Wednesday, 04 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Mahol Ka Kuch Karen

Mahol Ka Kuch Karen

بادشاہ جنگی مہم پر روانہ ہونے کے لیے تیار تھا، نکلنے سے پہلے والدہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دعاؤں کی درخواست کی۔ ماں نے پیار سے ماتھا چوما، ڈھیر ساری دعائیں دی اور چند نصیحتیں پوٹلی میں باندھ کر ساتھ روانہ کر دیں۔ جاتے ہوئے تلقین کی بیٹا نمازوں کاا ہتمام کرنا اورخصوصاً فجر کی نمازقضا نہ ہونے دینا۔ بادشاہ نے سینے پرہاتھ رکھااور ماں کے سامنے سرجھکا دیا۔

دشمن کے علاقے میں پہنچ کر بادشاہ نے شہر کا محاصرہ کرنے کا حکم دے دیااورفوج نے شہر کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا۔ رات ہوئی، بادشاہ کا خیمہ ایک کھلے میدان میں لگا دیا گیا۔ بادشاہ آرام کے لیے خیمے میں داخل ہوا مگر صبح فجر کی نماز کے لیے نہ اٹھ سکا۔ نماز قضا ہوگئی، بادشاہ بہت غمگین اور پریشان ہوا کہ والدہ کی نصیحت پر عمل نہیں ہو سکا۔ ایسا کئی روز مسلسل ہوتا رہا، اس نے سوچا ضرور اس ملک کی مٹی میں کوئی تاثیر ہے جس کہ وجہ سے نما ز قضا ہو جاتی ہے۔

کچھ دن بعد اس نے ملک فتح کرلیا، اپنے ایک نائب کو والی بنایا اور خود واپسی کا قصد کیا۔ جاتے ہوئے اس ملک کی کچھ مٹی بھی ساتھ رکھ لی۔ گھر پہنچ کر ماں کوجنگ اور فتح کی کارگزاری سنائی اور آخرمیں بتایا کہ آپ کی فجر کی نماز والی نصیحت پر عمل نہیں کر سکا۔ ماں نے اضطراب اورپریشانی کاا ظہار کیا اور آئندہ نماز قضا نہ کرنے کی تاکید کی۔ رات کو جب ماں سونے کے لیے گئی تو بادشاہ نے وہ مٹی ماں کے تکیے کے نیچے رکھ دی، صبح ہوئی تو ماں کی فجر کی نماز بھی قضا ہو چکی تھی۔

ماں بیٹا اکٹھے ہوئے تو ماں نے بتایا آج میری بھی نماز قضا ہوگئی، بادشاہ نے بتایا میں نے وہ مٹی آپ کے تکیے کے نیچے رکھ دی شاید اس مٹی کی تاثیر ہی ایسی تھی اور اس میں میرا اور آپ کا کوئی قصور نہیں تھا۔ اس واقعے کی صحت و عدم صحت سے قطع نظر آپ کے لیے یہ بات حیران کن ہوگی کہ مختلف علاقوں اور خطوں کی اپنی تاثیر اوراپنا مزاج ہوتا ہے اور اس خطے میں رہنے والے لوگوں میں بھی وہ تاثیر اور مزاج ڈویلپ ہو جاتا ہے۔ مثلاً شہری، میدانی اور ہمورا علاقوں میں رہنے والے انسانوں کے مزاج معتدل اور نرم ہوتے ہیں۔

ان کے اندر ضد، ہٹ دھرمی، انا، سختی، دشمنی اور گنوار پن کے اثرات کم ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگوں دیہاتوں، پہاڑوں، نا ہموار اور جنگلی علاقوں میں رہتے ہیں ان کے مزاج میں شدت، سختی اور ناہمواری زیادہ ہوتی ہے۔ یہ لوگ ذہنی اور فکری اعتدال سے عموماًمحروم ہوتے ہیں۔ اس حقیقت کی تائید ایک حدیث سے بھی ہوتی ہے جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ آپؐ نے فرمایا دیہاتی آدمی سخت مزاج اور ضدی ہوتے ہیں۔

سورہ توبہ کی ایک آیت کا مفہوم بھی کچھ اس طرح ہے کہ دیہاتی لوگ کفر و نفاق میں شدید اور لاعلمی وگنوار پن میں حد سے بڑھے ہوئے ہوتے ہیں۔ شاید یہی وجہ تھی کہ شروع میں جو بدوی صحابی آپؐ سے ملنے آتے تھے ان کی گفتگو اور ان کا انداز تکلم سخت ہوتا تھالیکن بعد میں آپؐ کی صحبت کی وجہ سے ان کی زندگی دوسروں کے لیے نمونہ بن جاتی تھی۔

خطوں اور علاقوں کی تاثیر کے ساتھ انسانی شخصیت پر ماحول کا بھی اثر ہوتا ہے اور آج سائنس و مذہب دونوں اس تاثر کے قائل ہو چکے ہیں۔ مذہب تو پہلے دن سے اس تاثر کا قائل ہے اور رسولؐ اللہ نے اس تاثر کو اس مثال کے ذریعے سمجھایا تھا کہ اچھے دوست اور ہمنشین کی مثال مشک والے کی طرح ہے، وہ یا تو آپ کو مشک تحفے میں دے گا، یا آپ اس سے مشک خریدلیں گے ا ور نہیں تو کم از کم اس کے پاس بیٹھنے سے آپ سے مشک کی خوشبو ضرور آئے گی۔

