بہت دور، اوپر، بادلوں سے بہت پرے، ستاروں اور کہکشائوں کے اس طرف، لوح تقدیر پر لکھا جا چکا ہے کہ حکومت بدلی تب بھی کردار وہی رہیں گے۔ عمران خان وزیراعظم بنے یا کوئی اور، ہم غلطیوں کی نشاندہی کرتے رہیں گے اور جو حکومتوں کی طرف داری کرتے رہے ہیں، ایک حکومت کی نہیں، ہر حکومت کی! وہ عمران خان کی حکومت کی بھی چوبداری کریں گے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا ؎جب حریت فکر کا دستور ہوا طےخود جبر مشیت نے قسم کھائی ہماریعمران خان سے جو امیدیں تھیں ان امیدوں کا شعلہ کجلا گیا ہے۔
روشنی مدہم پڑ رہی ہے مگر انگریزوں نے محاورہ ایجاد کیا تھا کہ فقیروں کے پاس اختیار ہی کہاں ہے، فراق گورکھپوری نے کہا تھا ؎دل آزاد کا خیال آیااپنے ہر اختیار کو دیکھاعمران خان اب بھی "کم تربرائی" میں ہی شمار ہوگا۔ اس کی ایک خوش بختی یہ ہے کہ اسے وفاق میں حکومت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ ایک صوبے میں ملا تو کم از کم پولیس اور تعلیم کے میدانوں میں افتاں خیزان گرتا پڑتا کچھ نہ کچھ کامیاب ہو ہی ہوگیا۔ عمران خان کو ووٹ نہ دیں تو کیا انہیں دیں جنہوں نے سرے محل خریدے؟ فرانس میں جائیدادیں بنائیں۔ دبئی میں اقامت پذیر ہیں اور بدلتے موسموں کا تقاضا ہو تو وطن کا چکر یوں لگاتے ہیں جیسے وطن نہ ہو کالونی ہو یا پردیس ہو۔
کالونی نہیں تو کیا ہے؟ کل یہاں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت تھی۔ سمندر پار سے آتے تھے۔ حکومت کرتے تھے اور واپس پلٹ جاتے تھے۔ اب حکومت کرنے دبئی سے آتے ہیں۔ اس ملک نے وہ زمانہ بھی دیکھا جب ایک صوبے کا دارالحکومت عملاً مشرق وسطیٰ میں منتقل ہو گیا تھا۔ صوبائی دارالحکومت اور مشرق وسطیٰ کے درمیان وزیروں مشیروں اور پارٹی کے رہنمائوں کا آنا جانا اس تواتر سے تھا جیسے انسانوں کی نہیں، چیونٹیوں کی نہ ختم ہونے والی قطار ہو۔ تو پھر کیا ہم لندن کے شہریوں کو ووٹ دیں؟ جنہوں نے ہر عید، اپنے "گھر" لندن میں منائی! جن کی اولاد اور اولاد کی اولاد لندن میں رہتی ہے وہیں پل بڑھ رہی ہے۔ یہ اور بات کہ ہم ان بچوں کی سلامتی کے لیے بھی دعا گو ہیں اور متفکر کہ وہ اپنے بزرگوں کے کیے کا نتیجہ بھگت رہے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے حسین نواز اور مریم صفدر کے بچوں کے حال زار پر جنہیں دیکھ کرلوگ نعرے لگاتے ہیں۔ کم از کم ان بچوں کا تو کوئی قصور نہیں۔
