وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ احتساب عوام کا نہیں، عدالتوں کا کام ہے اور ملک میں نیب جو احتساب کر رہا ہے اس کے کرپشن کے مقدمات موجودہ حکومت نے نہیں بنائے بلکہ یہ مقدمات مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے اپنی اپنی حکومتوں میں ایک دوسرے کے خلاف قائم کیے تھے۔
وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا درست ہے کہ عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ ہے جس کی وجہ سے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی ریمارکس دیے تھے کہ سیاسی معاملات سیاستدانوں کو عدالتوں میں لانے کی بجائے پارلیمنٹ میں لاکر ان کا حل نکالنا چاہیے۔ چیف جسٹس نے اسی لیے الیکشن کمیشن کے دو ارکان کے تقرر کا معاملہ عدالت سے چیئرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کو بھیج دیا تھا اور توقع ظاہر کی تھی کہ پارلیمنٹ کے یہ دو بڑے یہ مسئلہ پارلیمنٹ کے ذریعے حل کرا لیں گے۔
گزشتہ کچھ عرصے سے عدالتوں میں سیکڑوں مقدمات لائے گئے ہیں اور سیاسی مقدمات کا عدالتوں پر اس قدر بوجھ ڈال دیا گیا ہے کہ سالوں پرانے غیر سیاسی مقدمات میں تاخیر ہو رہی ہے اور سالوں میں بھی یہ فیصلے نہیں ہو پا رہے تھے۔ موجودہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے عہدہ سنبھالتے ہی پرانے مقدمات کو اہمیت دی تھی اور انھوں نے پرانے مقدمات کو انجام تک پہنچانے کے لیے ماڈل کورٹس قائم کی تھیں جو تیزی سے پرانے مقدمات نمٹا رہی ہیں۔
سپریم کورٹ نے اس سلسلے میں مقدمات میں غیر ضروری التوا دینے سے بھی سختی سے منع کیا تھا اور کسی ایمرجنسی کی صورت میں ہی التوا کی اجازت دی تھی کیونکہ چیف جسٹس چاہتے ہیں کہ ملک بھر میں عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ کم ہو۔ ترقی پذیر ملک ہونے کے ناطے یہاں ہر شعبے میں بہت سے مسائل ہیں۔ عدالتوں میں لڑائی جھگڑے اور دیگر مقدمات کی بھرمار ہے، عدالتیں تو روز مقدمات کی سماعت کرتیں اور یہ کوشش کرتی ہیں کہ مقدمے کا فیصلہ درست ہو اور کسی پر ظلم نہ ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پولیس مقدمات کی درست اور جدید پیمانے پر تفتیش کرے اور ایف آئی آر درج کرتے وقت تمام قانونی اور ضروری پہلوؤں کو مدنظر رکھے تاکہ مجرم کسی قانونی سقم کا فائدہ نہ اٹھا سکے اور مظلوم کو عدالتوں سے فوری انصاف مل سکے۔ وکلا حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ مقدمات کو غیر ضروری بحث میں الجھانے کے بجائے اس کے جلد فیصلے کی جانب توجہ دیں کیونکہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ انصاف میں تاخیر بھی ظلم کے برابر ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے اسیر رہنما رانا ثنا اللہ نے کہا تھا کہ ملک میں سیاسی معاملات سپریم کورٹ میں لائے جا رہے ہیں اور عدالتوں میں بڑھتے ہوئے سیاسی معاملات کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے کیونکہ سیاسی لڑائی کو گھسیٹ کر سپریم کورٹ میں لایا جاتا ہے۔ رانا ثنا اللہ کا موقف بھی سو فیصد درست ہے کیونکہ جس کو دیکھو منہ اٹھائے سپریم اور ہائی کورٹس چلا آتا تھا اور بعض تنظیمیں اور وکالت کی معلومات رکھنے اور شہرت کے حصول کے متلاشیوں نے اپنی عادت پختہ کر رکھی تھی اور ہر سیاسی معاملے میں عدالتوں کے ذریعے ٹانگ اڑانا انھوں نے اپنا مشغلہ بنا رکھا تھا جس کے بعد عدالتوں نے ایسے لوگوں کی کچھ سرزنش کی تو ایسے معاملات میں کمی آئی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کا یہ موقف درست ہے کہ احتساب عوام کا نہیں عدالتوں کا کام ہے کیونکہ عوام کا اختیار اپنی مرضی سے ووٹ دینا ہے مگر اب کچھ عرصے سے عوام کے پاس یہ اختیار بھی نام کی حد تک ہی رہا ہے کیونکہ الیکشن کمیشنمیں محدود اختیارات کے باعث مزید اصلاحات کی ضرورت ہے۔
