سوشل میڈیا پر ایک پرانی پوسٹ دیکھی گئی، جس میں کسی چینل کے ٹاک شو میں عمران خان اور شیخ رشید کے درمیان نوک جھونک دکھائی گئی ہے، اس پوسٹ نے آج کی مفاد پرستی پر مبنی سیاست کا اصل چہرہ بے نقاب کیا گیا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملک سے وہ سیاست ختم ہوچکی جوکبھی عبادت کا درجہ رکھتی تھی اور عوام کی خدمت کے لیے شرفا سیاست میں آکر ملک و قوم کے کام آیا کرتے تھے جو نہ کرپشن اور ذاتی مفادات کے حصول پر یقین رکھتے تھے اور ان کی سیاست اصولوں پر مبنی ہوتی تھی۔
سیاست میں جھوٹ اورکرپشن کا نام نہ تھا اور ذاتی مفاد پر اجتماعی اور قومی مفادات کو ترجیح دی جاتی تھی اور اخلاقیات کا سب سے زیادہ خیال رکھا جاتا تھا اور مخالف سیاستدانوں کے خیالات کا اظہارکیا جاتا تھا اور اختلاف رائے پر ایک کا حق تھا اور اختلاف بھی شائستگی سے کیا جاتا تھا۔
قیام پاکستان بھی ایسے ہی سیاستدانوں کی جدوجہد سے ممکن ہوا تھا، جن میں نمایاں نام بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا تھا جن کے ساتھیوں میں انھی جیسے دیانتدار اور مخلص لوگ شامل تھے جنھوں نے سیاست میں آکر خود کو مالی طور پر برباد کیا۔ ایسے محب وطن اور نادار سیاستدان آزادی کے موقع پر اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آئے تھے۔
انھوں نے ہندوستان میں اپنی جائیدادیں چھوڑیں اور ملک کے لیے جانی و مالی قربانیاں دیں اورکبھی اس کا ذکر تک نہ کیا۔ پاکستان کی بدنصیبی یہ ہوئی کہ وہ اپنے قیام کے ایک سال بعد ہی اپنے بانی سے محروم ہوگیا جن کے بعد ان کے با اعتماد ساتھی اور پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان 16اکتوبر 1951ء تک ایک نیا ملک چلانے کی کوشش کرتے رہے اور پھر محلاتی سازش کا شکار ہو کر شہید ملت قرار پائے۔
شہید ملت کے بعد مشرقی و مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے متعدد سیاستدان وزیر اعظم بنے تھے اور اس وقت ایک بیورو کریٹ غلام محمد ملک کے دوسرے گورنر جنرل تھے جن کے بعد دوسرے بیوروکریٹ گورنر جنرل بننے والے اسکندر مرزا بنے جو بعد میں ملک کے پہلے صدر قرار پاتے ہیں۔ ان دونوں نے اپنے اپنے مفاد کے لیے متعدد وزرائے اعظم برطرف کیے۔
1956ء میں ملک کا پہلا آئین بنا جس میں اسکندر مرزا پہلے بااختیار صدر منتخب ہوئے مگر وہ جلد ہی جنرل ایوب خان کے ہاتھوں اپنے اقتدار سے محروم ہوئے اور انھوں نے سویلین صدر ہوکر آرمی چیف جنرل ایوب سے مارشل لا لگوایا تھا جس کے بعد جنرل ایوب خان کے دس سالہ دور کو ملکی ترقی کا شاندار دور کہا جاتا ہے۔ صدر ایوب فوجی آمر تھے اور انھوں نے سیاستدانوں پر پابندیاں لگا کر 1966ء تک ملک میں فوج کے ذریعے بہترین حکومت کی تھی۔
1965ء کی جنگ میں ذوالفقار علی بھٹو ان کے چہیتے وزیر خارجہ تھے اور صدارتی انتخاب میں جب ایوب خان کا محترمہ فاطمہ جناح سے صدارتی مقابلہ ہوا تھا تو ملک کے تمام سیاستدان محترمہ فاطمہ جناح اور ذوالفقار علی بھٹو اپنے فوجی صدرکے ساتھ تھے اور انھوں نے صدارتی انتخاب میں ایوب خان کو جتوانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ جنرل ایوب پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام تمام سیاستدانوں نے لگایا تھا۔
6 ستمبر 1965ء کی جنگ کے بعد بھٹوکے صدر ایوب سے اختلافات پیدا ہوئے تھے اور معاہدہ تاشقند کو بنیاد بناکر وزارت چھوڑ دی تھی اور 1967ء میں اپنی پارٹی بنا کر سیاست کی ابتدا کی تھی کہ وہ معاہدہ تاشقند کے تھیلے سے بلی باہر نکالیں گے مگر وہ بلی کبھی باہر نہیں نکلی کیونکہ بلی تھی ہی نہیں اور بھٹو نے معاہدہ تاشقند کو اپنی سیاست چمکانے کا جواز بنایا تھا اور پہلی بار اسلامی سوشل ازم کے نام پر عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان کے خوشنما خواب دکھائے تھے۔