منطق سیدھی سادی ہے۔ تلخ سچائی کی طرح کہ جن جماعتوں کو اس ملک کے عوام دیکھ چکے ہیں، آزما چکے ہیں، ان سے بچنے ہی میں حکمت ہے۔ عمران خان کو موقع ملنا چاہیے ایک بار اسے بھی آزما کر دیکھیں۔ اسے ووٹ اس لیے دینا چاہیے کہ کیاخبر اب کے بخت اس ملک کا ساتھ دے۔ کرپشن، اقرباپروری، دوست نوازی اور گروپ بندی سے نجات مل جائے۔ بیوروکریسی کو لاہور گروپ، کشمیری برادری، ککے زئی نیٹ ورک، جاٹ پرستی، مغل نوازی، آرائیں طرف داری، اعوان دھڑے بندی اور راجپوت قبیلہ بازی سے رہائی نصیب ہو جائے۔ اور اگر عمران خان نے وعدے پورے نہ کئے، اگر الیکٹیبلز کے جال میں پھنس گیا، اگرنذر گوندلوں، عاشق اعوانوں، ہمایوں اختروں، قریشیوں اور ترینوں کے ہاتھ میں یرغمال بن گیا تو پھر یہ قوم اتنی مایوسیوں سے گزر چکی ہے کہ وہ تو ایک اور مایوسی کوبرداشت کرلے گی مگر عمران خان ہمیشہ کے لیے بے نقاب ہو جائیں گے۔ اس لیےحذر اے چیرہ دستاں سخت ہیں فطرت کی تعزیریں سیاست دان انتخابات میں کچھ جیتیں گے، کچھ ہاریں گے عکچھ اپنی سزا کو پہنچیں گے کچھ اپنی جزا لے جائیں گےمگر انتخابات ہم عوام کے لیے بھی امتحان ہیں۔
اس امتحان میں معلوم ہو جائے گا کہ کون تہذیب کے دائرے کے اندر رہا اور کون حدیں پھلانگ گیا۔ ہم عوام کو ان سیاست دانوں سے بہتر ہونا چاہیے جو کبھی ایئرپورٹ پر نوازشریف کے استقبال کے لیے جانے والوں کو گدھا کہتے ہیں اور کبھی تحریک انصاف کو ووٹ دینے والوں کو بے غیرت کے خطاب سے نوازتے ہیں۔ خاندانی تعلقات اور دوستیوں میں دراڑیں نہیں پڑنی چاہئیں۔ بڑے چھوٹے کا لحاظ ختم ہو جائے تو یہ جمہوریت کا سفر نہیں تنزل اور بے ہودگی کاراستہ ہوگا۔ سیاسی اختلاف اپنی جگہ، مگر جن لوگوں نے پوری پوری زندگیاں قرطاس و قلم کی معیت میں گزاری ہیں انہیں ان کا جائز مقام دینا ہوگا۔
سیاسی اختلاف کا یہ مطلب نہیں کہ شائستگی، وضعداری اور احترام و ادب کو بالائے طاق رکھ دیا جائے۔ ارشاد احمد عارف، مجیب الرحمن شامی، سجاد میر، ہارون الرشید، خورشید ندیم، اوریا مقبول جان اور کئی دوسرے سینئر قلم کاروں سے ایک پوری نسل نے لکھنا، پڑھنا، سوچنا اور تجزیہ کرنا سیکھا۔ آج ان میں سے اگر کوئی دریا کے اس کنارے خیمہ زن ہے یا کوئی اس پار دوسرے کنارے انجمن آرا ہے تو یاد رکھیے درمیان میں پانی سانجھا ہے۔ ہم نے، خواہ ہم جس کنارے پر ہوں، پانی یہیں سے پینا ہے۔ اس لیے ان نوجوانوں سے جو جذبات کی رو میں بہہ کر خوش اطواری سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں خاص طور پر سوشل میڈیا کے پانی سے کیچڑ نکال کر اپنے اور دوسروں کے چہروں پر مل رہے ہیں، ان پر لازم ہے کہ جوش میں آ کر ہوش سے نہ گزریں۔ انہیں چاہیے کہ رکھ رکھائو، تعظیم و تکریم، حلم و تواضع اور محبت و احترام کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ جس طرح ہمارے خاندانوں میں بزرگ ہر حال میں قابل احترام ہوتے ہیں بالکل اسی طرح بلکہ ایک لحاظ سے اس سے بھی زیادہ، صحافت اور لٹریچر میں ہمارے سینئر، ہمارے بڑے نام، ہر حال میں اکرام کے مستحق ہیں۔
