Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Funoon e Lateefa Aur Samaj

Funoon e Lateefa Aur Samaj

آسکر وائلڈ مشہور ادیب، شاعر اور ڈرامہ نگار تھا اور انیسویں صدی کے آخر میں اسے لندن کا سب سے مشہور ڈرامہ نگار ڈکلیئر کیا گیا تھا۔ آسکر نے ڈرامہ نگاری اور شاعری کے علاوہ ناول نگاری میں بھی میں طبع آزمائی کی اور ایک ناول بھی لکھا۔ ناول کے پیش لفظ میں اس نے ایک جملہ لکھا جو کافی متنازع ہوا۔ اس نے لکھا "تمام فنون لطیفہ بے کار ہیں"۔

اس جملے پر کافی شور شرابا ہوا اور فنون لطیفہ سے وابستہ افراد نے آسکر کے خلاف احتجاج شروع کر دیا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایک سٹوڈنٹ نے 1891 میں آسکر کو خط لکھا کہ کیا آپ اپنے اس جملے کی مزید وضاحت کرنا چاہیں گے۔

آسکر نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ فنون لطیفہ اس لیے بیکار ہیں کہ یہ مقصدیت سے خالی ہوتے ہیں، یہ آپ کو صرف تفریح مہیا کرتے ہیں اس سے زیادہ نہ تو یہ آپ کو کوئی تعلیم دے سکتے ہیں نہ ہی عمل پر ابھار سکتے ہیں۔ مشہور جرمن فلسفی فریڈرک نطشے نے فنون لطیفہ کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس انداز میں کیا تھا کہ اگر ہمارے پاس فنون لطیفہ نہ ہوتے تو ہم سچائی کا سامنا کرتے ہوئے مر جاتے۔ یعنی نطشے کے نزدیک بھی فنون لطیفہ محض تفریح کا ذریعہ ہیں کہ ہم جب سچائی کی تلخیوں اور سچ کا سامنا کرنے سے ڈرتے ہیں تو فنون لطیفہ کی آڑ میں پناہ لے لیتے ہیں۔

فنون لطیفہ کا تصور انسانی تاریخ کے ساتھ ہی پروان چڑھا۔ انسان کو اپنی پیدائش کے ساتھ جمالیات کی حس بھی عطا ہوئی تھی اور جمالیاتی حس کی تسکین کے لیے انسان نے مختلف فنون لطیفہ ایجاد کر لیے تھے۔ انسانوں نے الفاظ کے ذریعے بولنے سے قبل رنگوں اور تصویروں کے ساتھ اظہار ما فی الضمیر کا طریقہ اپنایا تھا۔ یہ لوگ خوشی کے موقع پر جھومتے تھے، خوبصورت آوازیں نکالتے تھے اور اشاروں کنایوں کے ذریعے گفتگو کرتے تھے۔

بعد میں جب انسانوں نے الفاظ پر عبور حاصل کر کے بولنا شروع کیا فنون لطیفہ ایک نئی شکل میں ظہور پذیر ہوئے۔ یہ شکل قصے اور کہانیوں پر مشتمل تھی، لوگ ایک دوسرے کو قصے کہانیاں سناتے اور اس سے مسرت کشید کرتے تھے۔ گھر کے بڑے بوڑھے نئی نسل کو کہانیاں سنا کر انہیں اپنائیت کا احساس دلاتے اور اپنی تہذیب و روایات ان میں منتقل کرتے تھے۔

فنون لطیفہ کی روایت مزید آگے بڑھی تو قصے کہانیاں سنانے کے ساتھ تحریری لٹریچر بھی وجود میں آنا شروع ہوا۔ کہانی نویسی، شاعری اور جنگی واقعات فنون لطیفہ میں شامل ہو گئے۔ لوگ فارغ اوقات میں ایک دوسر ے کے ساتھ بیٹھتے اور قصے کہانیوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ شہر کی اہم شاہراوںاور گلی محلوں میں مجالس برپا ہوتی تھی اور لوگ دور دور سے آ کر ان محفلوں میں شریک ہوتے اور قصے کہانیوں سے لطف اندوز ہوتے تھے۔

