Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Funoon e Lateefa Aur Aitadal

Funoon e Lateefa Aur Aitadal

میں خاموشی سے ان کی بات سنتا رہا، انہیں میرے پچھلے کالمز پر اعتراض تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی سماج فنون لطیفہ کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا اور فنون لطیفہ انسان کی جمالیاتی حس کی تکمیل کرتے ہیں۔ میں نے عرض کیا مجھے آپ کی بات سے نہ صرف اتفاق ہے بلکہ اسلامی تہذیب کی پچھلی چودہ صدیاں فنون لطیفہ کی بہترین عکاس ہیں مگر ماضی اور دور جدید کے فنون لطیفہ میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

اسلامی تہذیب کا بنیادی اور اہم ترین وصف اعتدال ہے، اللہ نے قرآن میں ہمیں امت وسط کہا ہے، رسول اللہﷺ نے بھی میانہ روی اور اعتدال پسندی کو بہترین حکمت عملی قرار دیا ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح دور جدید کا انسان فنون لطیفہ میں بھی اعتدال کو فراموش کر چکا ہے اور یہیں سے سارے مسائل پیدا ہوئے ہیں۔

جب ہم اعتدال کی بات کرتے ہیں تو لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلامی معاشرہ صرف زہد و عبادت پر زور دیتا ہے جہاں ہنسنے، مسکرانے، کھیل کود، فرصت و شادمانی کے اظہار کی کوئی گنجائش نہیں۔ جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے اسلام ایک حقیقت پسند دین ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں جسم، روح، عقل و وجدان سے بحث کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ حدود و اعتدال میں رہتے ہوئے ان تمام کو غذا فراہم کی جائے۔

فنون لطیفہ کی روح احساس حسن و جمال ہے اور قرآن نے بارہا اس کی طرف متوجہ کیا ہے۔ مثلاً قرآن ایک طرف اشیا کے حسن و جمال کی جانب متوجہ کرتا ہے اور اس کے ساتھ ان کے نفع بخش پہلووں کو بھی نظر انداز نہیں کرتا۔ اللہ نے کائنات کے اندر مختلف انداز میں حسن کا سامان پیدا کر رکھا ہے، جگہ جگہ قدرتی مناظر ہیں، حسین مخلوقات ہیں، خوبصورت جذبات ہیں اور اس سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ خود جمیل ہیں اور جمال کو پسند کرتے ہیں۔ نبی اکرم نے بھی حسن و جمال کو نہ صرف پسند فرمایا بلکہ اس کے اظہار کی بھی دعوت دی ہے۔ مثلاً ایک حدیث میں ارشاد فرمایا اللہ نے اگر کسی کو

صاحب ثروت بنایا ہو تو اس کے قول و عمل سے اس کا اظہار ہونا چاہئے۔ اسی طرح آپ نے فنون لطیفہ کے اظہار کی بھی دعوت دی، آپ نے کعب بن زہیرؓ کا مشہور قصیدہ "بانت سعاد" سنا اور اس سے متاثر ہوئے۔ نابغہ جعدیؓ کے قصیدہ کو آپ نے سراہا اور ان کے لیے دعا فرمائی۔ آپ کے عہد میں لغوی فنون کو اہم مقام حاصل تھا۔ آپ نے ان فنون کی نگرانی کی تاکہ انھیں مقاصد رسالت کے حصول کے لیے استعمال کیا جا سکے۔

آپ نے حضرت حسان بن ثابتؓ سے فرمایا قریش کی ہجو بیان کرو کیوں کہ ہجو ان پر تیروں کی بارش سے بھی زیادہ گراں گزرتی ہے۔ حضرت حسان بن ثابتؓ نے اپنے اشعار کے ذریعے اس ذمہ داری کو بحسن و خوبی نبھایا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں میں نے اللہ کے رسول کو حسانؓ سے بات کرتے ہوئے سنا کہ جب تک تم اللہ اور اس کے رسول کا دفاع کرتے رہو گے، روح القدس تمہاری تائید کرتے رہیں گے اور یہ کہ حسانؓ نے قریش کی ہجو کی تو مومنوں کے دلوں کو شفا نصیب ہوئی اور کافروں کی عزت کو تباہ کر دیا۔

