سپریم کورٹ نے تجارتی حجم کم ہونے کو ملکی معیشت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے اور ریمارکس دیے ہیں کہ حکومت ایک طرف کہہ رہی ہے کہ کاروباری طبقے کو سہولتیں دی جائیں گی جب کہ دوسری طرف ان کے لیے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں۔ سپریم کورٹ نے ایک کیس کی سماعت میں پنجاب حکومت کی اپیل خارج کرتے ہوئے کاروباری طبقے کو سہولتیں دینے کا حکم بھی دیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اسی روز ایک دوسرے کیس میں ایف بی آرکے نوٹس کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ ایف بی آر کا موقف ہے کہ کمپنی ٹیکس ادا کرنے آگئی ہے، اب پچھلے حساب بھی دے، یہ کیسا طریقہ کار ہے کہ جس کی وجہ سے ملک سے انڈسٹری بنگلہ دیش اور سری لنکا منتقل ہو رہی ہے۔
ایک نجی کمپنی سے سیلز ٹیکس سے متعلق 5 سال سے زیادہ پرانا حساب مانگنے پر نوٹس کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے استفسار کیا کہ مقررہ پانچ سال کے بعد کیسے کمپنی کو نوٹس جاری کیا جا سکتا ہے جس کی مدت گزر چکی ہے۔ قانونی مدت کے دوران نوٹس کیوں جاری نہیں کیا گیا۔ سپریم کورٹ میں کہا گیا کہ ایف بی آر کے بقول نجی کمپنی نے 2001 سے 2005 تک ٹیکس ادا نہیں کیا اور 2009 سے کمپنی ٹیکس ادا کر رہی ہے۔
جس کے بعد 2016 میں ہوش آیا کہ کمپنی نے فراڈ کیا ہے جس کی انکوائری تین سال جاری رہی۔ ایک ہی روز میں سپریم کورٹ میں حکومت پنجاب اور ایف بی آر کے دو مختلف اقدامات کے خلاف درخواستوں کی سماعت ہوئی اور دونوں کے خلاف فیصلے سپریم کورٹ کی طرف سے آئے جو موجودہ حکومت اور اس کی معاشی ٹیم کی کارکردگی پر سوالات ہیں جو ملکی معیشت کی بحالی کے اقدامات کے گیت گاتے نہیں تھکتی جب کہ حالت یہ ہوگئی ہے کہ ملکی معیشت میں رکاوٹ اور خوف و ہراس کے خلاف مجبور ہوکر تاجر اور صنعتکار مایوس ہوکر پھٹ پڑے اور انھوں نے ایک ملاقات میں وزیر اعظم کو حقائق سے آگاہ کیا۔
موجودہ حکومت ملک کی واحد حکومت ہے جو 14 ماہ میں تاجروں اور صنعتکاروں تک کا اعتماد کھو چکی ہے جب کہ حکومتی پارٹی اور حلیفوں کو اب بھی ملک میں ہر جگہ ہرا ہی ہرا نظر آرہا ہے جب کہ اپوزیشن کا الزام ہے کہ حکومت نے ملک میں تباہی پھیلا دی ہے ان سے ملک چل رہا ہے نہ معیشت سنبھالی جاسکی ہے اور وزیر اعظم اپنے جس رہنما اسد عمر کو وزیر خزانہ بڑے فخر سے بناکر لائے تھے ان کی ناکامی کے بعد پی پی دور کے آزمائے ہوئے عبدالحفیظ شیخ کو ان کی جگہ لاکر معیشت کو بہتر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
شبرزیدی کو چیئرمین ایف بی آر لگا کر نئے معاشی تجربے کیے گئے مگر معاشی صورتحال اتنی ابتر ہوگئی ہے کہ اہم شخصیات سے تاجروں و صنعتکاروں کو ملنا پڑا اور اب سپریم کورٹ سے بھی ریمارکس آگئے ہیں کہ آخر حکومت کرنا کیا چاہ رہی ہے کہ صورتحال قابو میں آنے کی بجائے بگڑ ہی رہی ہے اور حکومت کے دعوے کے برعکس کاروباری طبقے کو سہولتیں نہیں مل رہیں بلکہ ان کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
تاجروں کی طرف سے شکایات وزیر اعظم کو کیے جانے کے بعد چیئرمین نیب کی جانب سے بھی وضاحت سامنے آئی۔ چیئرمین نیب نے اپنی اتوار کی پریس کانفرنس میں نیب کی طرف سے وضاحتیں پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے جن اقدامات کا اعلان کیا ان میں 2017 سے پہلے کے ٹیکس ریفرنس بھی واپس لینے کا اعلان کردیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ نیب بینک ڈیفالٹرز کے خلاف ازخود کارروائی نہیں کرے گا اور نہ کوئی نیب افسر کسی تاجر کو فون کرے گا۔
تاجروں نے کہا ہے کہ نیب لٹیروں کو ضرور پکڑے مگر تاجروں کو تنگ نہ کرے۔ تاجر رہنماؤں نے نیب کو تاجروں کے خلاف کارروائی کے اختیارات دینے کی بھی مخالفت کی اور کہا کہ تاجروں نے جو تحفظات پیش کیے تھے، ان میں وزن تھا اسی لیے کمیٹی قائم کی گئی اور حکومت کی 13 ماہ کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں، الزام لگایا گیا کہ ایف بی آر بھی معیشت کی بدحالی کا ذمے دار ہے۔
ایف بی آر کی طرف سے دعویٰ تو کیا جاتا ہے کہ ہزاروں نئے افراد ٹیکسوں کی ادائیگی کے لیے ٹیکس نیٹ میں داخل ہوئے ہیں اور ٹیکس ریکوری بڑھی تو ہے مگر توقعات کے مطابق نہیں۔
حکومت کی طرف سے مسلسل کہا جاتا ہے کہ ملک میں ٹیکس دینے والوں کی تعداد کم ہے۔ یہ حکومتی موقف سراسر غلط و بے بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ملک کا ہر امیر، غریب، سرکاری و غیر سرکاری ملازمین ٹیکس ادا کر رہے ہیں، کیا جی ایس ٹی اور سیلز ٹیکس حکومتی ٹیکس نہیں ہے۔
یہ دونوں ٹیکس عوام سے یوٹیلیٹی بلوں سمیت ہر چیز میں لیے جا رہے ہیں۔ موبائل فون کمپنیوں، بڑے ریسٹورنٹس اور پرنٹڈ قیمتوں میں لکھا گیا ٹیکس جو باقاعدگی سے وصول کیا جا رہا ہے وہ سرکاری خزانے میں جمع بھی ہو رہا ہے یا نہیں۔ تجارتی ادارے جو جی ایس ٹی اور سیلز ٹیکس عوام سے وصول کیے جا رہے ہیں ان کی الگ سے لوگوں کو کوئی رسید نہیں دی جاتی کہ وہ اپنے اوپر عائد ٹیکس سے زیادہ جو رقم ادا کرچکے ہیں وہ رٹینر بن کر اپنی اضافی رقم واپس حاصل کرسکیں۔