گورنر سندھ عمران اسمٰعیل کا کہنا ہے کہ کراچی کے مسائل کی وجہ سندھ حکومت کی طرف سے شہری حکومت کو اختیارات نہ دینا بھی ہے۔ میئرکراچی کو صفائی کرانے کے اختیارات تک نہیں ہیں۔ شہر میں صفائی اورکچرا اٹھانے کا کام سندھ حکومت نے سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کو سونپ رکھا ہے اور رقم بھی بورڈ کو دیتی ہے، بلدیہ عظمیٰ کو صفائی کی مد میں کوئی رقم نہیں دی جاتی۔
کراچی کے سابق سٹی ناظم مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ میئر کراچی موجودہ اختیارات میں بھی شہر میں صفائی اور کچرا ہٹوا سکتے ہیں مگر وہ کام ہی کرنا نہیں چاہتے اس لیے وہ چار سال سے اختیارات نہ ہونے کا واویلا کرتے آرہے ہیں۔ سیاست میں الزام تراشی چلتی رہتی ہے، اصل توجہ عوام کے مسائل کے حل پر دینی چاہیے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینئر اور وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول کا موقف ہے کہ میئرکراچی کا شہر کی صفائی اورکچرے سے ہاتھ لگانے کا بھی تعلق نہیں ہے اور صفائی کی ذمے داری متعلقہ ڈی ایم سیزکی ہے۔
واضح رہے کہ کراچی کی چار ڈی ایم سیز نے اپنی مرضی سے صفائی کی ذمے داری سندھ ویسٹ بورڈ کو دی تھی جس نے صفائی اور کچرا ہٹانے کا ٹھیکہ ایک چینی کمپنی کو دے رکھا ہے جو اپنی ذمے داری نبھانے میں مکمل ناکام رہی ہے۔ کراچی کے دو اضلاع جنوبی اور سینٹرل جہاں پی پی اور ایم کیو ایم کے چیئرمین ہیں وہاں صفائی اور کچرا ڈی ایم سی خود یہ کام کرتی ہیں جب کہ باقی چار اضلاع شرقی، غربی اور کورنگی میں ایم کیو ایم اور ضلع ملیر میں پیپلز پارٹی کے ضلعی چیئرمین ہیں۔
کراچی کی تمام ڈی ایم سیز ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشن کہلاتی ہیں مگر سندھ حکومت نے تعصب کے باعث ڈی ایم سیز کے سربراہوں کو میئر کی بجائے چیئرمین کا نام دے رکھا ہے جب کہ اندرون سندھ سکھر، لاڑکانہ اور حیدرآباد کی میونسپل کارپوریشنوں میں میئر کے عہدے رکھے گئے ہیں۔
بلدیہ عظمیٰ کراچی ملک کی سب سے بڑی بلدیہ ہے جس کا سربراہ صرف میئر کہلاتا ہے اور ملک کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں لارڈ میئر منتخب ہوتا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے شہر میں بلدیہ عظمیٰ میں صرف ایک ڈپٹی میئر ہے جب کہ لاہور میں 9 ڈپٹی میئر ہیں اور ملک کی دیگر میونسپل کارپوریشنوں میں 3 سے 6 تک ڈپٹی میئر منتخب ہوتے ہیں۔
یہ بلدیاتی امتیاز اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سندھ کے بلدیاتی اداروں کو جان بوجھ کر اختیارات دینا ہی نہیں چاہتی اور ملک میں سب سے کم بے اختیار بلدیاتی ادارے صرف سندھ میں ہیں۔ سندھ حکومت منتخب بلدیاتی اداروں کی قائل ہی نہیں اس کا بس چلے تو کبھی بلدیاتی الیکشن نہ کرائے اور ان اداروں کو سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے ذریعے چلائے جہاں محکمہ بلدیات ماضی میں لاکھوں روپے رشوت پر تقرریاں کیا کرتا تھا۔
سندھ کے بلدیاتی اداروں میں کرپشن سب سے زیادہ ہے جو وزیر بلدیات کے ماتحت ہوتے ہیں اور رشوت کے الزام میں سندھ کے دو سابق وزرائے بلدیات آغا سراج درانی اور شرجیل میمن گرفتار ایک اویس ٹپی ملک سے فرار اور جام خان شورو نیب میں مقدمات بھگت رہے ہیں۔ ملک کی تمام جمہوری حکومتیں منتخب بلدیاتی اداروں کے خلاف رہی ہیں، جس کی وجہ سے ملک میں باقاعدگی سے بلدیاتی انتخابات آمرانہ حکومتوں میں ہوئے اور جنرل پرویز مشرف کے بلدیاتی ضلعی حکومتوں کے نظام کو ملک میں سب سے زیادہ بااختیار قرار دیا جاتا ہے۔
