Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Siasat Main Insaniyat Dhoondne Ka Hunar

Siasat Main Insaniyat Dhoondne Ka Hunar

اکتا جاتے ہیں۔ سیاست کے موضوع پر کالم پڑھ پڑھ کر پڑھنے والوں کی ناک میں دم آ جاتا ہے۔ مان لیا، سیاسی موضوعات پر سب اپنے اپنے اسلوب سے لکھتے ہیں۔ کچھ کے اسالیب بہت مقبول ہیں مگر موضوع تو وہی رہتے ہیں۔ وہی عمران خان، وہی زرداری، وہ انگلی لہراتی ہوئی، وہی ہیٹ، وہی شہزادی، وہی اس کا بے وقعت میاں جس نے شناخت سسرال میں گم کردی۔ فنا فی السسرال ہوگیا۔ تاریخ میں نام اور مقام بنا گیا۔ جب بھی دوسرے موضوعات پر کالم لکھا فیڈ بیک، کئی گنا زیادہ آیا۔ بچے، بچوں کی معصومیت، سماجی رشتے جو مدہم ہوتے ہوئے غائب ہورہے ہیں، دیہی زندگی کے دھندلائے ہوئے مناظر۔ ادب آداب جو افق پار چھپتے جا رہے ہیں۔ پڑھنے والے پڑھتے ہیں اور روتے ہیں۔ بحراوقیانوس کے اس پار سے نامے آتے ہیں کہ صبح سے پڑھ رہا ہوں، رو رہا ہوں، تم نے اپنی نہیں، میری داستان لکھی ہے۔ میرا بچپن بھی یہی تھاتاریخ اور ادبپڑھنے والے تاریخ اور ادب کے پیاسے کہیں۔ ادبی پرچوں کا سنہری دور لد چکا۔ فنون، اوراق، نقوش، شمس الرحمن فاروقی کا شب خون۔ اب وہ ادبی جریدے کہاں! "فنون" نکل رہا ہے مگر ؎شکستہ پا راہ میں کھڑا ہوں گئے دنوں کو بھلا رہا ہوں جو قافلہ میرا ہم سفر تھا مثال گرد سفر گیا وہپھر بھی قاسمی صاحب کی دختر نیک اختر اور ان کے نواسے کی ہمت ہے کہ کشتی ان بپھرے پانیوں میں کھیتے جا رہے ہیں۔ اوراق کا کوئی بھی وارث نہ ہوا۔"سویرا" شائع ہوتا ہے مگر مارکیٹ میں آتا ہی نہیں۔ لگتا ہے سو دو سو کی تعداد میں چھپتا ہے۔ مبین مرزا اپنا پرچہ "مکالمہ" ہر ماہ باقاعدگی سے چھاپ رہے ہیں۔ ہمت ہے۔ داد کے مستحق ہیں۔ نصیر احمد ناصر تسطیر نکال رہے ہیں۔ ممتاز شیخ "لوح" کی ادارت کرتے ہیں۔ بھارت کے ادبی پرچوں کا عزیزم علی اکبر ناطق کے ذریعے علم رہتا ہے۔ سننے میں آتے ہیں، پڑھنے میں نہیں۔ علی اکبر ناطق کی نظمیں اپنا رنگ لیے ہیں۔ وحید احمد نظم کی اپنی سلطنت رکھتا ہے۔ معین نظامی کی جاگیر الگ ہے۔ یہ وہ جواں مرد ہیں جنہوں نے اردو نظم کو نیا پیرہن عطا کیا اور اس روح کو نئے نئے قالب عطا کئے ہیں۔ مگر ایک نظم گو اور ہے جو گوشہ گیر ہے۔ بینکاری کے گوشواروں وائوچروں ڈبل انٹری کی پیچیدگیوں میں کھویا، اعداد و شمار کے پتھر کاندھے پر اٹھا کر دن کو رات کرتا ہے۔ پھر ایسی نظمیں کہتا ہے کہ پڑھنے والے کو حیرت کے دشت میں لے جا کر وہ وہ مناظر دکھاتا ہے کہ جان بدن سے نکلنے لگتی ہے۔ فرح یار نے کیا کیا کمال کی نظمیں کہیں۔ ہم تو بس پیشی بھگتانے آئے ہیں۔ اور"چین سے چائے کی پتیاں آ گئیں سہ پہر سج گئی۔"مگر یہ کچھ تازہ نظمیں پڑھیےیہ پانی کہاں تک چلےبے ربط قصّے میں سندھو نشانی ہےجیون کی گاگر میں تھوڑا سا پانی ہےپانی کہاں تک چلےہم کالی راتوں کوبس جیسے تیسےبسنتی چنریا سےدل باندھ لیں گےکہ ست جگ میں تم ہی بھلےتم ہی بھلےپر ذرا راہ کی بھیڑ میں رفتگاں سے لپٹتی ہوئی شام ہےبھربھری نیند ہےآئینوں کے تلےبھربھری نیند میں ایک مُکھ بھائو میں دھیرے دھیرےسلگتا ہوا آسماں نے بجھے نے جلےتم بتائویہ پانی کہاں تک چلے٭٭٭٭٭شہر کی سیڑھیوں پربدن کے مضافات کوبے قراری کی بیلوں نے گھیرا ہوا تھاجنم پھیر کی خود کلامی کے اندرہمہ وقت بے چین آنکھوں میں مستی کا سرمہ لگا توعراقِ عجم کے پلوں سے گزر کردمشق اور کوفہ کی خونی دلیلوں