فوجی امور کے ماہر امریکی مصنف نے لکھا آئی ایس آئی نام کی پاکستانی خفیہ ایجنسی کم از کم اخراجات کے ساتھ دنیا کی بہترین اور طاقتور ایجنسی ہے۔ دنیا بھر میں اس کے دس ہزار کارندے کام کرتے ہیں۔ اجنبی سرزمین پر اس کا کوئی ایجنٹ کبھی نہیں پکڑا گیا۔ القاعدہ کی گرفتاری اسی کا کارنامہ ہے۔ 1979ء سے 1989ء تک دس برس میں پاکستان اور افغانستان میں اس نے روسیوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ اس کی ہوشیاری اور تیزی کا یہ عالم ہے کہ امریکیوں سے افغانستان میں روسیوں کے خلاف وسیع تعاون حاصل کرنے کے باوجود امریکی ایجنٹوں کو افغانستان سے دور رکھا گیا۔
روسی فوج کے ایک اعلیٰ افسر جو افغانستان میں شریک جنگ رہے اور جنرل کے عہدے تک پہنچے۔ لکھتے ہیں:میں نے دس سال تک افغانستان میں کام کیا، آج افغانستان میں امریکی وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں جو ہم نے کی تھیں۔ امریکی مفادات پاکستان سے ٹکرا رہے ہیں۔ پاکستان کی انٹیلی جنس انتہائی تیز رفتار اور کامیاب ہے۔ اس کی منصوبہ بندی کے مقابلے میں امریکہ ناکام رہا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی ہتھیار امریکہ کے مقابلے زیادہ محفوظ ہاتھوں میں ہیں۔ ہندوستان کی "را" نے پہلے ہمارا ساتھ دیا تھا، اب وہی کام امریکہ کے لئے کر رہی ہے۔ امریکہ کا اصل ہدف چین پر نظر رکھنا ہے اس میں پاکستان بڑی رکاوٹ ہے۔ یہ حکمران نہیں پاک فوج ہے جو ہمارے بعد امریکہ کی موجودگی بھی برداشت نہیں کرتی۔ پاک افواج مسلمانوں کے لئے طاقت اور چین کی حفاظت کا ذریعہ ہے۔ ہماری کوشش تھی کہ اس کو تھکا دیا جائے کمزور کرنے کی خواہش میں خود ہی تھک گئے۔ یہ پاکستان کے پاس قیمتی اور نایاب طاقت ہے۔ اس کو مبارکباد دینا چاہیے۔ ہمارے بعد دوسری عالمی طاقت اس کے ہاتھوں لاچار ہے۔ جھنجھلاہٹ نے امریکہ کو پاگل پن تک پہنچا دیا ہے۔
انڈین خفیہ ایجنسی "را" کے سابق سربراہ دولت(Dulat)نے ایک انٹرویو میں کہا:پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی دنیا کی طاقتور ترین ایجنسی ہے۔ کبھی روس کی KGBہوا کرتی تھی مگر اب وہ باقی نہیں رہی۔ پاکستانی بہت خفیہ اور تیز رفتار ہے۔
اس ادھیڑ عمر خوش وضع امریکی کا نام نہیں جان سکا جو امریکہ میں پارلیمنٹ کی کمیٹی کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کروا رہے ہیں مگر یہ ہمارے لئے بھی اہم ہے اس لئے لکھ رہا ہوں۔ وہ کہتے ہیں: گزشتہ بیس سالوں کا بیشتر حصہ آئی ایس آئی کے ساتھ گزارنے کے بعد میں نے انہیں نہایت منظم اور بہت ہی قابل ایجنسی پایا ہے۔ لیکن آئی ایس آئی کسی دوسری ایجنسی کی طرح ایک انٹیلی جنس ایجنسی ہے۔ چاہے وہ آسٹریلیا کی ہو یا امریکہ کی ان کا مقصد دوسروں کی مدد کرنا نہیں ہوتا بلکہ اپنے ملک کی حفاظت کرنا اور اپنی حکومت کی مدد کرنا ہے۔ یہ بات کہ آئی ایس آئی ایک بے لگام ادارہ ہے کافی مشہور ہے اور بعض پاکستانی بھی اس بات کو دہراتے رہتے ہیں۔ جیسے میں نے کہا پاکستانیوں نے اس علاقے سے ہمارے ساتھ نکل نہیں جانا۔ انہوں نے وہیں رہنا ہے اور اپنے ملک میں چیزوں کو مستحکم کرنے کی کوشش کرنا ہے۔ ایسا کرنے کے لئے ان کے خیال میں افغانستان میں ایک اسلامی حکومت کا قیام ضروری ہے تاکہ افغانستان اگر کبھی توسیع کا سوچے تو پاکستان کی بجائے شمال میں وسط ایشیا کی طرف پھیلے۔ اس سے یہ فائدہ ہو گا کہ پاکستان اپنے ایک لاکھ فوجی مغربی سرحد افغانستان سے ہٹا کر مشرقی سرحد ہندوستان پر لگا سکے گا جو ہمیں اچھا لگے یا نہ لگے ہم یقین کریں یا نہ کریں لیکن پاکستان کے مطابق ان کا اصل دشمن ہے۔ میرے خیال میں افغانستان میں حالات کے ذمہ دار ہم خود ہیں۔ دشمن ہر ہفتے سینکڑوں جانوں کی قربانی دیتا ہے اور ہم تین سو ملین آبادی والی سپر پاور ہوتے ہوئے سال میں 160فوجیوں کی قربانی برداشت نہیں کر سکتے یہ ایک کمزور مثال ہے۔ خاص کر ایسے دشمن کے لئے جو اس سے بھی زیادہ قربانی دینے کے لئے تیار ہے اور ہم نے مسلمانوں کے سامنے اس چیز کا مظاہرہ کیا کہ ہمارے اندر مردانگی کی کمی ہے۔ امریکہ کے لوگ سمجھ رہے ہیں کہ اسامہ بن لادن مر گیا۔ ہم افغانستان سے نکل رہے ہیں اور مسائل ختم ہو گئے ہیں لیکن اگر حالات کا بغور جائزہ لیں تو اس وقت القاعدہ کے چھ آپریشنل پلیٹ فارم بن چکے ہیں۔ جبکہ 2001ء میں یہ تعداد ایک تھی۔ یعنی حالات مزید خراب ہو چکے۔ ہمارے دشمن حریف اور زخم خوردہ روس تک آئی ایس آئی کی پیشہ وارانہ مہارت، تیزی، ہوشیاری، بیدار مغزی اور بہادری کی تعریف میں رطب اللسان ہیں۔ لیکن ہماری اپنی سیاسی قیادت اور بعض نام نہاد جمہوری حکمران اپنے سکیورٹی اداروں کے خلاف کیوں ادھار کھائے بیٹھے ہیں؟ یہ نکتہ حل نہ ہو سکتا اگر ایک دن بینظیر کی حکومت کے وزیر دفاع اسلام آباد میں بیگم عابدہ حسین اور فخر امام کے گھر راقم کی موجودگی میں یہ واقعہ نہ سناتے کہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو کسی ذریعہ سے اطلاع ملی کہ بعض سیاستدان بھارتی سفارتخانے میں شباب و شراب کی محافل میں باقاعدگی سے شریک ہوتے اور کبھی شب بسری بھی کرتے ہیں۔ محترمہ نے آئی ایس آئی کے سربراہ ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل کلو اور آئی بی کے سربراہ لغاری صاحب کو بلا بھیجا اور انہیں اپنی معلومات سے آگاہ کرتے ہوئے حکم دیا کہ انڈین سفارتخانے میں داد عیش دینے والے پاکستانی سیاستدانوں کی نشاندہی کریں۔ دو ہفتے میں رپورٹ کرنے کا حکم ہوا۔ دو ہفتے بعد جب خفیہ اداروں کے سربراہ رپورٹ پیش کرنے والے تھے تو وزیر اعظم نے اپنے وزیر دفاع کو بھی حاضر رہنے کا حکم دیا۔ کرنل غلام سرور وزیر دفاع حاضر تھے۔ جب خفیہ اداروں کے سربراہ آئے انہوں نے وزیر اعظم سے کہا کہ آپ کے وزیر داخلہ، وزیر خزانہ اور رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے ایک وزیر بھارتی سفارتخانے میں رات گزارنے والوں میں سرفہرست ہیں۔ مذکورہ نام سنتے ہی وزیر اعظم آگ بگولہ ہو کر جنرل کلو اور آئی بی کے لغاری پر برس پڑیں کہ آپ لوگ ہمیں بدنام کرنے پر تلے ہو۔
اداروں کے سربراہوں نے کہا کہ ہم نے ازخود یہ رپورٹ آپ کو نہیں دی۔ اس حقیقت سے باخبر ہونے کے باوجود ہم خاموش تھے۔ اب آپ کی طرف سے حکم ملنے کے بعد ازسرنو پوری تحقیق کے بعد رپورٹ آپ کے گوش گزار کر دی لیکن وزیر اعظم کا غصہ کم نہیں ہوا اور وہ اٹھ کر چلی گئیں۔
وزیر اعظم نواز شریف کی جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں برطرفی کے بعد ہندوستان کے سابق وزیر اعظم گجرال نے ایک مضمون لکھا جو پاکستانی اخبارات میں بھی شائع ہوا جس میں ہندوستانی وزیر اعظم نے انکشاف کیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مجاہدین نے ہیلی کاپٹر پر فائر کیا تو پورے ہندوستان کے سکیورٹی اداروں میں تشویش پھیل گئی۔ وزیر اعظم گجرال نے ہمارے وزیر اعظم کو رات گئے ہاٹ لائن پر فون کیا اور ان کی مدد سے وہ "دہشت گردوں" پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے۔
بینظیر نے ہندوستان کے وزیر اعظم راجیو گاندھی کو اپنے انٹرویو میں جتلایا تھا کہ اگر وہ راجیو کی مشرقی پنجاب میں مدد نہ کرتیں تو آج انڈیا کہا ںہوتا؟ جب کسی ملک کا وزیر اعظم اپنے سکیورٹی اداروں اور وزارت خارجہ کو اطلاع دیے بغیر دشمن ملک کے وزیر اعظم سے کسی تیسرے ملک میں خفیہ ملاقاتیں کرے اور ان میں ہونے والی باتوں کو اخفاء میں رکھے تو کسی بھی ملک کے خفیہ ادارے اس کا کھوج لگانے کے پابند ہیں اور اس کے عہدے کی بلندی سے متاثر ہو کر اپنے فرائض سے دستبردار نہیں ہو سکتے۔
بعض سیاستدانوں کا خیال ہے وہ دشمن کی خفیہ ایجنسی کی چھوڑی ہوئی حسینائوں سے مراسم بڑھائیں، راجیو گاندھی کو دینے کے لئے ضرب مومن مشقوں کا پلان مانگے، مودی سے خفیہ ملاقاتیں کریں، بغیر ویزے کے مشکوک ہندوستانیوں کو بلا کر ان کے ساتھ وقت گزاریں اس سے پہلے اور بعد اپنے سکیورٹی اداروں کو اعتماد میں نہ لیں اور ان کا یہ کہہ دینا کافی ہے کہ ہمیں کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں تو کیا ہمارے وہ ادارے جو عوام کے تحفظ اور ریاست کی سلامتی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں انہیں مشکوک کرداروں پر نظر رکھنے کے "آپ کے سرٹیفکیٹ کی ضرورت ہے؟"۔