Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Alaisa Asubh Beqareeb

Alaisa Asubh Beqareeb

(1)چوں چراغ لالہ سوزم درخیابان شمااے جوانان عجم! جانِ من و جانِ شمااے جوانان عجم! اپنی اور تمہاری جان کی قسم! میں تمہارے باغ میں گل لالہ کے چراغ کی طرح جل رہا ہوں۔ مہرومہ دیدم، نگاہم برتراز پروین گزشترخیتم طرحِ حرم درکافرستانِ شماسورج اور چاند کو دیکھا۔ پھر میری نظر ستاروں کے جھرمٹ سے آگے گئی۔ یوں میں نے تمہارے کفرستان میں حرم کی بنیاد رکھی۔ فکر رنگینم کند نذر تہی دستان شرقپارۂ لعلی کہ دارم از بدخشانِ شماتمہارے بدخشان سے جو لعل کا ٹکڑا میرے پاس ہے اسے میری رنگین سوچ مشرق کے مفلسوں کی نذر کر رہی ہے۔ می رسد مردے کہ زنجیر غلاماں بشکنددیدام از روزن دیوار زندان شماوہ شخص آ رہا ہے جو غلاموں کی زنجیریں توڑے گا۔ میں نے تمہارے زنداں کی دیوار میں بنے ہوئے سوراخ سے دیکھ لیا ہے۔ حلقہ گرد من زیند اے پیکران آب و گلآتشے درسینہ دارم از نیاگان شمااے مٹی اور پانی سے بنے ہوئے لوگو!میرے اردگرد حلقہ بنا لو! میرے سینے میں جو آگ جل رہی ہے وہ میں نے تمہارے ہی اجداد سے حاصل کی۔ (2)پھر گرد نے لی ہے انگڑائی کوئی آئے گاپھر دل میں جیسے دھمک پڑی کوئی آئے گاکوئی آئے گا بادل کی شکل بتاتی ہےکہتی ہے پرندے کی بولی کوئی آئے گاکوئی رخصت ہو گا گہری شام کی بارش میں پھر صبح سے جھانکے گی تتلی کوئی آئے گاکوئی آئے گا اور سب کچھ بدل کے رکھ دے گایہ خلقت بھی یہ سورج بھی کوئی آئے گاکوئی آئے گا اور غربت اطلس پہنے گیبیچارگی کرنیں اوڑھے گی کوئی آئے گاجو مٹی پائوں کے نیچے آتی رہتی ہےکبھی ہو گی اس کی داد رسی کوئی آئے گاجو کہیں نہیں وہ آوازیں بھی سنتا ہوں مجھے دور سے ہے یہ خبر آئی کوئی آئے گامجھے دی ہے سنو!ترمز کی خاک نے خوشخبریمجھے مترو سے کہتی ہے مٹی کوئی آئے گامجھے خوشبو آئی ہے انجیر کے پکنے کیمجھے روکے گیہوں کی مستی کوئی آئے گامرے چشمے کا ہے شور عجب، کچھ سمجھو تومرے شیشم کی ہے چھائوں نئی، کوئی آئے گامرے کیکر لد گئے سونے جیسے پھولوں سےمرے سپنوں میں سرسوں پھولی کوئی آئے گامیری چھت سے بیل انگور کی اٹھ اٹھ دیکھتی ہےمرے توت پہ بیٹھی ہے قمری کوئی آئے گامرے شہد کا چھتہ چھلک رہا ہے پُھلا ہی پرمرا دودھ امانت مہماں کی کوئی آئے گامرے رخساروں پر پھول کھلائے ان دیکھےمرے ہونٹوں کو دی شیرینی کوئی آئے گامری نیندیں قرض کی ہیں واپس ہو جائیں گیمرے خواب مسافر کی پونجی کوئی آئے گامری آنکھیں مُند مُند جاتی ہیں کوئی بات تو ہےمرے خون میں کیوں ہے لرزش سی، کوئی آئے گامرے جگنو، گھاس اور شبنم استقبال کریں مری مٹی یوں ہی نہیں بکھری کوئی آئے گامری خوشیوں کا کیا پوچھتے ہو تم دیکھو گےمیری آنکھوں پر اس کی ایڑی کوئی آئے گاہر سمت سے وقت رواں ہے میری ہی جانبدیکھو تو یہ پیغام بری، کوئی آئے گاکہیں دور سے اڑ کر اک غالیچہ آتا ہےیا شہزادہ پا لال پری کوئی آئے گایہ فرغل آنکھیں کات کے میں نے بنایاہےپھر اس پر ٹانکی اپنی ہنسی!