سبیلوں سے بچتا بچاتازمانوں کی دوری پہ دریا کے اس پار آبادباغوں بھرے شہر کی سیڑھیوں پردمکتے ہوئے نقش کو بند کر کےکئی سال سے ابخراسان کے دستکاروں کی شوریٰ میں بیٹھا ہوا ہوں سواروں کے جتھےاترتے گزرتے چلے آ رہے ہیں سواروں کی شکلوں پہ شب کی لکیریں ملامت کی کالی سیہ چادریں اوڑھ کیان کا ہوناکسی ناگہانی میں بھٹکا ہوا ہےہوا رک گئی ہےمگر میرا دل جیسےراول کی پنڈی میں اٹکا ہوا ہےوہ راول کی پنڈیجسے خلق نے گرد اور خشک جاڑے سے نکلی ہوئیدھند کے بیچ تھالی میں رکھاکہاں سب کو ملنا تھیپلکوں کی چھایاکہاں سب پہ کھلنا تھا کار تمنامحلوں فصیلوں دکانوں کے پہلو میں بہتےزمانوں کے اندرلرزتی دھڑکتی ہوئی زندگی آخری متن تکخط کشیدہ عبارت میں لکھی ہوئی تھیوہ راول کی پنڈی کہ جس میں زمین کو بدلنے کا سپنا سناتے ہوئے قصہ خواں موسموں کی نہایت سے بچ کرپرانے مکانوں کی جانب پلٹتے رہےاور اب نارسائی کے مجہول کوٹوں میں انقصہ خوانوں کو نیند آ گئی ہےمرادوں کی بھٹی میں اس سال بھیاپنی مرضی کے چاند اور ستارے نہیں ڈھل سکیں گےخبر، بے خبر بھیڑ کو چیرتی جا رہی ہےسخن خشک سالی کی شاخوں سے لٹکا ہوا ہےمگر میرا دل…٭٭٭٭٭چائے خانہسنت سادھو نہیں کہ گلہ نہ کریں جنگلوں میں رہیں بادلوں پر چلیں زندگی ہم ترےجوڑ جھالے میں گمعام انسان ہیں جو پریشان ہیں زندگی! یوں ہمیں بے دلی سے نہ ملہم اتر جائیں گےانت کے رو برو گہرے پاتال میں ہم بھٹک جائیں گےدودھیا راستوں پانیوں سے بھرے بادلوں میں کہیں سرمئی خاک کو بھربھرا چھوڑ دےجو مکاں ہے اسے لا مکاں مت بناہم زبانی کا خطِ بے زباں مت بناتیزی تکرار میں تیرے ہم راز ہیں تیرے عشاق ہیں تیرے جانباز ہیں زندگی یوں ہمیں بے دلی سے نہ مل٭٭٭٭٭بے چینیسب سیدھا رکھنے کی خواہش میں کچھ الٹا ہو جائے توہم گھبرا کرجیون گدلا کرلیتے ہیں خوف میں لپٹے سناٹوں سےبھر جاتے ہیں ذرا ذرا زندہ رہتے ہیں کافی سارا مر جاتے ہیں ٭٭٭٭٭مجھے نیند آنے لگی ہےزندگی!اپنی منقار کومیرے ہونٹوں پہ رکھمیرے سانسوں کے برتن سے ٹپ ٹپکوئی چیز بہتی چلی جا رہی ہےیہ آنکھوں کا روغن کہ جلتا رہے گامجھے دودھیا پھڑ پھڑائے پروں پر اٹھانیلگوں وسعتوں میں میرا نام لکھمیرے خوابوں کی لوتیز کر تیز کرمجھ کو آواز دےزندگی مجھ کو آواز دےفرح یار کی نظموں میں زندگی کے راز کھلتے ہیں۔ احمد ندیم قاسمی نے نظم کہی تھی "ریستوران" اور لکھا تھا ؎ریستوران میں سجے ہوئے ہیں کیسے کیسے چہرےفرح یار ایک قدم آگے بڑھا ہے۔"چائے خانہ" میں زندگی کو سجھاتا ہے کہ ہانپتے ہوئے لوگوں کو، زندگی کے تیز رفتار بازار میں، دو گھڑی سکون بھی درکار ہے۔ سیاست کی گرم بازاری میں ادب اورتاریخ پڑھو کہ سیاست بھی مجھ میں آئے گی اور زندگی بھی۔ زندگی ہی سمجھ میں نہ آئی تو سیاست کس کام کی۔ یہ شاعر، ادیب اور مورخ ہیں جو سیاست میں انسانیت ڈھونڈنے کا ہنرسکھاتے ہیں۔ شاعروں، ادیبوں اور مورخوں پر دھیان دو کہ زندگی محض ووٹوں بیلٹ بکسوں اور اسمبلیوں کا نام نہیں۔

About Muhammad Izhar Ul Haq

Muhammad Izhar Ul Haq

Muhammad Izhar ul Haq, is a columnist and a renowned poet of Urdu language, in Pakistan. He has received international recognition for his contribution to Urdu literature, and has been awarded Pakistan’s highest civil award Pride of performance in 2008. He has published four books of Urdu poetry and writes weekly column in Daily Dunya.