فلموں میں تو ایسے مناظر افسانوی طور پر دکھائے جاتے تھے کہ کسی نے با اثر وڈیروں اور پولیس کے مظالم سے تنگ آکر ہتھیار اٹھا لیے۔ مظلوم ہی ظالم بنادیا گیا مگر بعد میں نہ چاہتے ہوئے مارا گیا یا گرفتار ہوگیا تو اس پر جھوٹے الزامات کی بوچھاڑ کرکے میڈیا کو اس سے متعلق جھوٹی خبریں دے کر پولیس نے ترقیاں اور انعامات ہتھیا لیے مگر حقائق کا کسی کو پتا چلا نہ ہی سچ جاننے کی کوشش کی گئی۔
پھولن دیوی، سلطانہ ڈاکو جیسے مشہور نام ہر جگہ ہی ملیں گے جو با اثر افراد اور پولیس کی وجہ سے ڈاکو بننے پر مجبور ہوئے اور ان کا نشانہ بڑے لوگ اور پولیس ہی ہوتی تھی وہ عام لوگوں کو لوٹتے تھے نہ تنگ کرتے تھے بلکہ الٹا ان کی مدد کیا کرتے تھے۔ ان کی دلیری، ہمدردی اور سخاوت کی وجہ سے دیہی علاقوں کے لوگ ان کی مخبری کرتے، پناہ دیتے اور انھیں گرفتاری سے بچاتے تھے۔
میرے آبائی شہر شکارپور سے بھی ایک ویڈیو موصول ہوئی ہے جس میں تعلقہ گڑھی یٰسین کے ایک ذمے دار کو ہاتھوں میں مختلف ہتھیار لیے اور اپنے سامنے مختلف ہتھیاروں کے کارتوس اورگولیاں پھیلائے بیٹھے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس پڑھے لکھے اور 5 سال پولیس میں ملازمت بھی کرنے والے ڈاکوکا حلیہ بنائے بیٹھے ہوئے مظلوم سے صحافی نے یہ کچھ کرنے کی وجہ پوچھی تو وہ بتاتا ہے کہ تین سال قبل اس کے گوٹھ پر با اثر افراد نے قبضہ کرکے ہمارے گھروں اور زمینوں سے ہمیں بے دخل کردیا تھا جس کی درخواستیں لے کر ہم نے ہر سرکاری دفتر، پولیس کے اعلیٰ افسروں اور اپنے سردار کا دروازہ کھٹکھٹایا اور مدد مانگی مگر جتوئی سردار کے سوا کسی نے مدد نہ کی۔
سردار ڈاکٹر محمد ابراہیم جتوئی جو میرے ذاتی واقف ہیں اور ماضی میں صوبائی وزیر اور رکن قومی اسمبلی رہے ہیں تعلیم یافتہ اور شریف سردار تسلیم کیے جاتے ہیں وہ اپنی قوم کے پڑھے لکھے زمیندار اور شریف جس کے ذمے اب تک کوئی معمولی ایف آئی آر بھی درج نہیں کو لے کر اعلیٰ سول افسروں اور پولیس کے ڈی آئی جی جو خود بھی بڑے زمیندار ہیں کے پاس مدد کے لیے گئے مگر کہیں سے بھی اس مظلوم کو سرکاری مدد نہ دلاسکے۔
تین سال سے زمینوں سے محروم کرکے گھروں سے نکالے جانے والے مظلوم بڑے گھرانے کے افراد در بدر پھر رہے ہیں اور اب ہر طرف سے مایوس ہوکر اس گھرانے کے سربراہ نے لوگوں سے ادھار رقم لے کر یہ اسلحہ خریدا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ میں ہتھیار اٹھانے پر مجبورکردیا گیا ہوں۔ لڑائی جھگڑا، خونریزی کوئی اچھی بات نہیں مگر اب ہمارے پاس اس کے سوا کوئی اور راستہ ہی نہیں بچا اور انتہا تک آنے پر مجبور کردیے گئے ہیں۔
مرنے مارنے کی نوبت تک لائے جانے والے اس گھرانے کے سربراہ کا اب بھی یہ موقف ہے کہ ہم پرامن طور پر اپنے حقوق کا حصول چاہتے ہیں اور کسی بھی جرم سے بچنے کے لیے مزید بھی انتظار کرنے کو تیار ہیں مگر مخالف بااثر برادری ان کا سردار اور اپنی قوم کی غیر قانونی مدد کرنے والا ڈی آئی جی پولیس ہمیں ہمارا حق دلانے کو تیار نہیں جب کہ ہم اس مسئلے کا فیصلہ چاہتے ہیں اور کوئی بھی منصفانہ فیصلہ کرے ہمیں قبول ہوگا۔