1970 کے بعد کوئی ایسا الیکشن نہیں ہوا جو متنازعہ قرار نہ پایا ہو۔ الیکشن کمیشن مداخلت کے باعث خود مختار اور بھارت کی طرح بااختیار نہیں ہے جس کی وجہ سے شکایت رہی ہے کہ الیکشن کمیشن عوام کے ووٹوں کی حفاظت میں ناکام ہے۔ پہلے ووٹ کی چوری کی شکایتیں تھیں مگر 2018 کے الیکشن پر تو اپوزیشن کا الزام ہے کہ عوام کے ووٹوں پر اس دفعہ ڈاکہ مارا گیا تھا اور گزشتہ انتخابات جتنے متنازعہ اپوزیشن نے قرار دیے ایسے انتخابات 1977 میں ضرور ہوئے تھے مگر ان میں دھاندلیوں کا الزام اس وقت کی بھٹو حکومت پر لگایا گیا تھا اور دھاندلی میں کسی اور ادارے کا عمل دخل نہیں تھا جس کے نتیجے میں تحریک چلی تھی اور مارشل لا لگا کر بھٹو حکومت ختم کی گئی تھی۔
کرپشن کے مبینہ الزامات میں ملوث کیے گئے سیاستدانوں کا موقف ہے کہ احتساب کا اختیار عوام کو ہے اور عوام اپنا یہ اختیار الیکشن میں استعمال کرتے ہیں اور جس کو کرپٹ اور برا سمجھتے ہیں اسے مسترد کرکے اپنی مرضی کے ارکان اسمبلی لے آتے ہیں اور عوام کی طرف سے دی گئی سزا کے نتیجے میں مذکورہ سیاسی پارٹی اور اس کے نامزد امیدوار شکست سے دوچار قرار پاتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ عوام نے احتساب کرلیا مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ عوام جس کو ووٹ دیتے ہیں وہ شام کو کامیاب مگر رات گئے بلکہ چینلوں پر کامیابی کے اعلان کے باوجود ناکام قرار دے دیا جاتا ہے اور رات کو خوشیاں منانے والے صبح کسی اور کی کامیابی کی خبروں پر حیران رہ جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے اب عوام الیکشن میں دلچسپی نہیں لیتے اور ووٹ دینے گھر سے ہی نہیں نکلتے اس طرح عوام کا اپنے ناقص کارکردگی کے حامل امیدوار کے احتساب کا اختیار بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔
ملک میں احتساب کا کیس عدالتوں سے قبل نیب کے پاس ہوتا ہے اور نیب کی تفتیش اور کارکردگی سے متعلق سپریم اور ہائی کورٹوں کے فاضل جج جو بھی ریمارکس دے رہے ہیں وہ میڈیا میں آ رہے ہیں اور عوام سے چھپے ہوئے نہیں بلکہ نمایاں ہیں۔ احتساب پاکستان میں ہمیشہ ہی متنازعہ رہا ہے اور احتسابی عمل پر اعتراضات درست بھی ہیں۔ نواز شریف نے اپنے دور میں من پسند احتساب کے لیے اپنے خاص آدمی سینیٹر سیف الرحمن کو مقرر کیا تھا جو اپنے انتقامی احتساب میں بد نام ہوئے اور حکومت بدلتے ہی ملک سے فرار ہوگئے تھے۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے مخالفین کوکنٹرول کرنے کے لیے نیب بناکر اپنے جنرلوں کو اس کا سربراہ بنایا تھا، جس کے نتیجے میں کرپشن کرنے والے سیاستدان نیب کے احتساب سے محفوظ رہنے کے لیے اپنی پارٹیاں چھوڑ کر جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں شامل ہوگئے تھے۔ چیئرمین نیب کا تقرر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر مل کر کرتے ہیں اور سپریم کورٹ کے سابق جج جاوید اقبال کا تقرر بھی مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی نے کیا تھا۔ اپوزیشن نیب کے احتساب کو جانبدارانہ اور انتقامی قرار دے رہے ہیں۔ نیب کا اصول پہلے گرفتاری اور بعد میں ثبوت ڈھونڈنا رہ گیا ہے۔ جس کی وجہ سے نیب احتساب عدالتوں سے ریمانڈ پہ ریمانڈ لے رہی ہے اور زیر سماعت مقدمات عدالتوں میں آگے نہیں بڑھ رہے۔ عدالتوں کو نیب کے دعوے نہیں ثبوت چاہیے ہوتے ہیں جو نہیں دیے جا رہے اور احتساب متاثر ہو رہا ہے۔