جس میں صوبائی سیکریٹریز اور کمشنر اور اضلاع کے بادشاہ سمجھے جانے والے ڈپٹی کمشنر منتخب ناظمین کے ماتحت بنادیے گئے تھے۔ مگر 2008 میں منتخب کہلانے والی جمہوری حکومتوں اور ان کے ارکان اسمبلی اور بیورو کریٹس کو ملک میں پہلی بار بااختیار بنایا جانے والا ضلعی حکومتوں کا نظام پسند نہیں تھا اور ان سیاسی حکومتوں نے موقعہ ملتے ہی بااختیار بلدیاتی نظام ختم کرکے سابق صدر جنرل ضیاالحق کا 1979 کا بلدیاتی نظام بحال کیا تھا۔ سیاسی حکومتوں نے کمشنری نظام بحال کرکے منتخب بلدیاتی عہدیداروں کو کمشنری نظام کا مکمل محتاج بنایا اور ان کو برائے نام اختیارات دیے اور بلدیاتی اداروں میں ارکان اسمبلی کی مداخلت بحال ہوئی تھی۔
پاکستان کے آئین کے تحت ملک میں باقاعدگی سے بلدیاتی انتخابات کرانا، انھیں عوامی مسائل کے حل کے لیے اختیار دینا آئینی ضرورت ہے۔ آئین کے تحت بلدیاتی کام سڑکیں، گلیاں بنانا، فراہمی ونکاسی آب، روشنی کی فراہمی بلدیاتی عہدیداروں کی آئینی ذمے داری ہے۔ ارکان اسمبلی کا یہ کام نہیں ہے جس کی وضاحت سپریم کورٹ بھی کرچکی ہے مگر جمہوری حکومتوں میں ہمیشہ بلدیاتی انتخابات سے گریز کیا گیا اور ترقی کے نام پر رشوت دے کر ارکان اسمبلی کی حمایت کے حصول اور انھیں کمانے کا موقع دینے کے لیے کروڑوں روپے کے تعمیری و ترقیاتی کام ہر حلقہ انتخاب میں ارکان اسمبلی کراتے آرہے ہیں جو سراسر غیر آئینی اور یہ کام منتخب بلدیاتی عہدیداروں کا ہے۔
یہاں تو بلدیاتی انتخابات سیاسی حکومتیں نہیں کراتیں بلکہ سپریم کورٹ کے حکم پر گزشتہ بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے جو مدت مکمل ہونے پر قبل از وقت بلوچستان میں اور کے پی کے میں بعد میں بلدیاتی منتخب عہدیدار گھر بھیج دیے گئے اور تبدیلی سرکار نے کئی ماہ قبل از وقت پنجاب کے منتخب بلدیاتی عہدیداروں کو اس لیے ہٹا دیا تھا کہ ان کی اکثریت کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے تھا جو پنجاب کی مخلوط حکومت سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ اس لیے انھیں ہٹا کر سرکاری ایڈمنسٹریٹر مقررکیا گیا جو عدالتوں میں چیلنج ہوئے مگر انھیں غیر قانونی طور پر ہٹانے کے مقدمات زیر سماعت نہیں آرہے۔ سندھ کے بلدیاتی اداروں میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے جو کسی وقت بھی سبکدوش ہوکر سرکاری ایڈمنسٹریٹر لائے جاسکتے ہیں۔
میئر کراچی نے چار سالوں میں کام کم اور سندھ حکومت سے شکایات زیادہ کیں مگر سندھ حکومت نے ان کے مطالبات پر کبھی توجہ نہیں دی۔ اب وزیر اعظم عمران خان نے کراچی کے مسائل کے حل کے لیے پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کے نمایندوں پر مشتمل جو کمیٹی بنائی ہے اس میں پیپلز پارٹی کو شامل ہی نہیں کیا گیا جسے وزیر اطلاعات سعید غنی نے اپوزیشن کی کمیٹی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ پی پی کو نظرانداز کرنے پر کراچی کے مسائل کے حل میں مشکلات پیش آئیں گی۔ سندھ حکومت اس کمیٹی سے تعاون نہیں کرے گی تو کراچی کے مسائل واقعی حل نہیں ہوں گے اور کریڈٹ کی نذر ہوجائیں گے۔
کراچی کے مسائل سیاسی کریڈٹ کا جھگڑا ہیں پی پی کبھی نہیں چاہے گی کہ حل کا کریڈٹ پی ٹی آئی اور ایم کیو ایم کو ملے اور وفاقی حکومت نے اپنی کمیٹی میں اسی لیے پی پی کو شامل نہیں کیا۔ سیاسی کریڈٹ لینے کا ہی یہ جھگڑا ہے یہ کام کریں گے اور نہ ہی کرنے دیں گے۔