سجاد حیدر کا دم غنیمت ہے، تحریکِ انصاف ضلع فیصل آباد کے دائمی صدر اور سدا بہار شخصیت کے ساتھ کہ ان کی صدارت کو کبھی زوال آیا، نہ ان کی بہار نے خزاں جھیلی، سجاد حیدر کی وجہ سے پرانے دوستوں کی خوشی، غم کی خبریں بروقت مل جاتی ہیں اور بعض بھولے وعدے بھی بروقت یاد دلایا کرتے ہیں، اس لیے کئی موقعوں پر وعدہ خلافی سے بچ نکلے، گذشتہ اتوار ان کا فون آیا، یہی کوئی سہ پہر چار بجے، پوچھا آپ گھر پر ہیں؟ ہاں، گھر پہ ہوں۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ جانے کے لیے ہم آپ کو لینے آرہے ہیں، پروگرام 6بجے شروع ہوگا، چوہدری عرفان نے کہا تھا آپ کو بھی ہمراہ لیتے آئیں، اوہ! میں تو بھول چکا تھا، ہم یاد دہانی کے ساتھ آپ کے پاس پہنچ رہے ہیں، ہم کون؟ ایک میاں عباس، دوسرے بھی پرانے ورکر ہیں، آپ انہیں پہچان لیں گے۔
اس مختصر مکالمے کے چند منٹ بعد ہم چاروں براستہ کہیے یا بذریعہ موٹروے ٹوبہ ٹیک سنگھ کے لیے روانہ تھے۔ گاڑی موٹروے میں داخل ہوتے ہی سجاد حیدر نے کہا، کل چوہدری ظفراقبال کے گھر ان سے ملاقات کے لیے گیا تھا، بہت دیر آپ کا ذکر رہا، ان کی طبیعت خراب ہے، بہت کمزور دکھائی دیتے ہیں، سانس لینے میں بھی دشواری ہے۔ ظفر اقبال ان معدودے چند لوگوں میں ہیں جن سے باتیں کرنے کو جی چاہے، وہ حاضر نہ ہوں تو بھی ان کی باتیں کرنا محفل کو خوش تر بنادیتا ہے، ظفر اقبال سے اولین ملاقات گورنمنٹ کالج لائل پور 1968ء میں ہوئی، میٹرک کے بعد کالج آئے تو ظفر اقبال بھی ہمارے ہم جماعت ہوئے، ہمیں نئی لوگوں کے سامنے دیر سے بلکہ آہستہ آہستہ اور بہت دیر سے کھلنے کی عادت ہے، ظفر اقبال کو بند ہونٹوں کے تالے کھولنے کا ایسا ہنر تھا کہ کوئی تالہ زیادہ دیر ان کے سامنے کھلے بنا رہ نہیں سکتا، چنانچہ بے تکلفی کے ساتھ دوستی شروع ہوگئی مگر ہماری بے تکلفی نے کبھی احترام کی حد عبور نہ کی۔
ظفر اقبال کی بات ہو یا ظفر اقبال سے بات ہو تو جاوید نمبردار اور "ہرمویاں "کے چوہدری عبدالستار کا ذکر لازم ہے۔ ظفر اقبال اور جاوید نمبردار ایک گاؤں کے تھے، تقریباً ہم عمر اور بچپن کے دوست، چوہدری عبدالستار کا تعلق ان کے ملحقہ گاؤں "ہرمویاں " سے تھا، یہ تینوں جاٹ برادری سے متعلق ایک ہی یونین کونسل میں رہنے والے، سکولوں سے کالج، کالج سے یونیورسٹی اور عملی زندگی کے ہنگاموں میں بھی ایک دوسرے کی دوستی کے رشتوں میں پروئے رہے، یہ تینوں آپس میں کبھی الجھ پڑتے مگر راقم السطور کے ساتھ تینوں کی محبت، تعلق اور گرمجوشی میں کبھی فرق آیا، نہ وقفہ ہوا۔
کالج کے زمانے کی خوشگوار، مسکراتی قہقہوں سے گونجتی یادوں کے ذکر کے ساتھ بات عملی سیاست کی طرف مڑ گئی، حاجی نذر ان دوستوں کی یونین کونسل کے مقبول، محترم اور مستقل ضلع کونسل کے ممبر منتخب چلے آئے تھے، ان کے مقابلے کی تاب کسی کو نہ تھی، ہر گاؤں اور برادری کے بزرگ حاجی نذر کے دیوانے، ایسے میں جواں سال عبدالستار کو جانے کیا سوجھی کہ ان کے مقابلے میں انتخاب لڑنے کا اعلان کردیا، ان کے اپنے گاؤں "ہرمویاں " میں ان کے تایا جی بھی حاجی نذر کے ساتھ تھے، ہرمویاں اور پھلاہی دونوں بڑے گاؤں ہیں، پھلاہی کے ووٹوں کے بغیر کامیابی ناممکن او رپھلاہی کا ووٹ جاوید نمبردار کے پاس، اسی گاؤں کے ہمارے اور ان کے مشترک دوست ظفر اقبال بھی انتخابی معرکے میں اترنے کو تیار۔ اس موڑ پر دوستیوں کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔
وہ دور اور ایسی دوستی جس کے بارے میں "کھڑی شریف" میں آسودہ ولی ٔ کامل اور ابدی شہرت کی "سیف الملوک "کے مصنف میاں محمد بخش نے فرمایا:
یار ی دا انگ پالن اوکھا تند سوتر دی کچی
اک چھکے تے دوجا چھڈے تاں گل رہندی پکی
نمبردار جاوید خوش طبع، خوش مزاج، دوستی دشمنی میں کھرے مگر کچھ زود رنج بھی تھے، جلد روٹھنا اور پھر جلدی سے مان جانا، ستار اور جاوید کی یاری کا پالن چوہدری ستار کی ذمہ داری ٹھہرا کہ ان کا مزاج دھیما اور مستقل تھا چنانچہ نمبردار کھینچتے رہتے اور چوہدری ستار سوتر کو اس سے زیادہ رفتار میں ڈھیلا چھوڑتے چلے جاتے، پھر جلد ہی نمبردار سب چھوڑ چھاڑ اس دنیا سے منہ موڑ گئے، سب افسردہ اور غمگین رہے۔
ہاں! تو سجاد حیدر صاحب، آپ نے تلسی کا شعر سنا؟ جھٹ سے میاں عباس نے لقمہ دیا جی ہاں جی ہاں، تلسی داس۔ ہاں، وہی تلسی داس، اس نے کہا ہے:
تلسی بانہہ اصیل دی بھولے سے چھو جائے
آپ نبھائے عمر بھر، بچوں سے کہہ جائے
ہاں، ان تینوں کی دوستی جو راقم کی ایماء پر نئے دور میں داخل ہوئی تھی، زندگی بھر کے لیے اٹوٹ ہوگئی، بقول تلسی، اصیل نے دوسرے اصیل کی بانہہ کبھی نہ چھوڑی اور جاتے ہوئے بچوں کے کان میں کیا پھونکا کہ دونوں دوست یکے بعد دیگرے رخصت ہوگئے کبھی پلٹ کے نہ آنے کو، مگر چوہدری ستار کا فرزند صباح ستار اور جاوید نمبردار کا بیٹا عثمان جاوید کی دوستی اپنی مثال آپ ہے، صباح ستار اپنے باپ کی جگہ اس یونین کونسل کا ناظم اور جاوید کا بیٹا اپنے باپ کی طرح غیر مشروط مددگار۔
ظفر اقبال خود حاجی نذر اور چوہدری ستار کے مقابلے میں آپ امیدوار تھے، ان کی امیدواری جاوید نمبردار کے لیے دوہری مصیبت کہ دونوں کی دوستی بچپن سے چلی آئی، پرانی دوستی اور ہمسائیگی ? جائے رفتن، نہ پائے ماندن۔ ظفر اقبال دلائل میں پختہ اور طرز عمل میں ایسے کہ کہیں سے ہاتھ ڈالو وہ آسانی سے پھسل جائیں، شاید سمندر کی مچھلی میں بھی ایسی پھسلن نہ ہوگی۔ وہ صاف انکار نہیں کرتے تھے۔ اور چوہدری ستار کے خلاف دلائل کے انبار، ان کے دلائل سچائی نہ ہو تو بھی زورِ بیاں ایسا کہ آسانی سے نظر انداز نہ ہوں۔ طویل ردّ وکد کے بعد بالآ خر مان گئے، امیدواری سے دستبردار ہوئے اور چوہدری ستار کی حمایت میں سرگرم، ناقابل شکست حاجی نذر کو پہلی دفعہ ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور وہ ہمیشہ کے لیے میدان چھوڑ گئے۔ منگل کی دوپہر سجاد حیدر نے فون پر کہا، رات ملک شمس کے ہمراہ ظفراقبال کی مزاج پرسی کے لیے پھر گیا تھا، انہیں بتایا کہ آپ بھی ان سے ملنے کو آنا چاہتے ہیں، بہت خوش ہوئے مگر زیادہ بول نہیں سکے۔ عرض کیا، ٹھیک ہے، کل انہیں ملنے جائیں گے مگر وہ کل آئی تو ظفر اقبال نہیں تھے۔
مبارک مسجد کے صحن میں دودھیا سفید کفن میں لپٹا ظفراقبال چہرے سے کفن سرکایا وہیں تروتازہ ظفر اقبال مگر خاموش۔ تین میں تیسرا بھی دونوں کی رفاقت کے لیے بے تاب چلا گیا، مسجد کے ہال کے میں داخل ہوا تو سامنے امتیاز گورایہ کھڑے تھے، ناممکن گورایہ ہوں، ظفر اقبال نہ ہوں، وہ ایک دوسرے کے لیے لازم تھے?آج گورایہ مسجد کے ہال میں تنہا کھڑے تھے، باہر دیوار کی دوسری طرف ظفراقبال کفن اوڑھے خاموش۔ گورایہ سے مخاطب ہوکر کہا، آپ کی محفل سونی ہوگئی؟ نہیں نہیں، سونی نہیں، ختم ہوگئی، ختم ہوگئی، ہمیشہ کے لیے، ہم دونوں کو زیادہ دیر مخاطب رہنے کی تاب نہ تھی۔