اب جبکہ ہمارے کراچی میں تحریک ِ انصاف کے بانیان میں سے ایک اور ہمارے وزیر اعظم عمران خان کے معتمد ِ خاص جو اسی سبب صدرِ مملکت کے عہدۂ جلیلہ پر پہنچے، ڈاکٹر عارف علوی بھی میڈیاکے سامنے یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ اُن کی حکومت میں کرپشن پھل پھول رہی ہے، اور وہ اُسے روکنے میں ناکام ہوگئی ہے تو مجھے اس وقت ماضی کے وہ تمام پاکستان کے صدور یا د آرہے ہیں جنہیں 1973ء کے آئین کے تحت بظاہر ایک ڈمی سربراہ ِ مملکت کا درجہ دے دیا گیا تھا۔ مگر یہ بھی تاریخ کا المیہ ہے کہ یہی صدور جواپنے وزرائے اعظم کے سامنے "ہاتھ باندھے "کھڑے ہوتے تھے، بعد کے برسوں میں اِ ن ہی طاقت ور وزرائے اعظم کو گھر بھیجنے پر مہر ثبت کرنے کے مرتکب ہوئے۔
بات تو میں محترم چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی اُس چارج شیٹ سے شروع کرنا چاہتا تھا جو منگل کی صبح اخباروں کی شہ سرخی بنی، اور اسکرینوں کی بریکنگ نیوز۔۔۔ لیکن اسے ذرا آگے کے لئے اٹھائے رکھتا ہوں۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ماضی میں کرپشن کے حوالے سے جو چیف جسٹس اپنے بیانات دیا کرتے تھے، وہ ہی ہمارے صدور بھی اس تقریر کا متن بناتے تھے، جس سے وہ اپنے ہی وزیر اعظم کو برطرفی کا حکم صادر فرمایا کرتے تھے۔ چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد اگر اس بات سے بھی آگاہ ہوں کہ کراچی کی ایک نواحی بستی لائنز ایریا میں لوگ راشن نہ ملنے پر ہنگامہ کررہے ہیں، جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں کتنے معتبر ذرائع اور اداروں سے یہ خبر پہنچ رہی ہے۔ چیف جسٹس گلزار احمد کا یہ دو ٹوک بیان کوئی معمولی بات نہیں کہ وزیر اعظم کے مشیر خاص برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا پوری قوم کو بیوقوف بنا رہے ہیں، اور انہیں ان کے عہدے سے ہٹا دینا چاہئے ورنہ وہ خود ہٹانے پر مجبور ہوجائیں گے۔ دراصل یہ پیغام ہے منتخب وزیر اعظم محترم عمران خان کے لئے۔۔۔ بہت ہی محتاط الفاظ استعمال کروں گا کہ کورونا وائرس کے سبب یہ بڑا نازک وقت ہے۔ مگر جب وطن ِ عزیز کا چیف جسٹس ہی اتنے دوٹوک الفاظ میں حکومت کی نا اہلی اور کرپشن پر اتنی تفصیل سے ریمارکس دینے لگے تو اس سے صاف لگتا ہے کہ اسلام آباد میں سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔
ہماری سیاست میں 70ء کی دہائی سے ایک سیاسی اصطلاح "ٹرائیکا " چل رہی ہے۔ یعنی فوج، عدالت اور حکومت۔ جب اس ٹرائیکا میں تین میں سے دو ایک طرف ہوتے دکھائے دیں تو پھر یہ افواہیں خبر بن کر اڑتی ہیں کہ کہیں حکومت کو گھر بھیجنے کی تیاری تو شروع نہیں ہوگئی۔۔۔ سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو، سابق وزرائے اعظم میاں نواز شریف، اوربے نظیر بھٹو اور پھر ہاں، طاقتور فوجی جنرل، جنرل پرویز مشرف بھی اسی طرح رخصت ہوتے دیکھے۔
ہاں، ہمار ے محترم میاں نواز شریف نے اپنے تیسرے دور میں یہ کوشش کی تھی کہ ماضی کے تجربے کو دیکھتے ہوئے "ساڈا جج، تے ساڈا صدر "کے ساتھ "ساڈا جنرل" بھی ہوجائے۔ یہ ایسا ہی تھا کہ جیسے ایٹم بم کو لات مار دی جائے۔ میاں صاحب کا، معذرت کے ساتھ، جو حشر نشرہوا، وہ ہمارے سامنے ہے۔ اپنی ہی حکومت میں ذلت و رسوائی سے وزارت ِ عظمیٰ سے نکالے گئے اور اب سال بھر سے وطن سے ہزاروں میل دور لندن میں ڈاکٹروں کے رحم و کرم پر ہیں۔
