گوجرانوالہ کا جلسہ، حکومت ہٹانے کی تحریک، وزراء کے بیانات، وزیراعظم کا خطاب، نوازشریف کی تقریر اس طرح کے روزمرہ موضوعات، سارا وقت ہماری توجہ لیے رہتے ہیں حالانکہ ہمارے گرد زیادہ بڑی، دیرپا اور ہمہ جہت تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، ایسی تبدیلیاں جو قدیم زمانے کے مانے ہوئے نظریات اور فلسفے بدل دیں گی، تہذیبوں کی سمت اور مقامات پہلے سے نہیں رہیں گے، ابتدائے انسانیت سے "پدرسری" معاشرت اور مردوں کی صنفی برتری تک قائم نہیں رہ سکے گی۔
آج سے تقریباً چار دہائی پہلے شوکت تھانوی کا مزاحیہ ناول خدانخواستہ پڑھا، تو خوب ہنسی آئی اور اس سے دوستوں کو بھی محظوظ کیا، ناول کا مرکزی کردارسمندری سفر کے دوران بحری جہاز کے ڈوب جانے سے ایک تیرتے ہوئے تختے کے سہارے نامعلوم جزیرے تک پہنچ جاتا ہے، جزیرے کے ساحل پر خواتین گارڈ اسے حراست میں لے لیتی ہیں، عورتوں کو وردیوں میں اسلحہ سے لیس دیکھ کر وہ انہیں حیرت سے تکتا رہ جاتا ہے، اس کی حیرت اور بے باکی پر گارڈ اس پر طنز کرتی ہیں کہ یہ کیسا ندیدہ مرد ہے جو عورتوں کی طرح بے باک اور بے شرم ہے، عورتوں کی طرح سادہ کپڑے پہن رکھے ہیں، بنائو سنگھار ہے نہ سرمہ اور زیورات، دراصل اس جزیرے پر عورتوں کی حکومت اور مادر سری معاشرت ہے۔ بچے پیدا کرنے کے سوا مردوں کے سارے فرائض عورتیں انجام دیتی ہیں، کھیتی باڑی، جنگ و جدل، امن و امان، دفاتر کا نظام وغیرہ سب عورتوں کی ذمہ داری، مرد رنگین کپڑے پہنے، زیورات اور بنائو سنگھار کئے گھروں کی نگہداشت کرتے، بچے پالتے، چولہا جھونکتے، ہنڈیا پکاتے، روٹی بناتے، گھروں میں بیٹھ کر اپنی مجازی خدا کا انتظار کرتے ہیں، گھونگھٹ نکالے، شرمائے ہوئے چھوئی، موئی بنے رہتے ہیں۔
پھر یہ ہوا کہ ہمسایہ ملک کی فوج عورتوں کے جزیرے پر حملہ آور ہو گئی، طاقت ور، تربیت یافتہ فوجی مردوں نے آن کی آن عورتوں پر قابو پا لیا، بے چارے مرد کسی کام کے تھے نہیں، وہ ہائے، اوئی کرتے ہوئے کونے کھدروں میں چھپ چھپا کے رہ گئے۔
بعد میں یہ مسافر مرد، جزیرے کے مردوں کی جتھہ بندی کرتا، انہیں مردانگی کی طرف واپس لا کر تربیت کرتا، جنگ کے لیے جذبہ پیدا کرتا، ہنر سکھاتا اور طویل مزاحمت اور خون ریزی کے بعد جزیرے کو آزاد کروا لیتا۔ اس کے بعد یہ غیر فطری معاشرہ، اپنی حقیقی فطرت پر لوٹ آتا ہے۔ دہائیوں پہلے یہ ناول مزاح کا موضوع تھا لیکن آج کے حالات ایک الگ مستقبل کی نشاندہی کرتے ہیں۔
جمعہ کی نماز کے بعد ہمارے مولوی صاحب اجتماعی دعا میں یہ جملہ ہمیشہ دہراتے ہیں، یااللہ جو بے اولاد ہیں ان کو اولاد نرینہ عطا فرما، یہ دعا کرتے وقت توجہ شوکت تھانوی کے ناول سے ہوتی ایک لطیفے کی طرف مڑ جاتی ہے۔
بے اولاد بے چارہ، خاموش، اداس اور سونے گھر میں بچے کی قلقاریوں کو ترستا ہے اور مولوی صاحب نرینہ اولاد کی شرط لگا کردعا کے اثر کو پہلے ہی آدھا کر چکے ہیں۔ ایک شخص قرض، افلاس، غربت میں جکڑ گیا، بے بسی، بے چارگی کی تصویر۔ نجات کی کوئی صورت نہ رہی، تو دور کے گائوں میں ایک بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس بزرگ کے بارے میں مشہور تھا کہ ان کی دعا کبھی رد نہیں ہوتی۔ بزرگ کے سامنے زار و قطار رویا اور اپنی غربت اور بے بسی کی عرض گزاری۔ تب بزرگوں نے ہاتھ اٹھائے اور اللہ سے دعا کی کہ یااللہ اس طالب دعا کی بے کسی، بے بسی پر رحم فرما۔ اس کی ضرورتیں پوری کردے، یا اللہ اس کو وسیع رزق اور مال و دولت دے۔ یا اللہ اس کو حلال راستے سے رزق اور دولت دے۔ جب بزرگ نے حلال راستے سے وسیع رزق کی تکرار کی، تو طالب دعا بے ساختہ بول اٹھا، حضرت وسیع رزق کی دعا کیجئے، بار بار اس حلال کی اڑچن نہ لگائیں۔ اسی طرح مولوی صاحب بھی نرینہ کی اڑچن لگائے رکھتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ دن دور نہیں جب نہ صرف لفظ نرینہ کی اڑچن دور ہو گی بلکہ لوگ درگاہوں اور آستانوں پر بیٹی کے لیے منت مانتے اور دعا کرتے نظر آئیں گے۔
اسلام میں عورت کے حقوق اور مقام کا تعین ہونے کے بعد یورپ کی نشاۃ الثانیہ، عام تعلیم اور ووٹ کا حق ملنے کے بعد عورت کا کردار روز افزوں ہے، گزشتہ دو دہائیوں میں عورتوں نے ریاست اور حکومت کی سطح پر بھی مردوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا ثبوت دیا ہے۔
گزشتہ تیس چالیس برسوں سے پوری دنیا سیاسی قیادت کے بحران میں مبتلا نظر آتی ہے۔ مدتوں سے کوئی غیر معمولی رہنما نظر نہیں آیا مگر بعض ملکوں میں جہاں عورتوں کو سیاسی قیادت میسر آئی وہاں پر عورتوں کی قیادت نے اپنے ہم عصر مردوں کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زیادہ اچھے نتائج دیئے۔
جرمنی کی انجیلا مرکل، نیوزی لینڈ کی جیسنڈ آرڈن اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ ماضی قریب میں ہندوستان کی اندرا گاندھی، برطانیہ کی مارگریٹ تھیچر، بنگلہ دیش میں خالدہ ضیاء اور اب حسینہ واجد اپنے اپنے ملکوں میں زیادہ کامیاب حکمران ثابت ہوئی ہیں، ان ملکوں کی ترقی اور استحکام میں ان کی کامیابی نمایاں ہے۔ باقی دنیا میں جو ہوا یا ہورہا ہے، اس کے مقابلے میں ہمارے ہاں خواتین کی اٹھان اور کارگزاری دیگر معاشروں سے کہیں بہتر، ٹھوس اور تیز رفتار ہے۔
ایک عرصے سے کالج، یونیورسٹی، میڈیکل کالج اور پیشہ ور اداروں میں عورتوں کے لیے کوٹہ مقرر کیا گیا تاکہ ان کو بھی ان شعبوں میں کام کرنے کا موقع ملے کیونکہ وہ مقابلے میں پیچھے تھیں، اس لیے کوٹہ مقرر کر کے انہیں تحفظ دیا گیا مگر چند برسوں میں لڑکیوں نے اعلیٰ قابلیت، محنت اور ذہانت سے منزلیں ماریں۔ آج حالت یہ ہے کہ تعلیم اور مقابلے کے امتحانوں میں خواتین نے لڑکوں کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کالج، سکول، یونیورسٹیوں میں اساتذہ آسامیاں، بینکوں کے اعلیٰ عہدے، آئی ٹی کی مہارت کے بعد ملک کی انتظامی سروسز یعنی سی ایس ایس اور پی سی ایس میں بھی وہ تیزی سے منزلیں مار رہی ہیں۔ وزارت خارجہ میں وہ سیکرٹری کی سطح تک پہنچ گئیں۔ پولیس میں اے ایس پی، ایس پی سے ڈی آئی جی تک کے عہدوں پر موجود ہیں۔ اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنری کو عبور کر کے آج کمشنر اور سیکرٹری کی سطح تک آ چکی ہیں۔ ہر انتظامی شعبے میں ان کارکردگی بمقابلہ بہتر نظر آتی ہے۔
دفتروں، کالجوں، ہسپتالوں اور اعلیٰ عہدوں پر کام کرنے والی خواتین کے گھروں میں صفائی، نظم و ضبط، بچوں کی تعلیم اور تربیت کا معیار بھی گھریلو خواتین کی نسبت کہیں بہتر ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم یافتہ خواتین، یورپ اور دیگر ملکوں کی عورتوں کے مقابلے میں بہتر نظم و نسق، کارکردگی اور حسن اخلاق کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ کام کی رفتار، معیار اور کاکردگی کو سامنے رکھیں تو وہ دن دور نہیں جب والدین بیٹی کی خواہش میں منت مانتے اور دعائیں کرواتے نظر آئیں گے۔