت چلنا شروع ہو گئی، اسی لئے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بھی بڑھنا شروع ہو گئیں اور اب مزید بھی بڑھیں گی۔
پاکستان تقریباً ایک ارب ڈالر کی ماہانہ پٹرولیم مصنوعات در آمد کرتا ہے حکومت چاہتی ہے کہ کسی طرح یہ درآمد کم ہو کیونکہ پاکستان میں ڈائریکٹ ٹیکس دینے کا رجحان نہیں ہے اس لئے حکومت کو بالواسطہ ٹیکس لگانے پڑتے ہیں، ہمارے ہاں پٹرولیم جی ایس ٹی اور لیوی لگانا پڑتا ہے۔
پاکستان کا قرضہ بھی بڑھتا جا رہا ہے جو اس وقت تقریباً 36 ٹریلین کا ہے اگر ہم تھوڑا برداشت کرلیں 10 روپے پٹرول اور مہنگا ہو جائے تو ہمارا قرضہ کچھ کم ہو سکتا ہے، پاکستان میں ایک اندازے کے مطابق 6 لاکھ ٹن پٹرول اور 7 لاکھ ٹن ڈیزل استعمال ہو تا ہے اگر ایک پراڈکٹ پر 10 روپے اور بڑھ جائیں تو سال میں لگ بھگ 60 سے 65 ارب روپے ٹیکس جمع ہو سکتا ہے۔ اگر یہ ایک سال پہلے لگ جاتا تو اس طرح 1000 ارب جمع ہوتے۔
قرضہ کم ہوتا اور سود کی ادائیگی بھی کم ہو جاتی۔ گزشتہ حکومتیں تیل سستا کر کے خزانے سے پیسے استعمال کرتی رہیں جس کی وجہ سے قرضے میں کمی نہیں ہوئی اور سود بھی بڑھتا گیا، اب تحریک انصاف کی حکومت نے اس بات کا کچھ خیال کرنا شروع کیا ہے کہ اگر یہ حکومت بھی خزانے سے پیسے سبسڈی میں ڈالے تو قرضہ اور سود بڑھ جائے گا اور وہ ایسا گلے پڑے گا کہ اتارنا مشکل ہو جائے گا اور حکومت کو پھر مہنگائی کرنی پڑے گی۔
بہتر تو یہی ہے کہ یہ پراڈکٹ ایک بار مہنگی کر کے اسے یہیں کنٹرول کیا جائے۔ لیکن چونکہ پاکستان آئی ایم ایف کے پرو گرام کے تحت چل رہا ہے تو آگے مہنگائی مزید ہوگی، ریونیو کا ٹارگٹ 4.9 ٹریلین ہے وہ بھی حاصل کرنا ہو گا، تو پٹرولیم قیمتیں تو کم نہیں ہو سکتیں، تو لگ یہ رہا ہے کہ ابھی عوام کو ریلیف دینے کیلئے کچھ نہیں ہے، حالانکہ نومبر میں پٹرولیم پر لیوی 30 روپے تھا جو اب 21 روپے تک آ گیا ہے، تین ماہ میں لیوی 9 روپے کم ہوئی لیکن اس سے زیادہ نیچے جانا ممکن نہیں ہو گا۔
یہ ملک کیلئے بھی بہتر نہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ لوگوں کو پٹرول سے ہٹا کر بجلی کی طرف زیادہ سے زیادہ لائیں بجلی ہمارے پاس زیادہ ہے اور فالتو ہے جبکہ پٹرول امپورٹ کرنا پڑتا ہے قوم کو بجلی پر لانے سے بہت پیسے بچیں گے۔ جب پٹرول بڑھے گا تو اس سے منسلک دیگر چیزیں بھی مہنگی ہونگی ان میں سر فہرست بجلی ہے وہ بھی مہنگی ہو گی، گیس مصنوعات ہیں، ایل این جی ہے، وہ بھی مہنگی ہونگی۔ ماہر معاشیات کے مطابق دنیا بھر میں پٹرولیم پرائس تقریباً روزانہ کی بنیاد پر ردو بدل ہوتا ہے۔
پاکستان میں 15 روز بعد ردو بدل ہوتا ہے جو ہر ماہ سے بہتر ہے کہ 2 روپے کے حساب سے بڑھ رہا ہے یوں اچانک کنزیومر پر بڑا بوجھ نہیں پڑتا۔ لیکن ہمیں سنجیدگی کے ساتھ بجلی کے استعمال میں اضافہ پر سوچنا ہو گا، بجلی پاکستان میں ضرورت سے زیادہ ہے اور اس بجلی کے استعمال نہ کرنے پر بھی ہم بجلی بنانے والی کمپنیوں کو پیسے دینے کے پابند ہیں جسے سرکولرڈیٹ کہا جاتا ہے، بجلی کی گاڑیاں موٹر سائیکل چلانے پڑیں گے۔
حکومت اس بارے میں سوچ بھی رہی ہے اور اس پرکام بھی ہو رہا ہے جلد ہی اسلام آباد اور لاہور میں بجلی سے چلنے والی بسیں متعارف کرائی جائینگی، اس کے لئے کراچی سے لیکر پشاور تک ایک انفرا سٹرکچر بچھانا پڑے گا، جگہ جگہ جیسے پٹرول پمپ ہوتے ہیں اسی طرح بجلی کا سسٹم لگانا پڑے گاجسے چارجنگ اسٹیشن کہتے ہیں جہاں گاڑیاں چارج ہو سکیں۔
اب تو کئی ممالک ایسے ہیں جو 2025 تک گیسولین والی گاڑیاں بند کر رہے ہیں اور الیکٹرک گاڑیاں شروع کر رہے ہیں۔ اس سے انوائر مٹ بھی ٹھیک رہے گا۔ پاکستان میں ایک تو پٹرول مہنگا ہو رہا دوسرا سڑکیں خراب اور ٹریفک جام رہنے سے بھی پٹرول زیادہ خرچ ہو رہا اور ضائع ہو رہا ہے اس طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس ماحولیاتی آلودگی بھی ٹھیک رہے گی، جو سب سے بڑا فائدہ ہو گا۔
دوسرے ممالک گیسولین کی بجائے الیکٹرک گاڑیاں اس لئے چلا رہے ہیں کہ وہ ماحول کو بہتر رکھنا چاہتے ہیں ان کے لئے پٹرولیم پرائس کوئی مسئلہ نہیں۔ کل کو جو اگلی نسل آئے گی وہ صاف ہوا میں سانس لے سکے وہ آنے والے وقت کا سوچتے ہیں۔
اب ہمیں بھی اپنی آنے والی نسل کے بارے میں سوچنا ہو گا انہیں کس طرح کا پاکستان دینا ہے، حکومت نے بجلی سے چلنے والی بسوں کا اعلان کیا ہے وہ کب چلتی ہیں دیکھنا ہے۔ اگر بجلی سے چلنے والی بسیں اور ٹرک چل پڑیں تو پٹرول اور ڈیزل پر انحصار کم ہو جائے گا اور ہمارا ذر مبادلہ بچے گا۔