جب سے کورونا آیا ہے تب سے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد متاثر ہوئے ہیں اور زیادہ تر غریب افراد متا ثر ہوئے ہیں۔ بے شمار ملکوں میں روز گار کے مواقع ختم ہو گئے، لاکھوں لوگ بے روز گار ہوئے کارو بار ختم ہو گئے۔ ملکوں کی معیشت متاثر ہوئی ظاہر ہے اس کا اثر پاکستان پر بھی ہوا، کورونا سے ترقی یافتہ ممالک متاثر ہوئے ہیں تو کیسے ممکن ہے کہ ترقی پذیر ممالک اس کی زد میں نہ آئے ہوں، وزیر اعظم عمران خان یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم لاک ڈائون کے متحمل نہیں ہو سکتے اگر لاک ڈائون کیا گیا تو غریب آدمی تو بھوک سے ہی مرجائے گا۔ رواں مالی سال کے نو ماہ میں پاکستان کی مجموعی برآمدات کا محض 14.91 فیصد ہے۔ دنیا بھر میں بر آمدات میں کمی ہوئی۔ پروازیں بند رہیں، تجارت رک گئی، معیشت رک گئی، پاکستان میں لاک ڈائون نہ ہونے کی وجہ سے تھوڑا بہت کام چل رہا ہے، خاص طور پر کنسٹرکشن کے شعبے میں بہت کام ہو رہا، اس کی وجہ سے روز گار چل رہا ہے۔ لیکن پاکستان میں کچھ اچھا بھی ہو رہا ہے جیسے ایشین ڈویلپمنٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی معیشت اس سال 2 اگلے سال 4 فیصد شرح سے ترقی کرے گی جبکہ مہنگائی 8.7 فیصد کی کم سطح پر رہنے کا امکان ہے۔ بنک کا کہنا ہے کہ کرونا ویکسین کی فراہمی میں تیزی اور اصلاحات کا عمل جاری رکھنا ہوگا۔
فوڈ سپلائی میں بہتری، گندم، چینی پر سبسڈی اور قیمتوں کی نگرانی سے کمی آئے گی۔ روزگار کے نئے مواقع پیدا کرنے کیلئے ایس ایم ایز کو قرضوں کی فراہمی ضروری قرار دی گئی ہے جبکہ کاروبار کیلئے لائسنس یا رجسٹریشن میں آسانی اور ڈیجیٹلائزیشن پر زور دیا گیا۔ مینوفیکچرنگ اور تعمیرات سمیت صنعتی شعبے میں مضبوط گروتھ متوقع ہے۔ البتہ کپاس کی پیداوار میں کمی اور شدید بارشوں کی وجہ سے زرعی شعبہ متاثر ہو سکتا ہے۔ سٹیٹ بینک نے بتایا ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے صرف 7 ماہ میں 1 ارب ڈالر سے زیادہ رقوم اپنے وطن بھجوائیں۔ اسٹیٹ بینک نے اوورسیز پاکستانیوں کیلئے سرمایہ کاری سے متعلق نئی سہولیات متعارف کرانے کا عندیہ بھی دے دیا۔ وزیراعظم عمران خان نے ستمبر 2020 میں روشن ڈیجیٹل اسکیم متعارف کروائی تھی۔ مارچ 2021 تک روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس میں 80 کروڑ60 لاکھ ڈالر آئے تھے۔ جون 2021 تک ان اکاؤنٹس میں 1 ارب ڈالر کا تخمینہ تھا جو 2 ماہ پہلے یعنی اپریل 2021 میں ہی حاصل ہوگیاہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق 100 سے زیادہ ممالک میں مقیم پاکستانیوں نے ایک لاکھ سے زیادہ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کھلوائے ہیں۔ آن لائن پورٹل کے ذریعے سرکاری بانڈز، اسٹاک ایکس چینج اور رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کی سہولت موجود ہیں۔
نیا پاکستان سرٹیفکیٹ اسکیم بھی سمندر پار پاکستانیوں کیلئے متعارف کرائی گئی۔ اس اسکیم کے تحت ڈالر میں 5 سالہ سرمایہ کاری پر7 فیصدشرح منافع جبکہ مقامی کرنسی میں سرمایہ کاری پر 11 فیصد منافع کی پیشکش شامل ہے۔ ماہرین معاشیات کا کہناہے کہ پاکستان کی اپنے 9 علاقائی ممالک کو برآمدات 507 کم ہو گئی ہے، لیکن پھر بھی پاکستان میں پچھلے 9 ماہ میں کچھ گروتھ دیکھی گئی ہے ہماری کرنسی 10 سے 12 فیصد بہتر ہوئی ہے اس سے ہماری ایکسپورٹ پر اثر ہو گا، کرنسی بہتر ہونے سے جو ممالک پاکستان سے چیزیں لیتے ہیں انہیں وہ چیزیں سستی پڑیں گی تو بر آمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے، اس وقت بھارت میں کورونا کی شدید لہر آئی ہوئی ہے اس کی درآمدات و بر آمدات کم ہو رہی ہیں۔ کورونا کی وجہ سے دوسرے ممالک بھارت سے اب تجارت میں کمی کر رہے ہیں تو اس کا متبادل پاکستان ہو سکتا ہے پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اٹھانا بھی چاہئے، پاکستان نے ٹیکسٹائل اور ٹیکنالوجی میں اچھے پوزیشن دکھائی ہے، اس لئے بھارت کو ملنے والے آرڈر پاکستان کو مل سکتے ہیں، اگلے تین سے چار مہینے بہتری لا سکتے ہیں، دوسری بات جیسے یورپی یونین نے ایک بلاک بنایا ہوا ہے توہمارے ہاں بھی ٹریڈ بلاک بن سکتا ہے اس میں چین، روس، ایران، افغانستان، ترکی، بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا اور دیگر ممالک ہیں، یہاں کی پاپولیشن بہت زیادہ ہے آپس میں ٹریڈ کی جائے تو سارے ملک بہتر پوزیشن میں آ سکتے ہیں ان ممالک کی آبادی دنیا کی 50 فیصد سے زائد بنتی ہے جہاں آبادی ہو گی وہاں فوائد زیادہ ہوں گے، تجارت اچھی ہو گی، سستی ہو گی، ہماری ان ممالک کے ساتھ اچھی تجارت ہونی چاہئے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم کیا بہتر بناسکتے ہیں، پڑوسی ممالک میں کس چیز کی مانگ ہے اس طرف توجہ دینی ہو گی۔ بہت کچھ ہے کرنے کو۔
بھارت کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر نہیں ہیں کچھ چیزیں ہیں جن پر کمپرو مائز نہیں کیا جا سکتا لیکن ساتھ ساتھ تجارت کی جا سکتی ہے بھارت، چین، افغانستان اور ایران یہ توہمارے ہمسائے ہیں پھر بنگلہ دیش، ترکی روس کچھ ہٹ کر ہیں انہیں ساتھ لے کر چلنا چاہئے۔ یہ ممالک آپس میں ہی تجارت کریں تو تمام ممالک کو بے حد فائدہ ہو سکتا ہے اگر پاکستان اور چین کا 12 سے 14 ارب ڈالر کی تجارت ہے تو بھارت کے ساتھ اس سے ڈبل ہو سکتی ہے ہمیں پورے خطے کو دیکھنا ہے۔ پاکستان میں کورونا کی وجہ سے یا گورننس بہتر نہ ہونے سے مہنگائی نہ کم ہو رہی ہے نہ رک رہی ہے، حکومت کو ادھر خاص توجہ دینی ہو گی۔ پاکستان بڑا زرعی ملک ہے اس میں ہر قسم کی اجناس اگائی جاتی ہے اور تمام اجناس وافر مقدار میں ہیں لیکن پھر میں یہ اجناس مہنگی ہونا لمحہ فکر ہے۔ ابھی گندم کی فصل آنے والی ہے تو آٹا سستا ہونا چاہئے، گندم سستی ہونی چاہئے، چینی آٹا دالیں چاول گھی یہ چیزیں سستی ہونگی تو عوام کو ریلیف ملے گا ابھی سبزیاں اور پھل قدرے سستے ہیں یہ تین چار چیزیں سستی ہو جائیں تو غریب کو سکھ کا سانس ملے گا کسانوں کو سہولتیں دینا ہونگی۔ جیسا کہ وزیر اعظم نے اعلان بھی کیا ہے کہ کسان کارڈ کے اجراء سے ماڈرن ایگری کلچرل کی طرف جا رہے ہیں، خوشی ہے کہ پنجاب حکومت نے کسانوں کے لیے انقلابی اقدا مات کیے، ہمارے دور میں کسانوں کو 500 ارب روپے اضافی ملے، دو سالوں میں گندم کی سپورٹ پرائس 500 روپے بڑھی۔ ان کا کہنا تھا کہ کسان کارڈ کے ذریعے کسانوں کو قرضے ملیں گے، فصلوں کی قیمتیں گرنے پر بھی کسان کارڈ کے ذریعے ان کی مدد کریں گے، جتنا کسان مضبوط ہوگا ہم اپنے ملک کو مضبوط کریں گے۔
جب فصل خراب ہوتی ہے تو کسان کے حالات خراب ہوتے ہیں، پانی کی کمی کے باعث زرعی پیداوار کم ہو جاتی ہے، دو ڈیم بنا رہے ہیں جس سے کسانوں کو اضافی پانی ملے گا۔ وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ چین سے بات کرکے ایگری کلچرل کو سی پیک میں لے آئے ہیں، ایگری کلچر میں چین کی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھائیں گے، ریسرچ انسٹی ٹیوشن کو بہتر بنا رہے ہیں۔ ، ٹیکنالوجی کی طرف جانے سے کرپشن نیچے آتی رہے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک دو سال میں تبدیلی نظر آئے گی، پاکستان میں اس سال گندم کی پیداوار کا ریکارڈ ٹوٹ جائے گا، ہم 25کروڑ ڈالر دودھ اور چیز کی ایکسپورٹ سے کما سکتے ہیں۔ حکومت اچھے اقدامات کر رہی ہے لیکن کورونا ان اقدامات کا پھل عوام تک نہیں پہنچنے دے رہا، ابھی رمضان چل رہا ہے رمضان میں قیمتیں ایک دم اوپر چلی گئیں، چینی مل نہیں رہی رمضان بازاروں میں دو کلو چینی لینے کیلئے قطاریں لگا نی پڑ رہی ہیں، حکومت کو ان عناصر کو تلاش کرنا ہوگاجو حکومت اور عوام کے درمیان دوریاں پیدا کر رہے ہیں، وزیر اعظم کی نیت پر شک نہیں لیکن گورننس ایشو ہیں ان پر قابو پانا ہوگا۔