پارلیمنٹ میں کیا کچھ ہوتا رہا ہے وہ یہیں تک محدود تھا اور نجی چینلز کے ذریعے ووٹروں کو بس اتنا پتا چلتا تھا کہ اسمبلیوں میں کورم کا مسئلہ سب سے زیادہ رہا اور آرام دہ خالی کرسیاں اور پرتعیش ایوان میں درجن دو درجن ارکان کی موجودگی منہ چڑاتی نظر آتی۔ کورم پورا کرنے کے لیے بجائی جانے والی گھنٹیوں کی آواز عوام تو نہیں سنتے تھے مگر خبروں میں ضرور پڑھتے تھے کہ کورم پورا نہ ہوا گھنٹیاں بجتی رہیں مگر ارکان ایوان میں نہ آئے تو مجبوراً اجلاس ملتوی کردیا گیا۔
کبھی کبھی وزیر اعظم کا موڈ ہوا یا کوئی نہایت ہی اہم مسئلہ درپیش ہوتا تو وہ تشریف لے آتے جن کی آمد پر سرکاری ارکان خوب ڈیسک بجا کر وزیر اعظم کا استقبال کرتے اور وہ وزیر اعظم کو اپنی شکل دکھانے ضرور آتے اور ایوان بھرا نظر آتا جس سے فائدہ اٹھا کر ارکان وزیر اعظم سے مل کر اپنے کام بھی کرا لیا کرتے کیونکہ عام طور پر ارکان قومی اسمبلی وزیر اعظم کو منتخب کرنے کے بعد وزیر اعظم سے دور ہوجاتے ہیں۔ ارکان اسمبلی بھی اپنے ووٹروں سے ووٹ لے کر ان سے دور ہوجاتے ہیں تو دوسری طرف وزیر اعظم ان سے دور ہوجاتے ہیں۔
صرف یوسف رضا گیلانی واحد وزیر اعظم تھے جنھوں نے قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ حاضریاں دے کر جہاں اپنا ریکارڈ قائم کیا تھا، وہاں نواز شریف بھی واحد وزیر اعظم تھے جنھوں نے ایوان بالا سینیٹ میں ایک سال تک نہ آنے کا ایسا ریکارڈ بنایا کہ سینیٹ میں کہا گیا کہ وزیر اعظم خود سینیٹ آجائیں۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف بعد میں ایوان بالا میں آئے مگر اب ایوان بالا کے چودہ ارکان نے یکم اگست کو جو ریکارڈ قائم کرکے اپنے ایوان کے ساتھ جس طرح کا سلوککیا وہ ٹی وی چینلز پرکھلے عام دیکھا گیا کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے حق میں 64 ارکان کھڑے ہوئے مگر جب خفیہ رائے شماری کا رزلٹ آیا تو 64 ممبران سکڑ کر 50 رہ گئے اور پانچ نے اپنے ووٹ مسترد کرانا ضروری سمجھا۔ چھٹا ووٹ تو خود چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کا بھی مسترد ہو جاتا اگر انھیں بروقت اپنی غلطی کا پتا نہ چل جاتا اور انھیں احساس ہو جانے پر دوسرا بیلٹ پیپر لے کر خود کو ووٹ دینا پڑا۔
ارکان سینیٹ میں کوئی ان پڑھ نہیں کہ جو ووٹ دینے کا طریقہ کار نہ جانتا ہو مگر پھر بھی پانچ ارکان سینیٹ نے کسی مصلحت یا بارگینگ کے تحت اپنے ووٹ مسترد کرا کر حکومت کو فائدہ پہنچا دیا۔ حکومت کے اپنے ووٹ ڈپٹی چیئرمین کے خلاف تو صرف 32 پڑے مگر 36 حکومتی ارکان سینیٹ کے ووٹ چیئرمین سینیٹ کے حق میں 45 ہوگئے اور اپوزیشن کو اپنی تحریک کی حمایت میں 64 کھڑے ہوئے ووٹ بھی نہ مل سکے کیونکہ دس خفیہ ووٹنگ میں چیئرمین سینیٹ کی کھلی مخالفت کے بعد حمایت میں تبدیل ہوگئے اور اپوزیشن جو دنیا کو کھلے عام اپنے 64 ارکان دکھا چکی تھی۔ جس کے بعد سو فیصد یقین تھا کہ صادق سنجرانی ہار جائیں گے مگر ایوان میں موجود بعض حکومتی سینیٹر بے فکر تھے اور ان کی مسکراہٹ اور اطمینان اندر ہونے والی لوٹا کریسی سے رزلٹ تبدیل ہونے کی خوشخبری دے رہی تھی جو سو فیصد اس قدر مطمئن تھے کہ انھوں نے دو گھنٹے قبل ہی پھولوں کے ہار منگوا کر اپنے دفتر میں رکھوا دیے تھے اور خفیہ ووٹنگ کے نتیجے کا اطمینان سے انتظارکر رہے تھے۔