کئی تہذیبوں میں یہ روایت اتنی پختہ تھی کہ اس کے لیے باقاعدہ دن مختص کیے جاتے تھے، لوگ ارد گرد سے ایک جگہ اکٹھے ہوتے، قصے کہانیوں کی محفلیں لگتیں، شاعری اور رقص کے مقابلے ہوتے اور لوگ سارا دن اس ماحول کو انجوائے کرتے تھے۔ اس کے ساتھ کھانے پینے کے ٹھیلے اور تاجر لوگ اپنا سامان بھی سجا لیتے تھے اور لوگ شام کو واپس جاتے ہوئے خریداری بھی کر لیتے تھے۔ بعد میں یہی روایت میلوں کی شکل اختیار کر گئی جو آج بھی اپنی خرافات کے ساتھ جاری ہے۔

تقریباً بیس سے تیس ہزار سال قبل مسیح میں انسانوں نے مختلف دھاتوں کا استعمال شروع کیا۔ یہ عہد انسانی تہذیب و تمدن کے آغاز کا عہد تھا، انسانوں نے ظروف سازی شروع کی، کانسی اور تانبے کی مدد سے ہتھیار اور زیورات بنائے۔ اس عہد میں جن فنون لطیفہ کو پذیرائی ملی ان میں ظروف سازی، لکڑی پر کندہ کاری، مختلف دھاتوں اور پتھروں پر نقش نگاری اور فن تعمیرات وغیرہ شامل ہیں۔

ایک ہزار قبل مسیح کا دور لوہے کا دور تھا اور اس عہد میں انسانوں نے کھیتی باڑی شروع کی، مختلف علوم و فنون کو تحریری شکل میں مرتب کیا گیا اور ڈرامہ نگاری اور آرکیٹیکچرکا فن عروج کو پہنچا۔ یونانی تہذیب میں ڈرامہ نگاری کو بہت عروج ملا، ایس کلیس مشہور یونانی ڈرامہ نگار تھا جس نے نوے ڈرامے لکھے جن میں سے صرف ساٹھ محفوظ ہیں۔ اس عہد کے دیگر مشہور ڈرامہ نگاروں میں سوفوکلیز اور یورپیڈس اہم ہیں۔ یہ ڈرامہ نگار ڈرامے لکھتے تھے اور فنکار تھیٹر میں انہیں پیش کر کے اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتے تھے۔

یہ ڈرامے عموماً المیہ، رزمیہ اور جنگی واقعات پر مشتمل ہوتے تھے جس میں اہل یونان کی بہادری اور دیگر اقوام کی بزدلی اور شکست کو نمایاں کر کے پیش کیا جاتا تھا۔ ڈرامے کو یونانی عہد کے فنون لطیفہ میں مرکزی حیثیت حاصل تھی اور یہ عوام کی تفریح کے ساتھ ذہن سازی، دشمن کے خلاف پروپیگنڈہ، حکومتی اور فوجی اشرافیہ کے مفادات کا تحفظ اور یونانی قوم کی روایات کی منتقلی میں اہم کردار ادا کرتا تھا۔

رومی تہذیب کے فنون لطیفہ میں فن تعمیرات کو مرکزی حیثیت حاصل تھی۔ رومی لوگ شہر بنانے، بسانے اور انہیں خوشحال بنانے کا فن جانتے تھے۔ اس عہد کی تعمیرات کے عجوبے آج بھی یورپ کے مختلف حصوں میں بکھرے پڑے ہیں۔ یہ لوگ گھر بنانے کے بھی ماہر تھے اور ان کے گھروں کی دیواریں مختلف شہ پاروں سے مزین ہوا کرتی تھیں۔ گھروں میں ٹائلوں کا استعمال بھی رومی تہذیب نے سکھایا اور حمام اور بیت الخلا کا تصور بھی رومی تہذیب نے دیا۔

