صہیونیوں کا اسرائیل مملکت ہے نہ ریاست، یہ عالمی طاقتوں کی پراکسی ہے یعنی پہلے برطانیہ اور اب امریکہ کے خفیہ مقاصد کے لئے کرایے کے غنڈے اور قاتل ہیں۔ روس اور برطانیہ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد زہر میں بجھے اس تیز دھار خنجر کو مسلمانوں کے سینے میں اتارنے کے لئے فلسطین میں لا بسایا۔ سازش اور محسن کشی ابتدائے دن سے ان کی جبلت میں شامل ہے، ان کی اپنی تاریخ اور قرآن کریم کی مستحکم گواہی اس کی روشن دلیل ہے۔ اسرائیل زہریلا خنجر ہے، بازوئے قاتل نہیں، یہ خطرناک مگر بے جان ہتھیار پہلے برطانیہ کے ہاتھ میں تھا، اب امریکہ کے زیر استعمال ہے۔ یہودی فطرتاً ذہین، محنتی ہونے کے باوجود کم ظرف، سازشی اور محسن کش واقع ہوئے ہیں، ہزاروں سینکڑوں سال گزرے مگر ان کی فطرت میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہوئی۔
ہمارے عظیم رہنما اور اللہ کے رسولؐ کی مستند حدیثِ مبارکہ کا مفہوم ہے کہ اگر کوئی کہے پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل گیا تو شاید یہ ممکن ہو مگر کوئی فرد، بشر اپنی فطرت سے ہٹ جائے یہ ممکن نہیں اردو ادب کی یہ تمثیل یقینا آپ نے سن رکھی ہو گی کہ کسی کشتی کے مسافر کے سامان میں چھپا بچھو دریا کے دوسری طرف پہنچ گیا، اب وہ دریا کے کنارے مظلومیت کی تصویر بنا واپس اپنے گھر اور خاندان کے پاس جانے کی تدبیر میں گم ہے، اس کنارے پر موجود رحم دل کھچوے نے دیکھا اور اسے دوسرے کنارے گھر تک چھوڑنے کی پیش کش کی، بچھو کچھوے کی پیٹھ پر سوار ہوا اور وہ احتیاط سے تریتا ہوا روانہ ہو گیا، ابھی تھوڑا سفر طے ہوا تھا کہ کچھوے کو ہلکی سی ٹِک آواز آئی اور ساتھ ہی کمر میں درد کی ٹیس اٹھی، بچھو نے اپنی فطرت سے مجبور ہو کر اپنے محسن کو ڈنگ دے مارا تھا، خوش قسمتی سے کچھوے کی کھوپڑی موٹی ہونے کی وجہ سے تھوڑا ڈنگ ہی جسم تک پہنچ سکا تھا، تھوڑی دیر بعد دوسری، پھر تیسری جگہ ویسا ہی درد اٹھا تو کھچوے نے بچھو سے کہا تم بار بار کیا کرتے ہو، جو میں ایسی تکلیف محسوس کرتا ہوں، جو پہلے کبھی نہیں ہوئی؟ تو بچھو نے جواب دیا، بھائی مجھے معاف کرنا، میں عادت سے مجبور آپ کو زہریلا ڈنگ مار دیتا ہوں، احسان فراموش کی بات سن کر کچھوا تھوڑا پانی میں اترا بچھو کو ڈبکی لگی تو بولا بھائی کچھوے آپ کیا کرتے ہو، میں پانی میں ڈوبا جاتا ہوں، کچھوے نے جواب دیا کہ میں بھی عادت سے مجبور ہو گیا ڈبکی لگانا میری فطرت ہے اور بچھو کا انجام بخیر ہوا۔
بچھو فطرت سے یہودی ہر محسن کو ڈنگ مارنے اور ایذا دینے میں ہمیشہ آمادہ اور تیار تھے اور اب بھی ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ ان کی دشمنی خاص قابل ذکر نہیں۔ ابتدائے اسلام میں مدینہ کی چھوٹی سی بستی میں، ان کے چھوٹے چھوٹے قبائل نے بدعہدی کی اور دوردراز دشمنوں کو ترغیب دے کر مسلمانوں کو ختم کرنے بار بار سازش اور کوشش کے بعد سزا پائی اور زیادہ تو ملک بدر ہوئے۔ باقی ساری صدیاں اور تاریخ یہودیوں کی عیسائیوں کے خلاف سازش کرنے او سزا پانے کی تاریخ ہے۔ مسلمانوں کا ان سے کچھ لینا، دینا نہیں سوائے اس کے جب عیسائیت مغربی دنیا میں غالب ہو گئی اور انہوں نے یہودیوں کی چالاکیوں، سازشوں اور فطرت بد سے تنگ آ کر اپنی تلوار کی دھار پر رکھا، ان کا قتل عام کیا تو مسلم ریاستوں اور بادشاہوں نے انہیں فنا کے گھاٹ اترنے سے بچایا اور اپنے ہاں پناہ دی۔
