قوم پرست سیاست دان، فوجی ماہرین، دفاعی تجزیہ کار، اخبارات کے کالم نویس، ٹیلی ویژن کے میزبان، جنگ میں فتح یابی کے لئے تین چیزوں کا بکثرت حوالہ دیتے ہیں۔ ایک معاشی خوشحالی جس میں جنگ جاری رکھنے کی سکت ہو۔ دوسرے فوج کی تعداد اور تربیت۔ تیسرے اسلحہ کی مقدار اور جدت۔ ان نام نہاد ماہرین کے تبصروں میں جنگ کی حکمت عملی میدان میں لڑنے والے جوانوں کے عزم اور قوم کے اٹل ارادوں کا کوئی ذکر ہے نہ تاریخ کا مستند حوالہ۔
دیو مالائی داستانوں، عقیدت مندوں کی مبالغہ آمیزیوں سے جدید تاریخ کے تحقیق شدہ حقائق تک کوئی ایک مثال یا گواہی پیش کی جا سکتی ہے، جس میں خوشحال قوم کی بڑی فوج نے جنگی آلات اور ہتھیاروں کی کثرت کے سبب حملہ آور پر فتح پائی ہو؟
تاریخ کا جدید دورانیہ چار ہزار سال سے زیادہ نہیں، اس سے پہلے جو کچھ گزرا، اس کا کوئی دستاویزی ثبوت ہے نہ قابل اعتماد گواہی۔ سکندر اعظم ہنی بال یا ان سے پہلے آریائوں کی مشرق اور مغرب کی جانب نقل مکانی اور تباہ کن یلغار۔ عربوں کا ابھار، صلیبی جنگوں کی فتح یابیاں، روم اور ایران جیسی سپر پاورز کا خاتمہ، چنگیز خاں کی قیادت میں اٹھنے والا طوفان، ترک قبیلوں کی حکومتیں، ہندوستان پر چغتائیوں، مغلوں، پٹھانوں، غزنوی، غوری اور ان سے پہلے محمد بن قاسم کی قیادت میں مسلمان عربوں کے حملے، آخری زمانے میں پرتگیزی، ولندیزی، فرانسیسی اور انگریزی افواج کی نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر میں فتح مندیاں ان میں کوئی ایک صرف ایک گواہی یا مثال پیش کی جا سکتی ہے، خوش حال معیشت بڑی فوج اور زیادہ اسلحہ نے حملہ آوروں کو شکست دے کر ہمیشہ کے لئے یا قابل ذکر مدت تک خود کو محفوظ کر لیا ہو؟ حتیٰ کہ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے ویت نام پر امریکہ کی جارحیت، افغانستان کے متفرق عوام کے ہاتھوں روس کا بکھر جانا، عراق سے امریکہ کی پسپائی اور پھر سے افغانوں کے ہاتھوں امریکہ کی قیادت میں پوری دنیا کے جدید ہتھیاروں فوجوں اور ڈالروں کے باوجود بھاگ نکلنے کی راہ مانگنے کی رسوائی کا مشاہدہ کیا۔
بھارت ہمیشہ سے وسیع و عریض حکومتوں کی خوشحال سرزمین ہوا کرتا تھا، دنیا بھر کی تیس (30) فیصد معیشت کا انحصار اس خطے پر ہوا کرتا تھا، دریائوں کی روانی زراعت کی کثرت اور مویشیوں کی افزائش مصالحہ جات کی پیداوار کے سبب حکمرانوں کے خزانے سونے چاندی جواہرات سے بھرے رہتے۔ برصغیر کی بدحالی غربت اور فاقہ کشی کا زمانہ یورپی اقوام کے قبضے اور لوٹ مار کے بعد شروع ہوا۔
ایک کالم میں ہم پوری دنیا اور بے شمار اقوام اور ادوار کا احاطہ تو نہیں کر سکتے مگرہندوستان اور اس کے گردو نواح کا مختصر جائزہ ضرور لیا جا سکتا ہے۔
سکندر مقدونی کسی بڑی ریاست یا خوشحال سلطنت کا حکمران نہیں تھا، یہ زیادہ سے زیادہ ہمارے کسی درمیانہ شہر یا بڑے قصبے کے برابر رہا ہو گا، اس زمانے میں یورپ قابل ذکر تھا ہی نہیں، مشرق کی خوشحالی ایران کا جاہ و جلال، طلوع آفتاب کی سرزمینوں کی پراسرار دولت و ثروت کا حال سن کر نکل کھڑا ہوا، ایران اکلوتا عالمی طاقت سپر پاور تھا۔ سکندر اعظم کی مُنی سی فوج کے سامنے ڈھیر ہو گیا، ہندوستان کا جلیل القدر جاہ و جلال والا راجہ لاکھوں کی فوج اور سینکڑوں ہاتھیوں کے ساتھ مقابلے پر آیا تو اس کا انجام کیا ہوا؟ پورس کے قوت و جبروت اور بہادری کی داستان میں بس یہ رہ گیا کہ جب وہ قید ہو کر سکندر کے حضور پیش کیا گیا، تو سکندر کے پوچھنے پر اس نے کہا "میرے ساتھ وہی سلوک کرو جوبادشاہ، بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں " اسے آپ پورس کا حسن طلب کہیے یا بہادری کا نشان؟ سکندر کی سپاہ تعداد میں پورس کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ دس فیصد رہی ہو گی۔ سکندر کے گھوڑے کے مقابلے میں ہاتھی کھڑے تھے مگر انجام کیا ہوا؟ فتح مند کون تھا؟ سکندر کے بعد دو ہزار برس تک بے شمار تہذیبیں ریاستیں سلطنتیں نمودار ہو کر غروب ہوتی رہیں اب عربوں کا دور شروع ہوا، ایران اور روم کی ہیبت اثر عالمی طاقتیں مٹھی بھر خانہ بدوشوں کے ہاتھوں زیر و زبر ہوئیں، کیا روم اور ایران کے مقابلے جنگوں میں کوئی ایک جنگ کی مثال دی جا سکتی ہے، جس میں مسلمان عرب مقابلے کی فوج تعداد کے برابر رہے ہوں؟