یہ لیجئے، یہ جو میں اپنے بھٹکنے کی بات کررہا ہوں، تو صدر ِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کو تو پیچھے ہی چھوڑ آیا۔ گزشتہ ہفتے، محترم صدر ِ مملکت کا جب یہ بیان پڑھا تو پہلے خیال یہ آیا کہ یا تو misreporting ہوئی ہے، یا پھر کسی کی شرارت۔۔۔ تیز رفتار میڈیا میں عام طور پر اتنی بڑی خبر کی منٹوں، سیکنڈوں میں تردید آجاتی ہے۔۔۔ ہفتہ ہونے کو آرہا ہے مگر نہ تو ایوان ِ صدر سے کوئی تردید آئی اور نہ ہی ہماری روزانہ، اسکرین پر آنے والی وزیر اعظم کی ترجما ن نے اس کی تردید کی۔ اس بات پر بھی حیرت ہوئی کہ اسلام آباد میں ہونے والی سرکاری میڈیا بریفنگ میں کسی رپورٹر نے اس خبر کے حوالے سے وزیر اعظم کی ترجمان سے اس پر سوال نہیں اٹھایا۔۔۔
بہرحال، خبر کے حوالے سے یہ کوئی عام سا بیان نہیں کہ خود تحریک انصاف کے بانیا ن میں سے ایک، اورسربراہ ِ مملکت کے عہدے پر فائز یہ بیان دے رہاہو کہ اُن کی حکومت کرپشن پر قابو نہیں پاسکی ہے۔ ماضی کی تاریخ اٹھالیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو ختم کرنے کے اور بہت سارے اسباب ہوں، مگر جب انہیں نکالا گیا تو فوجی ڈکٹیٹرجنرل ضیاء الحق نے وائٹ پیپر کا ایک پلندہ جاری کیا تھاجس میں پارٹی کے دور میں ہونے والے کرپشن کو سب سے نمایاں جگہ دی گئی تھی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اورمیاں نواز شریف کی دونوں حکومتیں بھی صدر غلام اسحا ق خان اور صدر فاروق لغاری نے کرپشن کی بنیاد پر ہی برطرف کی تھیں۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی کے بیان کو زیادہ اہمیت اس لئے بھی دینے کی جسارت کررہا ہوں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکو مت کو برطرف کرنے والے صدر سردار فاروق خان لغاری بھی پیپلز پارٹی کے بانیان اور وزیر اعظم بے نظیربھٹو کے نامزد کردہ تھے۔ اور ہاں، یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ جب پیپلزپارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو اُن کے عہدے سے ہٹایا جارہا تھا تو مسکین صورت اور سیرت صدر چوہدری فضل الٰہی ایوان ِ صدر میں چپ کا روزہ رکھے بیٹھے تھے۔ اسی طرح جب ہمارے میاں نواز شریف کو نکالا تو خیر جنرل پرویز مشرف نے، مگر اُن کے نامزد کردہ صدر ریٹائرڈ جسٹس رفیق تارڑ غالباً نیند کی گولیاں کھائے سوئے تھے۔
یقینا آج صورتحال ماضی سے بہت مختلف ہے۔ اور تحریک انصاف کی سوشل میڈیا بریگیڈ یہ گولہ باری کرے گی کہ رائی کا پہاڑ بنادیا۔ مگر بصد احترام، تاریخ، سیاست اور صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے چار دہائی سے حکومتوں کے بننے اور گرنے کا جو عینی شاہد رہا ہوں، تو پھر وطن ِعزیز کے سربراہ ِمملکت کے اس بیان کو معمول کی روشنی میں نہیں دیکھ سکتا۔ یقین سے نہیں لیکن تجربے کی بنیاد پہ کہہ سکتا ہوں کہ ہمارے شریف النفس صدر ِمملکت ڈاکٹر عارف علوی نے میڈیا کے سامنے یہ بیان دینے سے پہلے ضرور اب تک چند خطوط ایوا ن ِ وزیر اعظم تک دستی طورپر بھجوائے ہونگے۔ اور اب تو چینی کی چوری اور سبسڈی دینے کا جو اربوں کا اسکینڈل سامنے آیا ہے، اور اس میں ملوث ابھی تک وزیر اعظم کے دائیں بائیں بیٹھے ہیں تو اس سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام آباد میں خطرے کی گھنٹیاں بجنی شروع ہوگئی ہیں۔ یہ ایک انتہائی سفاک حقیقت ہے کہ پاکستان میں پارلیمنٹ اور جمہوری ادارے اصل حکمراں نہیں ہوتے۔ ہماری جمہوری حکومتوں کی ہمالیہ سے بڑی کرپشن اور یہ نااہلیاں ہی ہوتی ہیں جس کے سبب ریاست کے اصلی تے وڈے حکمرانوں کو ایسے نازک مرحلے پر اس طرح کے انتہائی قدم اٹھانے پڑتے ہیں۔