لٹریچر سے یاد آیا کہ کچھ عرصہ پہلے جب انتظار حسین رخصت ہوئے تو اس کالم نگار نے "بابے" کے عنوان سے ایک نثر پارہ لکھا اور رونا رویا کہ ہمارے ادب میں بابے رہ ہی کتنے گئے ہیں۔ ایک ظفر اقبال، دوسرے مستنصر حسین تارڑ اور تیسرے عطاء الحق قاسمی! میاں نوازشریف نے لے دے کے ہمارے ایک ہی ثقہ ادیب کو حکومتی عہدہ دیا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ دوسرے سینئر ادیبوں اور شاعروں سے بھی فائدہ اٹھایا جاتا۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ کسی ادیب یا شاعر کو حکومتی عہدہ دیا جائے تو یہ اس پر احسان نہیں بلکہ اس کا احسان ہے کہ حکومت اس سے مستفید ہو۔ عطاء الحق قاسمی کو جس انداز میں حکومتی منصب سے ہٹایا گیا اس پر کوئی ادیب کوئی شاعر اطمینان نہیں محسوس کرسکتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ قاسمی صاحب کے پیشرو بھی کم و بیش اتنا ہی مشاہرہ اور مراعات لے رہے تھے مگر "قرعہ فال" اس ابتلا کا صرف انہی کے نام نکلا۔ اس میں کیا شک ہے کہ اردوکالم کو اردو ادب کا حصہ بنانے میں قاسمی کا کردار مسلمہ ہے۔ پھر ایک اور غلط بات یہ ہوئی کہ ان کے بیٹے کو بھی اس قضیے میں گھسیٹا گیا جو مقابلے کا امتحان پاس کر کے میرٹ پر اپنی قابلیت اور محنت کے بل بوتے پر سول سروس میں آیا تھا۔ اس کالم نگار کو ذاتی طور پر معلوم ہے کہ یاسر پیرزادہ نے دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے میں بہت سے مستحسن کام کئے۔ لائبریریوں کی خستہ شکستہ حالت کو سنبھالا دیا۔
دروازے سائلین کے لیے کھلے رکھے اور خوب محنت سے فرائض انجام دیئے۔ کچھ عرصہ پہلے نیب کے سربراہ میجر قمر زمان چوہدری تھے۔ ان سے ایک زمانے میں قریبی دوستانہ مراسم تھے۔ پھر وہ سیکرٹری داخلہ اور اس کے بعد نیب کے چیئرمین ہوئے تو آہنی (یاریشمی) پردے کے پیچھے غائب ہو گئے۔ جب ان کا متنازعہ کردار الیکٹرانک میڈیا پر ہائی لائٹ ہوا تو بدقسمتی سے ان کے بیٹے کو بھی درمیان میں لایا گیا۔ اس وقت بھی اس کالم نگار نے ٹیلی ویژن پر برملا کہا کہ باپ کے سرکاری پروفائل میں اس کے بیٹے کا کیا کام؟ یاسر کے حوالے سے بھی حرف اعتدال اور لفظ نصیحت یہی ہے کہ وہ اپنی آزاد حیثیت میں سول سروس کا معزز رکن ہے اور بے داغ کیریئر رکھتا ہے۔ ایسی ریت ڈالی گئی تو کل کسی کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ سیاست کفر و اسلام کا مسئلہ نہیں۔ سیاسی جماعتیں سیاسی جماعتیں ہیں، دینی گروہ نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس طوفان میں ہم اپنا تہذیبی نقصان کر بیٹھیں۔ اہل قلم کے حوالے سے حفظِ مراتب ہماری روایت کا خوبصورت حصہ ہے۔ اسے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