اس کے برعکس بھٹی والے کے پاس بیٹھنے سے آپ کے کپڑے جلیں گے اور نہیں تو کم از کم بدبو ضرور آئے گی۔ یہ ماحول اور برے ہمنشین ہی ہوتے ہیں جو انسان کو فاسق اور فاجر بنادیتے ہیں ورنہ حقیقت میں انسان نیک اور اچھی فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ انسان کی فطرت میں ہمیشہ نیکی اورخیر ہی غالب رہتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہر انسان سچائی، عدل وانصاف، دیانت داری، مروت اور شرم و حیا کو

اچھا سمجھتا ہے اور انہیں اپنانے کی کوشش کرتا ہے۔ اوروہ جھوٹ، ظلم، خیانت، بے حیائی، بے مروتی، بخل اور بد اخلاقی کو ناپسند کرتااور اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ مثلاً اگر سیدھے سادھے انسان کو جھوٹا کہہ دیا جائے تو اسے تکلیف ہوگی، کسی راہ چلتے کو بے حیا کہہ دیا جائے تو وہ پریشان ہو جائے گا، کسی نیوٹرل انسان کو خائن یا چور کہہ دیا جائے تو وہ مضطرب اور بے چین ہو جائے گا، ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ اس کی فطرت ان الزامات کو پسند نہیں کرتی اوراگر کسی انسان سے یہ افعال سر زد ہو جائیں تو وہ انہیں چھپانے اور ان پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔

ماحول کی اہمیت کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ ہجرت کے وقت مکہ اور اطراف کے علاقوں کے تمام مسلمان ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے جا چکے تھے مگر فتح مکہ کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ مسلمان دوبارہ اپنے علاقوں میں چلے جاتے مگر ایسا نہیں ہوا، کیوں؟ اس لیے کہ نبی اکرمؐ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو ریاست مدینہ کی صورت میں جو ایک معیاری اسلامی سماج مل چکا ہے وہ اسی دینی و ایمانی ماحول میں رہ کر پاکیزہ طریقے سے زندگی بسر کریں۔

آج ہماراالمیہ یہ ہے کہ ہم اور ہماری نسل ایک ایسے ماحول میں رہ رہے ہیں جس کی بنت میں گناہوں کی تاثیر شامل ہے۔ کہنے کو ہم پاکستان میں رہ رہے ہیں لیکن انٹر نیٹ، سوشل میڈیااور موبائل نے ساری دنیا کو ایک ماحول میں بدل دیا ہے، اب ساری دنیا کا ماحول ایک ہی بن چکا ہے اور اس ماحول میں گناہوں کی تاثیر اس قدر رچ بس چکی ہے کہ اس میں اپنا ایمان بچانا انتہائی مشکل ہوگیا ہے۔

عالمگیریت، ملٹی نیشنل کمپنیوں، سرمایہ داری کی دوڑ، پرائیویٹ ٹی وی چینلز، یونیورسٹیوں اور مخلوط ماحول نے اہل ایمان کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ یا تو گناہوں سے بھرے اس ماحول کو قبول کر لیں یا اپنے گھروں میں محدود ہو کر بیٹھ جائیں۔ ہر دوسرے گھر میں ٹی وی موجود ہے اور ٹی وی چینلز پر جس طرح کے ڈرامے، فیشن اور ذہن سازی کی جا رہی ہے وہ نئی نسل میں ہیجان پیدا کر رہی ہے اور انہیں خواہشات کا اسیر بنا رہی ہے۔ جہاں ٹی وی نہیں وہاں انٹر نیٹ، سوشل میڈیا اور موبائل نے کسر پوری کر دی ہے۔

ٹک ٹاک، فیس بک اور یوٹیوب نے نئی نسل کے ہیروز کی ایک نئی فہرست مرتب کی ہے اور اب ہر کوئی ان جیسا بننا چاہتا ہے۔ تعلیمی اداروں اور خصوصاً یونیورسٹیوں نے بھی یہ ماحول پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یونیورسٹیاں تعلیمی ادارے کم تفریح گاہیں اور فیشن انڈسٹریاں زیادہ معلوم ہوتی ہیں۔ اس میں بچیوں کا بھی قصور نہیں کہ جب ان کے دائیں بائیں اور ان کی کلاس کا ماحول ہی ایسا ہوتا ہے جس میں کسی غیر محرم کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، گھومنے پھرنے اور آخر میں مرضی سے شادی کرنے کو معیوب نہیں سمجھا جاتا تو آخر وہ بھی انسان ہیں اور انسان ماحول سے تاثر لیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہی سب کچھ ٹی وی ڈراموں میں سکھایا جا رہا ہے حتیٰ کہ اب تو ٹی وی پر چلنے والے کمرشلز میں بھی یہ چیزیں شامل ہوگئی ہیں۔

ماحول کا تاثراس قدر شدید ہوتا ہے کہ قرآن و حدیث بھی اس تاثر کو بیان کیے بغیر نہیں رہ سکے اور ایک ہم ہیں کہ ہم نے ماحول کے بارے کبھی سوچا ہی نہیں۔ حکومتی سطح پر اس کا ادراک ہے نہ ہی مذہبی فکر اس حوالے سے حساس دکھائی دیتی ہے۔

اگر ہمارا رویہ یہی رہا تو یہ ماحول ہماری اگلی نسل کے ایمان کو ہتھیا لے گا پھر ہمارے پاس ایک ہی راستہ بچے گا جو محسن انسانیتؐ نے بتایا تھا کہ ایک وقت آئے گا جب صرف وہی انسان بچے گا جو اپنی بکریوں کو لے کر دنیا سے الگ تھلگ کسی پہاڑ کی چوٹی پر سکونت اختیار کر لے گا۔