دریائے نیل اور اس کے اطراف میں آباد تہذیب مصری تہذیب کہلاتی تھی اور اس تہذیب میں مجسمہ سازی اور فن تعمیرات اہم تھا۔ یہ لوگ مختلف دیوی دیوتاؤں کے مجسمے بناتے تھے، فرعون جو مصر کے بادشاہوں کا لقب تھا ان کی تصویر سازی بھی اہم تھی۔ فن تعمیرات کے حوالے سے اہرام مصر ان کی اس فن سے دلچسپی کی نمایاں مثال ہے جو آج بھی عجائبات عالم میں ٹاپ پوزیشن پر ہے۔

میسو پوٹیمیا کی تہذیب پہلی زرعی تہذیب تھی اور فن تحریر کا اعزاز بھی اسی تہذیب کو حاصل ہے۔ یہ لوگ مٹی کی تختیوں پر لکھا کرتے تھے، اس کے ساتھ یہ لوگ فن تعمیر اور مجسمہ سازی میں بھی ماہر تھے۔ ایرانی تہذیب فنون لطیفہ کے حوالے سے بہت زرخیز ثابت ہوئی تھی اور اس کا قدیم زمانے سے ہی فنون لطیفہ سے خصوصی تعلق رہا تھا۔

یہ لوگ ظروف سازی، خطاطی، دھاتوں کا کام، کپڑے پر نقش و نگار اور قالین بافی کے ماہر تھے۔ ہندوستانی تہذیب کا شمار بھی زمانہ قدیم کی اہم تہذیبوں میں ہوتا ہے، یہ تہذیب دریائے سندھ اور اس کے ارد گرد پھیلی ہونے کی وجہ سے انڈس سویلائزیشن کہلاتی تھی۔ اس تہذیب میں فن مجسمہ سازی کو اہم حیثیت حاصل تھی، یہ لوگ دیوی دیوتاوں کی پوجا کرتے اور ان کے مجسمے بنا کر مندروں میں سجایا کرتے تھے۔ یہ لوگ غاروں کو کاٹ کر مجسمے بناتے اور ان کی پوجا کرتے تھے۔

چینی تہذیب میں چینی روایات کا رنگ جھلکتا ہے، یہ لوگ کپڑے یا کاغذ پر رنگوں کے ساتھ مختلف تصاویر بناتے تھے۔ کاغذ کی ایجاد سے قبل یہ لوگ ظروف سازی، مختلف جانداروں کی تصاویر، خطاطی اور اوپیرا، پتلی تماشا اور پتنگ سازی کے رسیا تھے۔ جاپانی تہذیب پودوں اور پھولوں کی رسیا تھی اور یہ پھولوں کو خاص انداز میں سجانے کا فن رکھتے تھے، جاپان میں آج بھی شادی کے موقع پر پھولوں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے اور جانبین سے پھول پیش کیے جاتے تھے۔

یہ ماضی کی اہم تہذیبوں میں رائج مختلف فنون لطیفہ کی ایک جھلک تھی۔ اس سے انکار نہیں کہ انسان فنون لطیفہ کے بغیر نہیں رہ سکتا اور اس سے اس کی جمالیاتی حس کی تسکین ہوتی ہے مگر دور جدید میں فنون لطیفہ کا جو تصور رائج ہو چکا ہے اور اس نے انسانی سماج خصوصاً اسلامی سماج کو جس طرح تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے اس پر ضرور بات ہونی چاہئے۔

اگلے کالم میں ہم اسلام کا تصور فنون لطیفہ اور اسلامی تہذیب کے ادوار میں رائج مختلف فنون سے ہوتے ہوئے دور جدید میں رائج فنون کے حوالے سے تفصیلی گزارشات پیش کریں گے۔