Monday, 18 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. To Kon Action Le Ga?

To Kon Action Le Ga?

اعلیٰ عدلیہ کی طرف سے ملک میں سوموٹو ایکشن لیے جانے کی خبریں تو پہلے بھی آتی تھیں مگر سو موٹو ایکشن لینے کا نیا ریکارڈ سابق دور میں ہوا۔ حقیقت میں سابق چیف جسٹس نے جب پاکستان اسٹیل ملزکی فروخت رکوائی تھی اس وقت کے صدرکو بہت ناگوارگزرا تھا اور وہ ناراض ہوئے تھے اور انھوں نے چیف جسٹس کو اپنے پاس طلب کرکے انھیں مستعفیٰ ہونے کے لیے کہا تھا مگر چیف جسٹس نے انکارکر دیا تھا اور ان کے اس انکار نے عدلیہ میں بھونچال پیدا کردیا تھا۔

آمرانہ ادوار میں اس سے قبل بھی اعلیٰ عہدیداروں سے استعفے لیے جاتے تھے اور انھیں عبوری آئین پر حلف لینے کے لیے کہا جاتا تھا جس پر جو چاہتا حلف لے لیتا اور ملازمت پر برقرار رہتا جو حلف نہیں لینا چاہتا وہ گھر بیٹھ جاتا۔ حلف لینے یا نہ لینے والے حضرات کے اپنے اپنے اصولی موقف ہوتے کسی کو عہدے پر برقرار رہنا ہوتا اور وہ اپنی مدت پوری کرکے ریٹائر ہو جاتے اور جو اپنی مرضی سے پی سی او پر حلف اٹھانا نہیں چاہتے تھے وہ انکار کر دیتے اور تاریخ میں اپنا مقام بنانے کے لیے قبل ازوقت ریٹائر ہونا پسند کرتے تھے۔

مقام شکر ہے کہ گزشتہ 12سالوں سے ملک کا حکمران کوئی آمر نہیں بلکہ جنرل پرویزکی مسلم لیگ (ق) کی مدت ختم ہونے کے بعد بھی صدر مملکت اگست 2008 تک رہے مگر وردی اترنے کے بعد وہ با اختیار صدر نہیں تھے اور پی پی پی، مسلم لیگ(ن) کی حکومت آنے کے بعد انھیں مستعفیٰ ہونا پڑا تھا اور آصف زرداری صدر مملکت بن گئے تھے۔

جنرل پرویز مشرف عدلیہ کے کچھ معزول جج ورثے میں دے گئے تھے۔ ان معزول ججوں کی بحالی کے لیے مشرف دور میں بھی تحریک چلی تھی اور مسلم لیگ (ن) نے تو منشور میں ججزکی بحالی کو شامل کیا تھا جس کے سلسلے میں آصف زرداری اور نواز شریف کے درمیان تحریری معاہدہ بھی ہوا تھا کہ معزول عدلیہ کو دونوں پارٹیوں کی حکومت بحال کرے گی مگر آصف زرداری صدر منتخب ہوکر تحریری معاہدے سے منحرف ہوگئے تھے جس پر مسلم لیگ (ن) نے حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ عدلیہ بحالی تحریک میں اہم کردار پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری اعتزاز احسن کا بھی تھا اور وکلا بھی پیش پیش تھے مگر سب سے اہم کردار مسلم لیگ (ن) کا تھا جس کے سربراہ نواز شریف نے لاہور سے اسلام آباد کے لیے لانگ مارچ برائے ججزکی بحالی شروع کیا تھا جوگوجرانوالہ ہی پہنچا تھا کہ پیغام آگیا اور صبح سویرے وزیر اعظم گیلانی نے معزول ججوں کی بحالی کا اعلان کیا تھا اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور معزول جج بحال ہوئے تھے۔