شیخ رشید احمد جو آج کل وزیر ریلوے سے زیادہ سیاسی پیشگوئی کرنے والے پیر صاحب پگاڑا مرحوم بنے ہوئے ہیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے دس روز پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائے گی۔ مرحوم پیر پگاڑا تو ایک اہم ادارے سے قریبی تعلق کا اعلان کیا کرتے تھے مگر شیخ رشید ایسا کوئی اعلان تو نہیں کرتے مگر ان کی باتوں سے یہ ضرور لگتا ہے کہ وہ اندرون خانہ ہونے والے معاملات سے کافی باخبر ہوتے ہیں۔
ٹی وی اسکرینوں پر نظریں جمائے ہوئے لوگ جن میں اپوزیشن، حکومتی اور غیر جانبدار ہونے کے دعویدار اپوزیشن کے 64 ارکان کے تحریک عدم اعتماد کی حمایت میں کھڑے ہاتھ دیکھ چکے تھے انھیں تحریک کی کامیابی کا مکمل یقین اور صرف ووٹنگ کے نتیجے کا انتظار تھا ان سب کے منہ پھٹے کے پھٹے رہ گئے جب غیر متوقع یہ اعلان ہوا کہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد 53 کی بجائے صرف 50 ووٹ ہی حاصل کرسکنے پر ناکام ہوگئی اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اپوزیشن سے کم صرف 45 ووٹ لے کر بھی عہدہ بچانے میں کامیاب ہوگئے اور اپوزیشن اعلان سن کر سکتے میں آگئی کیونکہ خفیہ ووٹنگ میں کام دکھانے والے اپنا کام کامیابی سے دکھا چکے تھے اور مٹھائی اپوزیشن کی بجائے حکومتی سینیٹر کھا رہے تھے جنھیں پہلے ہی رزلٹ کا پتا تھا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری نے صادق سنجرانی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اجلاس سے قبل ہی مستعفی ہوجائیں اور 31 جولائی تک امید بھی یہی تھی کہ صادق سنجرانی مستعفی ہوجائیں گے مگر انھوں نے مستعفی ہونے سے صاف انکار کردیا تھا اور مقابلے کا اعلان کردیا تھا کیونکہ شاید انھیں بھی اندازہ ہوچکا تھا کہ خفیہ ووٹنگ میں کیا ہونے والا ہے۔
گزشتہ سال عام انتخابات سے قبل مارچ میں بلوچستان میں ہونے والے کامیاب ڈرامے کے ہدایت کار اگر چاہتے تو یکم اگست کا تبدیلی ڈرامہ ناکام نہ ہوتا کیونکہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار ثنا اللہ زہری نے تحریک عدم اعتماد سے قبل ہی اپنی متوقع ناکامی پر استعفے دے کر عزت بچالی تھی اور بلوچستان میں نئی حکومت اور نئی بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام اور پھر صادق سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ بنانے کا فیصلہ کہیں اور ہوچکا تھا اور وہی ہوا بھی۔
پاکستان میں چار عشروں سے جاری ہارس ٹریڈنگ اور ضمیر فروشی اپنی پارٹی سے غداری اگرچہ معمول رہی ہے مگر اس بار جو ڈرامہ ہوا وہ حیرت انگیز تھا جس میں الزام کہیں لگا۔ بقول شہباز شریف ایک سیاسی شخصیت کا جہاز اس بار خفیہ طور چلا اور دنیا نے دیکھ لیا کہ 64 پر 36 والے اقلیت میں ہوکر بھی کامیاب ہوگئے مگر کھلے عام پارلیمانی رسوائی جو ہوئی وہ ماضی سے مختلف تھی۔