مشرقی پاکستان میں زیادتیوں کو بنیاد بناکر شیخ مجیب نے 6 نکات کے منشور پر اور بھٹو نے اسلامی سوشل ازم اور عوام کے دلوں کی بات کرکے ایوب خان کے جانے کے بعد جنرل یحییٰ خان کے انتخاب میں کامیابی حاصل کی تھی۔ منصفانہ قرار دیے جانے والے عام انتخابات میں شیخ مجیب نے مغربی پاکستان سے کوئی کامیابی حاصل نہیں کی تھی اور مشرقی پاکستان میں دو کے سوا تمام ہی نشستیں جیت لی تھیں اور بھٹو صاحب نے پنجاب اور سندھ اور مولانا مفتی محمود اور عبدالولی خان نے صوبہ سرحد اور بلوچستان میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی تھیں۔
جنرل یحییٰ خان کے منصفانہ انتخابات کرانے میں ان کا مفاد صدر بننے میں جب کہ مجیب الرحمن اور بھٹو وزیر اعظم بننا چاہتے تھے۔ جنرل یحییٰ خان اور بھٹوکو شیخ مجیب کی نمایاں کامیابی کی توقع نہیں تھی اس لیے دونوں نے مل کر شیخ مجیب کو اقتدار سے دور رکھنے کی کوشش کی اور مشرقی پاکستان کے عوام کی رائے کو مسترد کرنا چاہا تو بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو پاکستان توڑنے کا موقعہ ملا اور اس نے شیخ مجیب کے ساتھ مل کر مشرقی پاکستان پر حملہ کیا، جس میں پاکستان کو شکست ہوئی اور بھارت نے ایک لاکھ پاکستانی فوجی گرفتار کرکے ملک کو دولخت کردیا تھا۔
مفادات کے حصول کی سیاست کا آغاز 1970ء میں ہونے والے عام انتخابات سے ہوا تھا جو 2018ء کے انتخابات تک کامیابی سے جاری رہا۔
عمران خان نے 2013ء میں ناکامی کے بعد چار حلقوں میں دھاندلی کو بنیاد بنا کر جو طویل دھرنا دے کر دوسروں کو جو راستہ دکھایا تھا پانچ سال بعد وہی ان کے گلے پڑا اور مکافات عمل قرار پایا۔ بھٹو نے کامیابی کے لیے عوام کو روٹی کپڑا اور مکان کا خواب دکھایا تھا اور عمران خان نے عوام کو کرپشن، نا انصافیوں کے خاتمے کا نعرہ لگا کر نئے پاکستان کا خواب دکھایا جو بنا تو عوام نے دیکھ لیا کہ عمران خان نے سابق بدعنوانوں کی چیخیں نکلوانے کا اعلان کیا تھا مگر سوا سال میں نئے پاکستان میں عوام کی چیخیں نکل آئی ہیں اور الیکشن دھاندلی، اداروں کی مداخلت، بیروزگاری اور مہنگائی کا آزادی مارچ وزیر اعظم کے گلے پڑ گیا ہے۔
بھٹو کے وعدے پر عوام کو مکان نہ ملا۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف کے دکھائے عوامی خوشحالی کے خوابوں کو تعبیر نہ ملی اور عوام سے روٹی کپڑا چھیننے والے اربوں، کھربوں کی مالیت بنانے والے آج کرپشن کے مقدمات میں جرم ثابت ہوئے بغیر قید میں ہیں۔
آصف زرداری نے ملک میں تاریکی پھیلائی تو نواز شریف کو کامیابی ملی مگر پھر وہ پانامہ کی بجائے اقامہ میں اقتدار سے باہرکیے گئے۔ نئے پاکستان میں عوام کو بیروزگاری اور مہنگائی کے سوا کچھ نہ ملا۔ ادارے مداخلت کے نام پر متنازعہ بنائے جا رہے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان سے بہت زیادہ توقعات تھیں مگر مایوسی بڑھ رہی ہے اور حکومتی وزرا جھوٹے سیاسی بیانات دینے، غلط دعوے کرنے اور ٹی وی ٹاک شوز میں بے بنیاد سیاسی باتوں و بحثوں میں پڑے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ عوام ان کی باتوں سے بہل جائیں گے مگر اب عوام ہوشیار ہوچکے ہیں اور وزیروں کے بیانات سیاست سے عوام کا اعتماد ختم کرنے میں مصروف ہیں کیونکہ جھوٹوں کی بھی حد ہوتی ہے۔