افتخار محمد چوہدری اپنی معزولی سے قبل بھی سوموٹو ایکشن لیتے تھے اور عدلیہ کی بحالی کے بعد انھوں نے جہاں مناسب سمجھا سوموٹو لیا اور پی پی حکومت کے غلط اقدامات کے خلاف انھوں نے متعدد سوموٹو ایکشن لیے اور حکومتی فیصلوں کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت سوموٹو ایکشن لیے جانے کے خوف سے چیف جسٹس سے نالاں ہوگئی تھی اور بیرسٹر اعتزاز احسن چوہدری بھی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سے ناراض ہوگئے تھے مگر اپوزیشن اور عوام خوش تھے۔ سوموٹو ایکشن کے باعث اکثر معاملات میں متاثرین کو فائدہ اور حکومتی اقدامات کو نقصان پہنچا اور حکومت ختم ہونے کے بعد آصف زرداری نے متعدد بارکہا کہ ان کی حکومت کوکام کرنے نہیں دیا گیا اور پی پی پی حکومت کے ہاتھ بندھے رہے۔

یہ سو فیصد درست ہے کہ ملک میں غیر سول حکومتیں من مانیوں کی عادی رہی ہیں وہ سیاسی تو نہیں غیر سیاسی ہی کہلائیں مگر کبھی سیاست سے لاتعلق نہیں رہیں۔ غیر سیاسی سربراہوں نے جب بھی سیاسی حکومتوں کو ہٹا کر اقتدار سنبھالا انھوں نے ہمیشہ اپنی کانفرنسوں میں ہی اہم فیصلے کیے اور ہر ایسے وقت میں ملکی سیاست میں متعدد سیاستدانوں نے ان حکومت کو اپنے کندھے فراہم کیے۔ ان حکومتوں نے ہمیشہ عدلیہ کو اپنی راہ میں رکاوٹ سمجھا اور پی سی او کے تحت عدلیہ کے اختیارات محدود کیے۔ سیاستدانوں کی حکومتوں میں جو بھی وزیر اعظم رہا اس نے خود کو بادشاہ سلامت سمجھ لیا اور سویلین آمر کی طرح من پسند فیصلے کیے جن پر عدلیہ نے ہمیشہ آئینی قدغن لائی۔ عدلیہ نے سیاسی ہی نہیں غیر سیاسی سربراہوں کو بھی من مانی سے روکا اور واضح کیا کہ ان کی ترجیحات میں صرف آئین اور قانون مدنظر ہوتا ہے۔

عدلیہ کی بحالی کے بعد بلاشبہ عدلیہ نے زرداری اور نواز شریف حکومتوں میں اپنی برتری برقرار رکھی اور دونوں حکومتوں میں ان کے غلط فیصلوں کو آئینی طور پر غلط قرار دیا اور حکومتوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑی تھی۔ وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد ہر حکمران نے خود کو عقل کل سمجھا اور وہ ہمیشہ اپنے گرد موجود خوشامدیوں میں گھرا رہتا ہے اور اسے صرف اپنی مرضی کے فیصلوں کی تائید اچھی لگتی ہے۔ موجودہ حکومت کی خوش نصیبی ہے کہ اس کے آنے کے چار ماہ بعد چیف جسٹس ثاقب نثار ریٹائر ہوگئے تھے اور ان کے بعد صورتحال میں کافی تبدیلی آئی جس کی وجہ سے موجودہ حکومت بے فکر اور مطمئن ہے اور اسے اپنے من مانے فیصلوں میں کسی سوموٹو کا خوف نہیں ہے۔

موجودہ حکومت اپنی من مانیوں میں مصروف ہے۔ معاملے کی اہمیت پر حکومت متاثرین کو ٹھنڈا کرنے کے لیے اعلان توکر دیتی ہے پھر سب کچھ بھول جاتی ہے۔ موجودہ ادارے چاہتے ہیں کہ ملکی معاملات پارلیمنٹ میں طے ہوں مگر حکومت پارلیمنٹ کو اہمیت نہیں دیتی اور بالا بالا ہی من مانے فیصلوں کے لیے صدارتی آرڈیننس جاری کرا لیتی ہے جو فیصلے پارلیمنٹ میں ہونے چاہئیں وہ بلاخوف کہیں ہو رہے ہیں، ملکی صورتحال کسی سے پوشیدہ نہیں۔ عوام تنگ، تاجر، صنعتکار پریشان، میڈیا تباہ حال مگر حکومت کو کسی نوٹس کا قطعی خوف نہیں۔