Wednesday, 04 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Boycott Kyun Zaroori Hai

Boycott Kyun Zaroori Hai

پنجاب اسمبلی نے نکاح نامے میں ختم نبوت کی شق کا اضافہ کیا تو عام افراد کے ساتھ بعض سنجیدہ اور اہل علم شخصیات نے بھی اس فیصلے پر طنز کیا۔ اور اس کے ساتھ یہ بحث بھی وائرل ہوئی کہ آئینی و اخلاقی طور پر قادیانیوں کا بائیکاٹ کوئی دینی حکم نہیں اور نہ ہی اس کی گنجائش ہے۔ ہمیں قادیانیوں کو بھی دیگر غیر مسلموں کی طرح ڈیل کرنا چاہئے، جب ہم دیگر غیر مسلموں کے ساتھ ہر طرح کے معاملات کرتے اور تعلقات رکھتے ہیں تو قادیانیوں کو بھی یہ رعایت ملنی چاہئے۔

میرے خیال میں قادیانیوں اور دیگر غیر مسلموں میں دو وجہ سے فرق کی ضرورت ہے۔ ایک، عام غیر مسلم جو پاکستان میں اقلیت کے نام سے رہ رہے ہیں وہ پاکستان کے آئین کو مانتے ہیں اور آئین میں لکھے ہوئے حقوق کے مطابق انہیں تمام حقوق بھی میسر ہیں جبکہ قادیانیوں کا معاملہ بر عکس ہے۔

وہ پاکستانی آئین کو اس لیے تسلیم نہیں کرتے کہ اس میں انہیں غیر مسلم ڈکلیئر کیا گیا ہے، وہ بزعم خود مسلمان ہیں اور آئین پاکستان میں لکھے ہوئے اس فیصلے کے خلاف قومی اور بین الاقوامی سطح پر مورچہ زن ہیں۔ دو، دیگر غیر مسلم اپنی آئینی حدود میں رہتے اور خود کو مسلمان ڈکلیئر کر کے سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکا نہیں دیتے جبکہ قادیانی یہاں بھی آئین پاکستان کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

یہ خود کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور سادہ لوح مسلمانوں کو قادیانی بنانے کے لیے ہر لمحہ سرگرم ہیں اور اس کے لیے جھوٹ، دھوکا، پیسہ اور جنس تمام طریقے استعمال کر رہے ہیں۔ ان کا سب سے مقبول طریقہ واردات شادی اور نکاح ہے، یہ رشتہ کرتے وقت اپنی اصلیت چھپاتے اور خود کو مسلمان ڈکلیئر کرتے ہیں، مسلمانوں جیسا کلمہ اور نماز پڑھتے ہیں اور دوسرے گھرانے کو کسی طرح بھی گمان نہیں ہونے دیتے کہ وہ قادیانی ہیں۔

رشتہ کرتے وقت کہا جاتا ہے لڑکا باہر ہے، جیسے ہی نکاح کی تاریخ فکس ہو گی لڑکا آئے گا اور نکاح کے بعد لڑکی کو ساتھ لے جائے گا۔ نکاح کے بعد جب لڑکی باہر جاتی ہے تب راز کھلتا ہے کہ یہ تو قادیانی ہیں۔ یورپی ممالک میں قادیانیوں کے بڑے بڑے دعوتی مراکز بنے ہوئے ہیں، لڑکا حیلے بہانوں سے لڑکی کو ان مراکز میں لے جاتا ہے اور قادیانیت کے لیے ذہن سازی کرتا ہے، کوئی بہت ہی راسخ العقیدہ لڑکی ہو تو ان کے چنگل سے بچ جاتی ہے ورنہ اکثر صورتوں میں یہ قادیانی بننے پر مجبور کر دیتے ہیں، لاہور میں ایسے کئی کیسز ہو چکے ہیں۔

اس مقصد کے لیے انہوں نے باقاعدہ پروفیشنل لڑکوں کا ایک گروپ بنا رکھا ہے جو مستقل طور پر یورپ میں سیٹل ہیں، رشتہ طے کرنے کے بعد انہیں باہر سے بلایا جاتا ہے، نکاح کے بعد لڑکی کو ساتھ لے جاتے ہیں وہاں جا کر وہ قادیانی بن جائے تو ٹھیک ورنہ اسے چھوڑ کر کسی اور مسلمان کا ایمان لوٹنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ ان دو وجوہات کی بنا پر میرے خیال میں قادیانیوں اور دیگر غیر مسلموں میں فرق کرنا ایمان اور پاکستانی آئین کا تقاضا ہے۔