اس شخص کا کہنا تھا کہ دو سال تک ہر جگہ گیا مگر کسی نے نہیں سنی اب مجبور ہوکر میں نے اسلحہ، گولہ بارود خریدے ہیں اب بھی کسی نے مجھے حق نہ دیا تو میں اپنے گاؤں ضرور جاؤں گا میں اب بھی چاہتا ہوں کہ کوئی بھی مداخلت کرے اور خیر کرائے اگر ڈی آئی جی اوڈھو خیر کرانا چاہے تو خیر کرا سکتا ہے۔ میں خونریزی کی بجائے سکون کی زندگی چاہتا ہوں۔ جھگڑے سے کوئی فائدہ نہیں میں جھگڑے کی بجائے آزادی سے کاروبار کرنا چاہتا ہوں۔ میرے پانچ سو افراد بے گھر ہیں ہم اپنے گھروں کو جانا چاہتے ہیں اورکسی سے لڑنا نہیں چاہتے مگر ہمیں صرف اپنا حق چاہیے جو دس سالوں سے نہیں مل رہا۔
یہ ایک متاثرہ خاندان کے سربراہ کی کہانی نہیں حقیقت ہے اور ملک بھر میں یہی کچھ ہو رہا ہے مگر پولیس یا کوئی بھی ادارہ ان کی دادرسی نہیں کر رہا۔ ایسے معاملات میں پہلے باہمی فیصلے کی کوشش کی جاتی ہے بڑوں کو درمیان میں لایا جاتا ہے اور فیصلہ نہ ہونے پر مجبور ہوکر پولیس سے مدد طلب کی جاتی ہے تو پولیس پہلے تو ایسے معاملات کو نجی مسئلہ قرار دیتی ہے۔
ایف آئی آر درج کرنے کی بجائے عدالت میں جانے کا مشورہ دیتی ہے جہاں ایسے سول معاملات کے فیصلے سالوں میں نہیں ہوتے اور دونوں طرف کے وکلا اور عدالتی عملہ باہمی ملی بھگت سے جلد فیصلہ نہیں ہونے دیتے اور تاریخ پر تاریخ دے کر معاملے کو طول دیا جاتا ہے۔ ہر تاریخ پر وکلا اور عدالتی عملے کو مال ملتا ہے تو انھیں کیا پڑی معاملے کا جلد فیصلہ کریں کیونکہ جلد فیصلے سے دونوں کی کمائی بند ہوجائے گی۔ ایسے معاملات میں ججوں کو بھی علم نہیں ہوتا اور ان کے ریڈر کیس جج تک پہنچنے ہی نہیں دیتے اور مفت میں بد نامی عدلیہ کی ہوتی ہے کہ برسوں میں بھی فیصلے نہیں کیے جا رہے۔
30 سال قبل شکارپور میں ایک سیشن جج اقبال حسین رضوی تھے جو روزانہ فجر کی نماز پڑھ کر اپنی عدالت میں آکر بیٹھ جاتے تھے اور عدالت سے باہر آکر درخواست گزاروں سے مل کر ان کے جھگڑوں کی تفصیل معلوم کرتے تھے اور دونوں فریقوں کو اپنے چیمبر میں بلاکر چھوٹے باہمی جھگڑوں کے انصاف کے مطابق فیصلے کرا دیتے تھے اور متنازعہ فریق جلد تصفیے پر خوشی خوشی تنازعہ طے ہونے پر اپنے گھر لوٹ جاتے مگر ان کا یہ طریقہ وکیلوں اور عدالتی عملے کو پسند نہیں تھا کیونکہ اس طرح ان کی کمائی ختم ہوجاتی تھی۔
موجودہ چیف جسٹس سپریم کورٹ نے مقدمات کے جلد فیصلوں کے لیے جو ماڈل کورٹس بنائی ہیں وہاں سالوں سے زیر سماعت مقدمات کے جلد فیصلے ہو رہے ہیں کسی کو غیر ضروری التوا نہیں دیا جا رہا جس سے زیر سماعت مقدمات کی تعداد میں کمی آرہی ہے۔
سپریم کورٹ نے جرگوں پر پابندی تو لگا رکھی ہے مگر جرگوں پر یقین رکھنے والے لوگ اپنے فیصلے عدالتوں کی بجائے جرگوں کے ذریعے چاہتے ہیں جن میں منصفانہ فیصلے کم ہی ہوتے ہیں مگر جلد ہوجاتے ہیں۔ وکیلوں اور پولیس کے جھنجھٹ سے بچنے کے لیے لوگوں کے پاس نجی طور پر فیصلہ کرانے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے اور انتظامیہ اور پولیس کو ہوش بڑی خونریزی کے بعد ہی آتا ہے۔