نوجوان محمد بن قاسم ہندوستان میں داخل ہوا، دس بارہ ہزار پیدل اور گھڑ سوار فوج کے ساتھ مقابلے میں راجہ داہر لاکھوں کے لشکر کے ساتھ نمودار ہو مگر میدان ابن قاسم کے حصے میں آیا، لاکھوں کے لشکر چند ہزار اجنبیوں نے روند ڈالا۔ داہر دولت مند تھا، بہادر اور طاقتور بھی، فوج کی تعداد اسلحہ کی مقدار کہیں زیادہ مگر نتیجہ کیا رہا؟ یہی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد اور غلبے کی بنیاد رکھ دی گئی اس کے بعد محمود غزنوی، غوری، محلوک، پٹھان وسیع عریض ہندوستان کی انگننت افواج کو شکست دے کر حکمرانی کرتے رہے۔ آخر میں فرغانہ کا چھوٹا سا حکمران بابر، اپنے رشتہ داروں کے ہاتھوں ستایا اور شکست کھایا ہوا کابل میں دس بارہ ہزار مغلوں اور افغانوں کو لے کر قسمت آزمائی کے ہندوستان چلا آیا۔ اس کے مقابلے میں بھی مسلمان حکمران ابراہیم لودھی تھا۔ اس کی فوج کی تعداد بھی بابر سے دس گنا سے بھی زیادہ تھی، گھوڑوں کے مقابل ہاتھی مگر ابراہیم لودھی کثرت اسلحہ و افواج کے باوجود شکست کو ٹال نہیں سکا، اس کے بعد ہندو سورما رانا مانگا بھی اپنی افواج قاہرہ کے ساتھ بھاگ نکلا، چار برس کی حکمرانی کے بعد ولندیزی، پرتگیزی ان کے عقب میں فرانسیسی اور آخر میں انگریز تاجر آئے، ان مٹھی بھر تاجروں نے بنگال سے اپنی فتوحات کا آغاز کیا۔ 1757ء سے 1857ء تک سو برس میں پورے ہندوستان پر قابض ہو گئے، انگریزوں کا مکرو فریب کہیے یا ہندوستانیوں کا انتشار و افتراق مگر میدان جنگ میں انگریزوں کی تعداد ہندوستانی حکمرانوں کے مقابل مٹھی بھر ہوا کرتی تھی، ایک سو برس چند ہزار عیسائی انگریز، کروڑوں مسلمانوں اور ہندوئوں پر بلا خوف و خطر حکمرانی کرتے رہے۔ چنگیز خاں کی قیادت میں وحشی خانہ بدوشوں عباسی خلافت روسی قیادت عربستان، وسط ایشیا کی ساری حکومتوں اور ریاستوں کو زیر و زبر کر دیا۔ چنگیز خاں کے وارث اکیلا قبلائی خاں پورے چین پر قابض ہو گیا۔ اوپر کی داستان مٹھی بھر حملہ آوروں کی دفاع کرنے والی بے پناہ بے شمار فوج پر غلبے کی کہانی ہے۔
ہماری مختصر زندگی میں گزشتہ چالیس برس کی تاریخ، دفاع کی بجائے حملہ آوروں کی عبرت نشان کہانی بلکہ فلم دکھاتی ہے۔
روس کی افغانستان پر قبضے، چڑھائی اور اس کا انجام، سب نے ہوش و حواس کے ساتھ دیکھا روس اسلحہ کے اعتبار سے پوری دنیا یں غالب ریاست خیال کیا جاتا تھا، افغانستان کی حکومت اور افواج بھی حملہ آور روس کے مددگار تھے مگر حصوں میں بٹے ہوئے چند ہزار مجاہدین نے اس عظیم الشان پر ہیبت عالمی طاقت کو دھول چٹا دی، یورپ اور امریکہ اس غلطی کا شکار ہوئے کہ ان کی مدد اور تھوڑا سا اسلحہ دراصل اس فتح کا سبب بنا۔ چنانچہ اس خوش فہمی کے ساتھ یورپی دنیا کے تعاون جدید بری، ہوائی بحری قوت اور ٹیکنالوجی کے ساتھ افغانستان اور عراق پر حملہ آور ہو گیا۔ افغان جنگ جوئوں کی بڑی تعداد بھی ان کے ہمراہ تھی، روس چین اور افغانستان کا کوئی ہمسایہ افغان طالبان کا مددگار نہیں ہوا۔ غیر منظم، جدید ہتھیاروں سے ناآشنا طالبان جنگجو۔ بیس سال تک اقبال کا ممولا شہباز سے لڑتا رہا اور مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی، کے نظریے نے حقیقت کا روپ دکھایا۔