Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Roos Ke Baad America (2)

Roos Ke Baad America (2)

وہ کہانی سب نے سن رکھی ہے کہ ایک پہاڑی ندی کے کنارے بکری کا بچہ پانی پی رہا تھا، اسی کنارے تھوڑے فاصلے پر پیاسا شیر بھی پیاس بجھانے آپہنچا، جب پی چکا تو اس کی نظر بکری کے بچے پر پڑی، بگڑکے بولا، او!بزغالہ (بکری کا بچہ) دیکھتے نہیں، میں پانی پی رہاہوں اور تم اسے گدلا کررہے ہو۔ بچے نے معصومیت سے جواب دیا، اے جنگل کے بادشاہ سلامت، پانی تو آپ کی طرف سے بہہ کر آرہا ہے تو میں اسے گدلا کیسے کرسکتا ہوں۔ شرمندہ ہونے کی بجائے شیر ڈانٹ کے بولا، پچھلے برس تم نے مجھے گالی کیوں دی تھی؟ بچہ بچارا ممیا کے کہنے لگا، حضور! پچھلے برس تو میں پیدا بھی نہیں ہوا تھا تو گالی کیسے دے سکتاتھا۔ شیر گرج کے بولا، گالی تم نے نہیں تو تمہاری ماں نے دی ہوگی۔ یہ کہا اور بے ضرر بچے کو چیر پھاڑ کے نگل کیا۔

روس اور امریکا دونوں سپر پاور چالیس برس کے وقفے سے افغانستان پر حملہ ہوئیں، دونوں کے پاس حملے کا کوئی جواز عذر یا بہانہ نہیں تھا، طاقت کے نشے میں ندی کے شیر کی طرح حملہ آور ہوگئے، دونوں حملہ آور شیر تھے مگر افغانستان بکری کا بچہ نہیں تھا۔ پھر وہ ہوا جو عقل مندوں کے لیے نشانی اور متکبروں کے لیے مقامِ عبرت ہے۔

پہلے روس پھر امریکا، ایک ہی طرح کے عزائم لے کر حملہ آور ہوکر یکساں انجام سے دوچار ہوئے مگر امریکا کا انجام زیادہ رسوا کن اور دیرپا اثرات کا حامل ہے، دونوں کی افغانستان میں گھس آنے کی وجہ کوئی وقتی اور ہنگامی سیاسی چال (Tactical Move) نہیں تھی بلکہ یہ طویل سوچ وبچار اور منصوبہ بندی کے بعد ترتیب دی گئی حکمت عملی (Strategical Level)کا حصہ تھی جس کا مقصد پوری دنیا کو زیر کرکے صدیوں کے لیے ان پر حکم چلانے اور ان کے وسائل لوٹ کر خود کو خوشحال اور دوسروں کو غلام بنائے رکھنا تھا، اب امریکا کا جانا پلٹ کر وار کرنے کی بجائے بھاگ نکلنے کے لیے ہے، پاکستان اور دیگر ہمسایوں سے افغانستان پر نظر رکھنے کے لیے ہوائی اڈوں کی درخواست دراصل رسواکن شکست کی خفت مٹانے کا بہانہ ہے ورنہ جب پورے کا پورا افغانستان، اس کی حکومت، وسائل اور ہوائی اڈے امریکا کے پاس تھے تو اس نے طالبان کا کیا بگاڑلیا تھا جو بھاگتے میں بگاڑلے گا۔ امریکا کی رسوائی اور شکست سے نہ رکنے والا مسلسل ردّ عمل ہوگا جس کے برے اثرات لامتناہی ہیں۔

امریکا کی تاریخ ابھی کل کی بات ہے لیکن افغانستان کا فسانہ کم از کم دس ہزار برس سے لکھا جارہا ہے، دونوں نے اپنی تاریخ دہرائی یہ کہ امریکا نے اپنے دولت، طاقت، ہتھیار اور ٹیکنالوجی کے باوجود کوئی جنگ نہیں جیتی اور افغانستان نے ہزاروں برس میں کسی حملہ آور سے شکست نہیں مانی، اس نے تہی دامن ہوتے ہوئے گرم اور جوان خون کے عوض دشمن کو دھول چٹائی۔