حضرت عیسیٰؑ الگ شریعت یا مذہب کے لئے مبعوث نہیں ہوئے تھے، وہ یہودیوں کے پیغمبر تھے۔ مذہبی کتابوں میں تحریف اور ماننے والے یہودیوں کو غلط کاریوں سے روکنے اور ان کی اصلاح غرض سے آئے تھے وہ بھی ان کی سازش اور ظلم و جبر کا شکار ہو گئے۔ انہیں بے گناہ اور بے سبب سولی پر چڑھانے کی کوشش ہوئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ روم کے بادشاہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کی پیروی اختیار کی چنانچہ عیسائیت تیزی سے پھیلنے والی تہذیب اور طاقتور مذہب کی صورت میں نمودار ہوئی۔
عیسائیت اختیار کرنے والے بادشاہ حضرت عیسیٰؑ کے ساتھ یہودیوں کے ناروا سلوک اور توہین آمیز رویے کو بھولے نہ تھے۔ پھر بھی ان کی فریب کاریوں کا سلسلہ رکنے میں نہیں آیا تو مجبور ہو کر انہیں سزائیں دی گئیں۔ قتل عام کیا گیا، یہ دربدر، پراگندہ اور رسوا ہوئے۔ عیسائیت جوں جوں طاقتور ہوئی یہودیوں کی سازش اور عیسائیوں کا جبر بڑھتا گیا۔ ان کا پہلا قتل عام پہلی صدی عیسوی کی چھٹی دہائی میں ہوا پھر ہر صدی میں کم از کم ایک بار انہیں مقتل گاہ سے گزارہ گیا مگر ان کی زہریلی فطرت کسی طرح تبدیل نہ ہو سکی۔ ان کا پہلا قتل عام پہلی صدی اور آخری گزشتہ صدی میں جنگ عظیم کے دوران ہٹلر کے ہاتھوں انجام پایا۔ ہٹلر کے ہاتھوں یہودی ساٹھ لاکھ کی تعداد کے مقتولین کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن غیر جانبدار مبصرین چھ لاکھ تعداد بتاتے ہیں۔ اس زمانے میں پورے یورپ(مشرقی، مغربی) میں ان کی تعداد 90لاکھ تھی۔ نوے لاکھ میں ساٹھ کا قتل یقینا بڑے مبالغے کی بات ہے، پھر یہ ایک خوفناک اور دل دہلا دینے والا قتل عام تھا۔ جس نے عالمی ضمیر کو یہودیوں کے لیے جھنجھوڑ کے رکھ دیا۔
تاریخ سنا رہی ہے کہ صدی عیسوی میں یہودیوں کو اپنی بداعمالیوں کے سبب کم از کم ایک دفعہ قتل عام سے گزرنا پڑا ہے۔ ان کا آخری قتل عام تقریباً 85(پچاسی) سال پہلے ہوا۔ آثار کہتے ہیں نئی صدی کا قتل عام پہلا واقعہ ہو گا جو یہودیوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں سہنا پڑے گا۔ یہ ہر قتل عام سے زیادہ خوفناک ہو گا۔ اس لئے کہ اسرائیل کے گرد امریکہ منافق قسم کے مسلم نما حکمرانوں کا حصار قائم کر رکھا جو کرائے کے ان قاتلوں کی اصل پناہ گاہ بن گیا۔ اس حصار پر عنقریب عربوں کے مشتعل نوجوانوں کا قبضہ ہونے والا ہے، جو اسرائیل کے ہاتھوں خون بہنے اور ستائے جانے کے بعد منافقوں کے ان قلعوں پر دھاوا بولنے والے ہیں، انیں ایران کے بعد ترکی کی حمایت اور اعانت حاصل ہونے والی ہے۔ حماس اور حزب اللہ کی قربت خطے میں سنی، شیعہ تقسیم اور رقابت کو ختم کرتی نظر آتی ہے۔ اسرائیلی یہودیوں کے ساتھ ہم مسلمانوں کی تاریخی دشمنی ہے نہ تہذیبی، یہ ہوشیار یہودی اتنے سادہ ہیں کہ صدیوں تک جن کے ظلم و جبر کا نشانہ بنتے رہے انہی کے ہاتھوں کٹھ پتلی بن کر اپنے محسنوں کے خلاف کرایے کے قاتل بننا قبول کیا۔ پہلے ایک سپر پاور برطانیہ کی پراکسی بن کر فلسطین کے مسلمانوں کا خون بہایا اب دوسری سپر پاور امریکہ کا خفیہ ہتھیار اور کرایے کے قاتل کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ یہ بے چارے اسی طرح کی پراکسی ہیں، جس طرح ببرک کارمل، حفیظ اللہ امین، نور محمد ترکئی اور ڈاکٹر نجیب اللہ بظاہر افغانستان کے حکمران دراصل روس کی کٹھ پتلی اور پراکسی تھے۔ افغانستان سے بھاگتے ہوئے روس کو یہ بھی یاد نہ تھا کہ وہ اپنے پالتو غنڈے اور افغانوں کے قاتل "نجیب" کو بھی ساتھ لے جاتا، اس کا انجام سب کو معلوم ہے، اگلے چند ہفتوں میں یہی کچھ اشرف غنی کے ساتھ ہونے والا ہے۔ تو کیا اسرائیل کا انجام ان افغان حکمرانوں سے کچھ جدا ہو سکتا ہے؟
برطانیہ اور پورا یورپ اسرائیل سے فاصلہ پیدا کرنے لگا، ان کے شہری جوق در جوق اسرائیل کی مذمت کے لئے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ امریکہ کی سڑکوں پر ہونے والا احتجاج اور امریکی یہودیوں میں فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی حمایت آنے والے دنوں کی پہلی خبر ہے جو فلسطینیوں کے بہارِ آزادی کی آمد کا پتہ دیتی ہے۔ یورپ کے بعد امریکہ جس تیزی سے عالمی منظر سے پیچھے ہٹ رہا ہے، اس کی طاقت، ٹیکنالوجی اور حربی صلاحیت کا پول افغانستان کے طالبان نے کھولا ہے، اس نے مسلمان نوجوانوں کو فلسطین میں بھی آزادی کی راہ سجھائی ہے۔ یہ اس بات کا پتہ دیتی ہے آئندہ عشرے میں امریکہ کی پسپائی مکمل ہونے کے بعد اسرائیل اور بھارت انجام کو پہنچنے والے ہیں۔ ایران کے بعد ترکی اور پاکستان مشرق وسطیٰ میں قدم بڑھا رہے۔ چین اور روس مشرق وسطیٰ امریکہ کی جگہ لینے کو بیتاب ہیں۔ گزشتہ عشرے میں لبنان کی حزب اللہ ایران کی معاونت کے باوجود خالی ہاتھ ہوتے ہوئے اسرائیل کے دانت کٹھے کئے، اسرائیل کی حالیہ اشتعال انگیزی میں نہتی "حماس" میدان میں اتری اس سے واضح ہو گیا ہے کہ فلسطینیوں کو شہر اور گھر خالی کروانے کے لئے باہر سے فوجوں کے آنے کا انتظار نہیں، انہیں ہلکے ہتھیاروں کی ضرورت ہے۔ کسی ہمسایہ عرب ملک سے بس اتنا سہارا چاہیے کہ ان کے بچوں اور عورتوں کے لئے عارضی خیمہ بستی بسا دیں تاکہ نوجوان ان کی فکر سے آزاد ہو کر دل جمی سے دشمن کا سامنا کریں۔
وہ دوسرے ملکوں سے اتنی مدد بھی نہیں چاہتے، جتنی پاکستان نے روسی حملے کے وقت افغانستان کو دی تھی۔ ان کا مطالبہ اپنے مسلم بھائیوں سے بس اتنا ہے کہ وہ فلسطینی مجاہدین اور حریت پسندوں کی تنی سی مدد کر دیں جتنی کہ پاکستان نے امریکہ کے افغانستان پر حملے کے بعد چوری چھپے طالبان جنگجوئوں کے خاندانوں سے کی۔ یقینا اگلی دہائی اسرائیلی یہودیوں کے انجام کا زمانہ ہے۔