پاکستان میں آئی ایم ایف پروگرام نئے انداز سے جاری ہونے والا ہے۔ حکومت آئی ایم ایف کی تسلی کرانے کے لئے تمام اقدامات پر پوری طرح سے عمل پیرا ہے تا کہ یہ پروگرام پوری طرح سے دوبارہ شروع ہو سکے۔ اس سلسلے میں متعدد اقدامات کئے گئے ہیں۔ بہت اہم اقدامات تھے، جو وفاقی کابینہ کے سامنے رکھے گئے اور انکی منظوری دی گئی۔ ان اقدامات میں سٹیٹ بنک کے خود مختار قانون میں ترمیمی رول کے حوالے سے منظوری دی گئی، اس کے علاوہ قومی کارپوریشن کے حوالے سے ایک جامع پروگرام ترتیب دیا گیا ہے، اب ان تمام کارپوریشنز کو حکومتی گرفت سے آ زاد کرنے کی ایک کوشش کی گئی ہے۔
دونوں چیزیں یعنی سٹیٹ بنک کی خود مختاری اور قومی کارپوریشنز کے حوالے سے جامع نظام، سب آئی ایم ایف کی فرمائش تھی۔ اس کے ساتھ ہی انکم ٹیکس ترمیمی بل کی بھی منظوری دی گئی ہے، اور اس کے تحت وہ تمام انکم ٹیکس چھوٹ جو حالیہ سالوں میں دی گئی تھیں، سب واپس لے لی گئی ہیں۔ یہ بھی آئی ایم ایف کی ڈیمانڈ تھی۔ نیب کے مجوزہ قوانین کے تحت سٹیٹ بنک پر انتظامی سیاسی اثرورسوخ کو مکمل طور پر ختم کردیا جائے گا۔
نیب اور ایف آئی اے اب بنک کے موجودہ اور سابق گورنرز ڈپٹی گورنرز بورڈ آف گورنرز کے عہدیداروں سے تفتیش نہیں کر سکیں گے۔ دوسری جانب انکم ٹیکس ترمیمی بل کے مطابق 80 شعبہ جات کو 140 ارب روپے سے زائد انکم ٹیکس مراعات ختم کردی جائینگی۔ آئی ایم ایف کی کڑی شرائط پر پورا اترنے کیلے حکومت غیر مقبول اور سخت فیصلے کر رہی ہے اور آئی ا یم ایف کی تجویز پر ہی حکومت نے ڈیڑھ ماہ قبل گھریلو صارفین کے لئے بجلی کے نرخ میں ایک روپیہ 95 پیسے فی یونٹ اضافہ کیا تھا، اب سٹیٹ بنک کا ایک نیا خود مختار بورڈ آف ڈائریکٹرز ہو گا، گورنر اور ڈپٹی گورنر کا عہدہ اب تین نہیں پانچ سال کے لئے ہو گا۔ آئی ایم ایف کی ایک اور شرط جو پاکستان کی بھی ضرورت ہے کہ پاکستان کی قومی کارپوریشنز جو سالانہ پاکستان کے خزانے سے تقریباً ایک ہزار ارب روپے کھا جاتی ہیں، جو ابک بہت بڑا لیکیج ہے، پاکستان کی معیشت اور پاکستان کے خزانے کے لئے ان کو ایک بہترین نظام کے تحت لایا جائے، انکو چلایا جائے، بیورو کریسی سے آزاد کیا جائے۔ اگرچہ اڑھائی سال ہو گئے ہیں لیکن اب یہ قدم اٹھایا گیا ہے اس سلسلے میں مشیر خزانہ حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ جو حکومتی ادا رے ہیں، وہ کس انداز سے چل رہے ہیں۔ کسی کے اپنے قوانین ہیں، کوئی سکیورٹی ایکسچینج کے انڈر ہیں، کوئی سٹاک مارکیٹ میں لسٹڈ ہیں، کوئی براہ راست متعلقہ ادارے کو رپورٹ کر رہا ہے، ایک کھچڑی سے پکی ہوئی ہے۔
کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ ان سب کو ایک قانون کے تحت مرکزی انداز میں چلایا جائے اور وزارتوں کی دخل اندازی کو کم کیا جائے۔ وزارتوں کی بجائے ان کو مکمل طور پر حکومت کے ماتحت کیا جائے جو ان کے بورڈز اور چیئرمین ہیں، ان کا تقرر بھی صاف شفاف انداز میں حکومت کرے۔ ان کے سی ای اوز کمپنیوں کے اپنے بورڈز مقرر کرینگے۔ وفاقی کابینہ کی مجوزہ ترامیم کے مطابق آئی پی پیز، رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ اس کے علاوہ اس قسم کی جتنی ٹیکس چھوٹ دی گئی تھی وہ واپس لے لی جائیں گی۔ اسٹاک مارکیٹ میں نیم کمپنی کی لسٹنگ پر ٹیکس کریڈٹ واپس لینے کی تجویز ہے۔ آئل ریفائنری میں سرمایہ کاری پر دی گئی، انکم ٹیکس کی چھوٹ بھی موجودہ سال تک برقرار رہے گی، اسپیشل اکنامک زون، سندھ کول پراجیکٹ اورنئے کارو بار شروع کرنے کے حوالے سے زون، آئی ٹی ایکسپورٹ اور ٹیکس کے شعبہ میں اصلاحات کی جائینگی۔ اس کے علاوہ اسکوک بانڈز اور مضاربہ پر انکم ٹیکس مراعات بھی ختم کی جا رہی ہیں۔ ظاہر ہے یہ بہت دور رس اقدامات ہیں۔ اس کے علاوہ بجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ ٹیکس کی جو مراعات واپس لی گئی ہیں اس کے بارے میں حفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ٹیکسز کا جو نظام ہے اس میں خصوصی کمپنیوں کو یا خصوصی سیکٹرز کوکئی طرح کی چھوٹ ہیں، قانون کا مقصد ہے کہ ان ٹیکس چھوٹ میں کمی کی جائے تا کہ جو ٹیکس نظام ہو وہ یونیفارم ہو۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ جو ٹیکس چھوٹ دی گئی تھیں، وہ بہت زیادہ تھیں، یہ چھوٹ نہیں دینی چاہیئںتھیں کیونکہ اس کی وجہ سے ٹیکس کلیکشن خراب ہوتی ہے اور مارکیٹ میں صورتحال بہتر نہیں ہوتی۔ ٹیکس چھوٹ اس لئے دی جاتی ہے کہ اس شعبے کی پر فارمنس بہتر ہو، لیکن دیکھا گیا کہ ایسا ہوا نہیں۔ کافی عرصہ سے بحث چل رہی تھی کہ جو ٹیکس چھوٹ دی گئی ہیں وہ بہت زیادہ ہیں، اتنی چھوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ یہ نہیں دیکھنا کہ آئی ایم ایف کیا کہ رہا ہے کیا نہیں۔
ہمارے ملک میں ایک عرصے سے ایک طبقے کا یہ مطالبہ تھا کہ اس ٹیکس چھوٹ کو آہستہ آہستہ ختم کیا جائے، اب دیکھنا یہ ہے کہ کس شعبے میں چھوٹ دینی بنتی ہے، کس شعبے میں دی گئی ہے۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں جو نئی ہوتی ہیں، نئی چیزوں پر دنیا جہان میں چھوٹ دی جاتی ہے۔ اب حکومت جو اقدامات لے رہی ہے ان اداروں کی خود مختاری بہت ضروری ہے۔ جب یہ آزاد نہیں تھے اور حکومت کے ماتحت کام کر رہے تھے تو ان کا حشر دیکھ لیں جو ہوا۔
جب یہ ادارے خود مختار ہونگے ان کے آزادانہ بورڈ بنیں گے تو ان اداروں کی پر فارمنس بہتر ہوگی، اللہ کرے یہ کامیاب ہو۔ کئی دہائیوں سے یہ سنتے آئے ہیں کہ سٹیٹ بنک کو خود مختار ہونا چاہیے۔ مہذب دنیا میں سنٹرل بنک خود مختار ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بات چیت چلتی تھی لیکن پھر پیچھے ہٹ جاتے تھے۔ پہلی بار ایک ٹھوس اقدام نظر آ یاہے۔ سٹیٹ بنک ایک مضبوط ادارہ ہے، اسے آزادانہ طور پر کام کرنے دیا جائے تو یہ بہت اچھا کام کرے گا۔ حالانکہ وزارت خزانہ اور حکومت کے لئے یہ آسان کام نہیں کہ سٹیٹ بنک کو آزاد کردے، کسی بھی حکومت کے لئے مشکل فیصلے پاپولر نہیں ہوتے، خاص طور پر بجلی مہنگی کرنا بہت مشکل فیصلہ ہے، پاور سیکٹر کا نظام جتنا درہم برہم ہے وہ سب کو پتہ ہے۔
اس کو ٹھیک کرنے کے لئے جو بھی قدم اٹھایا جائے گا وہ مشکل ہو گا۔ ہر فیصلے پر تنقید بھی ہو گی لیکن ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ ہر 5 سال بعد ہم آئی ایم ایف کے پاس پہنچے ہو تے ہیں اسے اب ختم کرنا ہو گا۔ کچھ عرصہ قبل حکومت نے آئی پی پیز سے کچھ معاہدہ کئے، جس سے بجلی سستی ملنے کی امید پیدا ہو ئی۔ یہ حقیقت ہے کہ بجلی سستی ہوگئی توملکی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ پھر پاکستان کو ترقی کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ پاکستان کی چین، بھارت اوربنگلادیش کے ساتھ مقابلہ میں ایک ہی چیز بجلی کی قیمت ہے۔ پاکستان میں بجلی کی قیمت کم ہو نے سے پاکستان دنیا میں ایک نیا تجارتی کھلاڑی بن سکتا ہے۔ صنعتوں اور عوام کو سستی بجلی ملنے سے ملک معاشی ترقی کی طرف گامزن ہو گا۔