کیا کسی نے کبھی سوچا کہ حالیہ بیس برس میں امریکا کی جان پر کیا گزر گئی؟ سائنس کا اصول ہے کہ ایک ہی طرح کے تجربات سو دفعہ دہرائے جائے تو بھی نتیجہ ایک ہی ہوگا۔ امریکا کے لیے افغانستان میں برطانیہ عظمیٰ کی شکست کا نتیجہ سامنے تھا اور روس کا انجام بھی کھلی آنکھوں سے دیکھا مگر تکبر اور لالچ نے عقل کو اندھا کردیا، روس بھی امریکا کے مقابلے کی عالمی قوت تھا، اسلحہ کے انبار، افواج کی تعداد، ایٹم بم، جنگی طیارے، میزائل سسٹم امریکا سے بھی زیادہ تھے، افغانستان میں گھس کے ساری قوت وشوکت گنوا بیٹھا۔ صدیوں کی مسافت اور خون ریزی کے بعد ہمسایوں کی جو زمین، علاقے اور ریاستیں ہتھیالی تھی وہ بھی جاتی رہیں۔ بھوک ا ور افلاس نے آن لیا، کمیونزم کا نظریہ ہمیشہ کے لیے ہار گیا، امریکا واحد، اکیلی عالمی طاقت قرار پایا، پور ے کا پورا انسانی خطہ اس کی سیادت (اقتدارِ اعلیٰ)تسلیم کرنے پر مجبور تھا، دولت، طاقت، رعب، دبدبہ اور اقتدار مگر نیچ اور کمینے کو سرداری زیبانہیں، وہ کوئی گھٹیا حرکت ضرور کرے گا، افغانستان جو دس سالہ روسی جارحیت سے لہولہو تھا اس کے مقدس خون سے امریکا کی قسمت جاگی اور وہ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ اکیلی سپر پاور بن گیا، اس کی بادشاہت کو سزاوار تھا کہ ایسے جانباز بہادر کو موتیوں میں تولتا، اس کی قدر کرتا، اسے اپنے سر کا تاج بنائے رکھتا، اس کے زخموں پر مرہم رکھ کر اس کی جانبازی اور مہربانی کے عوض اس کے گھر بار کو بھردیتا، مگر وائے حسد اور کمینگی کے اس نے اکیلی عالمی قوت ہونا کافی نہ سمجھا، افغانستان کی بہادری اور جانبازی کے حسد میں مبتلا ہوکر زخم خوردہ افغانستان کو زیر کرنے نکل کھڑا ہوا کہ دنیا افغانستان کی دلیری کی تعریف کرنے کی بجائے امریکا کو عالمی طاقت ہی نہیں، سب سے بہادر جانبازوں کی سرزمین بھی مان لے، بد مست ہاتھی کو افغانستان کی چیونٹی پر چڑھ دوڑتا دیکھ کر پوری دنیا حیرت زدہ اور دم بخود تھی، چیونٹی کے انجام پر حیراں و ترساں مگر وہ بھول گئے کہ چیونٹی ہاتھی کی سونڈ میں گھس گئی تو ہاتھی پر کیا قیامت ڈھائے گی۔ امریکا کے ساتھ وہی ہوا جو مچھر نے نمرود کے ساتھ کیا تھا، جو سر پر جوتے کھاتے کھاتے مرگیا، روس کو دس برس میں مصروف پاکر امریکا اکیلی سپر پاور بنا، افغانستان کی دلدل میں یہ بھاری بھر کم ہاتھی بیس برس کے لیے پھنس گیا، فی الوقت یہ پھنسا نظر آتا ہے لیکن یہ اس دلدل میں دھنس چکا ہے، لمحہ بہ لمحہ، انچ بہ انچ اب جو اس دلدل سے نکلے گا وہ ہاتھی نہیں، اس کا لاشہ ہے، اگلے دنوں برسوں میں یہ لاش گل سڑ کر "بُو" دینے لگے گی، وہ تعفن پھیلے گا کہ دوست احباب، ہمسایے سب اس تعفن سے پناہ مانگتے ہوئے دور بھاگیں گے۔ گالی بکیں گے کہ خود تو ڈوبے تھے صنم، ہم کو بھی لے ڈوبے گے:

سوئے تھے گلوں کی چھاؤں میں، جاگے ہیں قفس کے گوشے میں

کب صحنِ چمن میں خاک اڑی، کب آئی خزاں معلوم نہیں

اسی سپر پاور کا اس قدر بھیانک اور جلد انجام کبھی نہیں ہوا اور یقینا اگلی صدیوں میں بھی کوئی نہ دیکھے گا، یہ بھی ہماری نسل کا مقدر تھا کہ وہ اپنی فانی زندگی کے صرف چالیس برس میں عالمی طاقتوں کا انجام اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ امریکا کا افغانستان سے خلا، اس کی آزادانہ مرضی سے ہے نہ رضاکارانہ، وہ عبرتناک شکست اور جنگ کے اخراجات کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل نہیں رہا، اس کی جان پر بن آئی ہے اور ہمارے لبرل، ترقی پسند، کمیونسٹ دہریے جو کبھی روس کی چاکری کرتے اس سے پہلے برطانیہ کے گُن گایا کرتے تھے، آج انہیں کے گھروں میں امریکا کے افغانستان سے نکلنے پر صف ماتم بچھی ہے، ماتم کی صفیں انڈیا اور اسرائیل میں بھی ہے، ہر ملک کے وطن فروش خریداروں کے کنگال ہونے پر ہراساں ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کا نتیجہ طویل خانہ جنگی کی صورت اختیار کرنے والا نہیں بلکہ جو افغانستان میں حکومت اور اقتدار کا اصل مستحق ہے وہ غدار وطن فروشوں کو جلد زیر کرلے گا، چالیس ملکوں کی فوج اور اقوام متحدہ کے گیدڑ پروانے کے باوجود جو کٹھ پتلی کابل کے صدارتی محل تک محدود تھی وہ سرپرستوں کی محرومی کے بعد کتنے دن نکال پائے گی یہ جاننے کے لیے بھاڑے کے دانشوروں کی دانش، کرائے کے تجزیہ کاروں اور تنخواہ دار تھینک ٹینک کے رپوٹوں کو پڑھے سنے بغیر ہرکوئی انجام سے واقف ہے۔