ان تمام تر حقائق اور شواہد کے پیش نظر ہمیں نکاح نامے میں ختم نبوت کی شق کے فیصلے کی اہمیت کا اندازہ ہو جانا چاہئے اور اس کے ساتھ ہمیں یہ بھی اندازہ ہو جانا چاہئے کہ اس طرح کے کسی بھی فیصلے پر قیاس آرائی سے قبل ہمیں اصل سٹیک ہولڈرز کا نکتہ نظر بھی سمجھنا چاہئے، مثلاً اس مسئلے میں اصل سٹیک ہولڈرز شبان، عالمی مجلس، احرار اور ختم نبوت کے حوالے سے متحرک دیگر گروپس ہیں اور ان گروپس کے پاس ایسے بیسیوں شواہد موجود ہیں جن میں قادیانیوں نے دھوکے سے شادی کی اور بعد میں بیٹی کو قادیانی بننے پر مجبور کیا۔

نکاح نامے میں اس شق کی شمولیت سے کسی ایک مسلمان بچی یا بچے کا ایمان بھی بچ گیا تو یہ دنیا و مافیہا سے بہتر ہے۔ اس لیے اس فیصلے پر استہزا اور طنز کرنے والے احباب کو اندازہ ہونا چاہئے کہ وہ وقتی داد سمیٹنے کے لیے کتنے غیر سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جس طرح شر، بے دینی، الحاد اور نئے فتنے متنوع راستوں سے داخل ہو رہے ہیں، اسی طر ح مذہب اور دینی فکر سے جڑے افراد کو بھی متنوع جہات پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی ایک جہت پر کام کر نے والے کو زیب نہیں دیتا کہ وہ دوسری جہات پر کام کرنے والے پر طنز یا استہزا کرے یا اس کام کا سرے سے ہی انکار کر دے۔

ایک اہم اعتراض قادیانیوں کے بائیکاٹ کے حوالے سے کیا جاتا ہے کہ جب دیگر غیر مسلموں کے ساتھ معاملات کیے جا سکتے ہیں تو قادیانیوں کے ساتھ کیوں نہیں۔ اس کا عام فہم جواب یہ ہے کہ دیگر غیر مسلم، مسلمانوں کا روپ دھار کر اور شعائر اسلامی کو استعمال کر کے سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکا نہیں دیتے اور تعلقات کا جھانسہ دے کر مسلمانوں کا ایمان نہیں لوٹتے۔ جبکہ قادیانیوں کا طریقہ واردات ہی یہی ہے کہ شعائر اسلامی اپنا کر اور تعلقات کا جھانسہ دے کر سادہ لوح مسلمانوں کا ایمان لوٹتے ہیں۔

بائیکاٹ کی دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ان کے تمام اہم اداروں اور افراد کی کمائی کا ایک مختص حصہ جماعت کے کاموں کے لیے وقف ہوتا ہے۔ کمائی کا یہ حصہ قادیانی اخبارات، قادیانی لٹریچر، تبلیغی سرگرمیاں، قادیانی مبلغین کے وظائف اور دیگر امور پر خرچ ہوتا ہے۔ آپ صرف شیزان کمپنی کو دیکھ لیں، شیزان قادیانیوں کا ملکیتی اور قادیانی جماعت کی بھرپور مالی معاونت کرنے والا ادارہ ہے، اس کی آمدنی میں سے اکثر سرمایہ قادیانیت کی جھوٹی تشہیر کے لیے خرچ کیا جاتا ہے، یہ اسی کی دہائی سے اب تک ہر سال کروڑوں روپیہ اس فنڈ میں جمع کراتے ہیں۔

قادیانیت کا اکثر لٹریچر جس میں قادیانی اخبارات اور درجنوں رسائل و جرائد شامل ہیں، شیزان انہیں بڑے بڑے اشتہارات دے کر انہیں مالی طور پر مستحکم کرتا ہے۔ سادہ لوح مسلمانوں کو قادیانی بنانے اور ارتداد پھیلانے والے قادیانی طلبا اور مربیوں کے لیے شیزان نے باقاعدہ وظائف مقرر کر رکھے ہیں۔ اکثر قادیانی رسائل کے خاص نمبر میں شیزان کے خصوصی اشتہارات چھپتے ہیں۔ پھر صرف شیزان نہیں بلکہ ہر قادیانی اپنی کمائی کا ایک مختص حصہ چندہ میں دیتے ہیں اور انہی پیسوں سے قادیانی لٹریچر، مربیوں کے وظائف اور دیگر اخراجات پورے کیے جاتے ہیں۔

اس لیے جب تک یہ پاکستانی آئین کے مطابق خود کو غیر مسلم نہیں مانتے اور آئین کے خلاف ورزی کرتے ہوئے سادہ لوح مسلمانوں کو شعائر اسلامی اپنا کر اور شادی و تعلقات کا جھانسہ دے کر قادیانی بنانے سے باز نہیں آتے تب تک ان کا سماجی و معاشی بائیکاٹ ضروری ہے۔ سماجی بائیکاٹ سے سادہ لوح مسلمان ان کے چنگل میں نہیں پھنسیں گے اور معاشی بائیکاٹ سے ان کی سرگرمیوں پر خرچ ہونے والے سرمائے پر زد پڑے گی۔

ہاں کوئی صاحب علم دعوتی مقاصد کے لیے ان سے روابط اور میل جول رکھے تو اس کی گنجائش بہرحال موجود ہے۔