کوئی آئے گا(3)یہی مٹی سونا چاندی ہے جیسی بھی ہےیہی مٹی اپنی مٹی ہے جیسی بھی ہےاسی مٹی میں ہم بیج کی صورت جائیں گےہمیں اپنے اندر رکھتی ہے جیسی بھی ہےاسی مٹی سے ہم پھوٹیں گے کونپل بن کریہی مٹی ماں ہمیں جنتی ہے جیسی بھی ہےاسی مٹی نے ہمیں دودھ پلایا، بڑے ہوئےہمیں پائوں پائوں چلاتی ہے جیسی بھی ہےاسی مٹی میں اجداد کی مٹی شامل ہےیہی خون رگوں میں بنتی ہے جیسی بھی ہےاسی مٹی نے ہمیں بادل اور ہوائیں دیں یہی چُھو کے فلک کو آتی ہے جیسی بھی ہےاسی مٹی نے ہمیں شربت شہد شرابیں دیں یہی ہونٹوں کی شیرینی ہے جیسی بھی ہےاسی مٹی سے زیتون کے باغ اگائیں گےیہی غرناطہ یہی سسلی ہے جیسی بھی ہے(4)زمیں کی تہہ میں نادیدہ جہاں روشن ہوئے ہیں کوئی آتا ہے دیکھو آسماں روشن ہوئے ہیں بتائو اب کہ مفلس کون ہے اور کون زردارنئے انداز سے سودوزیاں روشن ہوئے ہیں سمندر میں کسی نے مشعلیں پھینکی ہیں شایداندھیری کشتیوں کے بادباں روشن ہوئے ہیں یہ آگ اب بجھ نہ پائے گی کسی عالی نسب سےہماری بے نشانی کے نشاں روشن ہوئے ہیں (5)بہت ترتیب سے سارے جہاں گرنے لگے ہیں کہ ہفت اقلیم پر ہفت آسماں گرنے لگے ہیں خزانے یا زمیں کے راز اوپر آ رہے ہیں ستارے یا فلک سے شمعداں گرنے لگے ہیں فرشتے کس کے سر پر آ کے پر پھیلائیں دیکھوشجر اڑنے لگے ہیں سائباں گرنے لگے ہیں زمیں ظاہر نہ ہو گا تجھ پہ اب کوئی بھی موسمہمیشہ کے لیے ابر و خزاں گرنے لگے ہیں یہ ساعت نور کی ہو گی کنارہ دیکھ لیناہم اب گرداب میں آتش بجاں گرنے لگے ہیں یہ کھیل اب منطقی انجام کو پہنچے گا اظہارؔذرا اک صبر!عزت کے نشاں گرنے لگے ہیں (6)اب میں بھلا تیری کیا مدد کر سکتا ہوں ٭٭٭٭٭تجھے یاد ہے جس دن تو گراں ترین پوشاک پہنےمحفل خورد و نوش میں شرکت کرنے آیا تھااور میں نے سلام کیا تھاتو نے کس قدر رعونت سے اپنے سر کوذرا سی جنبش دی تھی۔ ٭٭٭٭٭ پھر جس دنمیں نے اپنے بیٹے کی قمیض سےگاڑی کا شیشہ صاف کرنا چاہا تھاتونے جھڑک دیا تھااس دن فاقے کا تیسرا دن تھا٭٭٭٭٭تونے کبھی اُن دنوں حساب لگایا تھاکہ تیری بیگمایک سال میں کتنے ملبوسات بنواتی تھیاور تیرے بچوں کے پاس کتنے کھلونے تھےاور تیرے کھانے میں کتنے کورساور تیرے ناشتے میں کتنے آئٹم ہوتے تھےاور تیرے ڈرائنگ روم میں کتنا کرسٹل تھااور تیری پینٹری میں کبھی نہ استعمال ہونے والے کتنے ڈنر سیٹ تھے ہم تیرے دیے ہوئے کوارٹر سے دیکھا کرتے تھےمیرے کسی بچے نے کبھیپورا انڈا اور پورا سیب نہیں کھایا تھا٭٭٭٭٭تجھے یاد ہے جبمیں عرضی لے کر تیرے سامنے پیش ہوا تھا تونے شفاف ماتھے پر سلوٹیں ڈال کر بتایا تھا کہ انتظامی وجوہ کی بنا پر ایسا ہونا ممکن نہیں ہے اور ہاتھ کے اشارے سےمجھے باہر چلے جانے کے لیے کہا تھاتجھے برج پر جانے کی جلدی تھی۔ ٭٭٭٭٭گالف کلب میں گیندیں جمع کرنے والے کیڈی نے کموڈ صاف کرنے والے بھنگی نےبچوں کے جوتے پالش کرنے والے نوکر نےگھوڑے کے آگے آگے چلنے والے مصلی کے بیٹے نےفطرانے کی آس رکھنے والے محلے کے موذن نےحرام سے بنے ہوئے محل میں قرآن خوانی کرنے والے یتیم بچوں نےاور بیئر کو برف میں رکھنے والے خانہ زاد ملازم نےتیری دولت سے کتنا حصہ پایا تھا۔ ٭٭٭٭٭اب میں بھلا تیری کیا مدد کر سکتا ہوں ذق انک انت العزیز الکریم چکھ۔ بہت ہی عزت دار ہے تو۔

About Muhammad Izhar Ul Haq

Muhammad Izhar Ul Haq

Muhammad Izhar ul Haq, is a columnist and a renowned poet of Urdu language, in Pakistan. He has received international recognition for his contribution to Urdu literature, and has been awarded Pakistan’s highest civil award Pride of performance in 2008. He has published four books of Urdu poetry and writes weekly column in Daily Dunya.