اسلام نے سمعی و بصری فنون کی بھی پذیرائی کی ہے۔ مثلاً غنا، نغمہ، اونٹوں کو ہانکنے والے گیت، نغمات، اذان اور ترتیل وغیرہ سمعی فنون کی جتنی بھی شکلیں تھیں وہ سب مسلمانوں کی عملی زندگی کا مظہر تھیں۔ قرآن کی مختلف سورتیں بصری فنون سے بھری پڑی ہیں، تصویروں کے ذریعے تعبیر و اظہار بصری فنون کا اہم پہلو ہے اور قرآن اس سے بھرا پڑا ہے، قرآن ایک منظر کو کینوس پر اتارتا ہے، جس میں ان کافروں کی تصویر کشی کی گئی ہے جنہیں حق، دعوت حق اور ہدایت حق سے کنارہ کشی نے اس اندھے بہرے جیسا بنا دیا جس کی عقلی صلاحیتیں معطل ہو چکی ہیں۔

بصری فنون کے ذریعے انسان آسمانوں، زمین اور آفاق و انفس میں غور و فکر کر کے اللہ پر ایمان تک پہنچتا ہے، اللہ کی قدرت و قہر اور اس کے جمال و جلال پر ایمان لاتا ہے، زمین و آسمان کا ہر منظر اللہ کی تسبیح اور ذکر کو لازم کرتا ہے اور یہ ذکر و تسبیح ہی ایمانی مقاصد کا لب لباب ہے۔ اللہ کے رسول نے بھی بصری فنون کو نہ صرف برتا بلکہ معانی کو ذہن نشین کرانے اور گفتگو کا مقصد حاصل کرنے کے لیے بصری فنون کا استعمال کیا ہے۔

امام احمدؒ نے اپنی مسند میں ذکر کیا ہے کہ اللہ کے رسول نے اپنے ہاتھ سے ایک لائن کھینچی پھر فرمایا یہ اللہ کا راستہ ہے سیدھا، پھر آپ نے اس لائن کے دائیں بائیں ایک ایک لائن کھینچی اور فرمایا یہ وہ راستے ہیں جن میں سے کوئی بھی راستہ ایسا نہیں ہے جس پر شیطان اپنی طرف بلانے کے لیے موجود نہ ہو۔

ان واقعات و استدلال سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام فنون لطیفہ کی نہ صرف پذیرائی کرتا ہے بلکہ از خود اس کی دعوت دیتا ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اس میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی تہذیب کے متعارف کردہ فنون مغربی تہذیب کے پیدا کردہ فنون سے یکسر مختلف ہیں۔

مسلمانوں کے فنون ایک مختلف علمی پس منظر اور ایک ایسے دینی و مذہبی ماحول میں پروان چڑھے ہیں جن کا بنیادی مرجع اسلام ہے۔ حیاتی، ترکیبی اور عبادتی پہلو سے ان فنون کے اندر اسلامی فن کی نمایاں خصوصیات پائی جاتی ہیں بلکہ ان فنون کا بنیادی نمونہ و اسلوب قرآنی قصے اور رسول اللہ ﷺ کی مہکتی سیرت و زندگی ہے۔ ان سے توحید کی خوشبو ٹپکتی ہے اور اسی وجہ سے ان فنون سے ذمہ داری اور محبت و شفقت کی اقدار برآمد ہوتی ہیں۔ قرآنی قصے اپنی شکل میں محض ایک قصہ یا واقعہ نہیں بلکہ ان سے ہم ایمانی ویژن کشید کرتے ہیں۔

قرآن میں ان کو بیان کرنے کا سبب یہ ہے کہ ان پر غور و فکر کر کے ہدایت حاصل کی جائے۔ دور جدید کے فنون لطیفہ جن میں قصے کہانیوں کو چلتی پھرتی سکرینوں پر دکھایا جا رہا ہے کیا یہ مقصد پورا کرتے ہیں؟ یہ اہم سوال ہے اور اس جیسے سوالات کے تناظر میں ہی ہمیں فنون لطیفہ کی بات کرنی چاہئے اور ان کی اہمیت و حیثیت تسلیم کرنی چاہئے۔ دور جدید زندگی کے ہر حوالے سے اعتدال سے ہٹا ہوا ہے اوریہی بے اعتدالیاں فنون لطیفہ میں بھی در آئی ہیں۔