Sunday, 17 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Adam Etemad Ka Final Round

Adam Etemad Ka Final Round

پاکستان اس وقت تحریک عدم اعتماد کے سحر میں گرفتار ہے۔ ہر کوئی سوال کر رہا ہے کہ عدم اعتماد آئے گی یا نہیں؟ آئے گی تو کامیاب ہو گی یا نہیں؟ عدم اعتماد میں کون کون اپوزیشن کے ساتھ ہے اور کون کون حکومت کے ساتھ ہے۔ لوگ نئی صف بندی کے حوالے سے بھی سوال کر رہے ہیں۔ عمران خان جا رہے ہیں یا بچ جائیں گے؟ اپوزیشن کا یہ حملہ کتنا سخت اور سنجیدہ ہے۔

مقتدر حلقے کیوں نیوٹرل ہیں؟ وہ کس کے ساتھ ہیں؟ کیا ان کے نیوٹرل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ ہیں؟ ق لیگ کیوں نہیں مان رہی۔ اس طرح کے ان گنت سوال آج ہر کسی کے ذہن میں ہیں اور ہر کسی کے پاس اپنے لحاظ سے ان کے جواب ہیں۔

بہر حال پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا ہے کہ اگلے تین دن بہت اہم ہیں۔ جب آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو تین دن میں سے ایک دن گزر چکا ہوگا۔ باقی دو دن رہ گئے۔ اس لیے تحریک عدم اعتماد کی پٹاری میں جو بھی ہے، وہ باہر آنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔

اپوزیشن نے از خود ہی ٹائم لائن دیکر کھیل کو فائل راؤنڈ میں پہنچا دیا ہے۔ ورنہ اس کھیل کو ابھی لمبا کھینچا جا سکتا تھا لیکن شاید اپوزیشن اب اسے مزید لمبا کھینچنے میں دلچسپی نہیں رکھتی، اسی لیے انھوں نے ٹائم لائن دینا شروع کر دی ہے۔

ویسے تو ابھی تک کسی حکومتی حلیف نے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان نہیں کیا ہے۔ ق لیگ نے ابھی تک نہ تو اپوزیشن کو انکار کیا ہے اور نہ ہی ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح ایم کیو ایم نے بھی مکس سگنل دیے ہیں۔ وہ حکومت علیحدہ ہونے کی باتیں بھی کر رہے ہیں لیکن علیحدگی کا اعلان بھی نہیں کر رہے ہیں۔ وہ حکومت کے ساتھ بھی نہیں ہیں لیکن حکومت سے علیحدہ بھی نہیں ہیں۔

اس طرح کے دھندلے منظر نامہ میں ہی اپوزیشن نے اعلان کر دیا ہے کہ ان کی نمبر گیم پوری ہو گئی ہے اور وہ عدم اعتماد لانے کے لیے تیار ہیں۔ اپوزیشن کے اعلان نے حکومتی اتحادیوں کی اہمیت یک دم کم کر دی ہے اور یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ کیا اپوزیشن نے حکومتی اتحادیوں کے بغیر ہی عدم اعتماد کو کامیاب بنانے کا کوئی فارمولہ بنا لیا ہے۔ جہانگیر ترین لندن جا چکے ہیں، لیکن لندن بھی پاکستان کی سیاست کا محور ہے۔ لندن جانے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ پاکستان کی سیاست سے الگ ہو گئے ہیں بلکہ لندن جانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کا پاکستان کی سیاست میں کردار بڑھ گیا ہے۔

ایک رائے یہ بھی ہے کہ جب اپوزیشن تحریک عدم اعتماد پیش کر دے گی اور اس کی ووٹنگ کا دن کا آجائے گا تب حکومتی اتحادی ساری صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے اس کی حمایت کا اعلان کریں گے۔ حکومتی اتحادیوں کو جیت کا یقین چاہیے، و ہ ہاری ہوئی کشتی میں سوار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مقتدر حلقے نیوٹرل ہیں۔ وہ اپوزیشن کے ساتھ کھڑ ے نظر نہیں اٰآرہے، اگر وہ ساتھ کھڑے نظرآرہے ہوتے تو حکومتی اتحادیوں کے لیے فیصلہ کرنا کافی آسان تھا۔ لیکن اب جب تک انھیں جیت کا یقین نہیں ہوگا، وہ کوئی رسک لینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

اس لیے یہی کہا جا رہا ہے کہ جب عدم اعتماد پیش ہو جائے گی اور اس کی جیت یقینی نظر آئے گی تو حکومتی اتحادی آخر میں حکومتی کشتی سے چھلانگ لگا کر اپوزیشن کی کشتی میں سوار ہو جائیں گے۔ اس لیے اپوزیشن کو حکومتی اتحادیوں کے بغیر ہی جیت کو یقینی بنانا ہے۔ ان کے سر پر جیت کی منصوبہ بندی نہیں کی جا سکتی۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا واقعی تحریک انصاف سے اتنے ارکان ٹوٹ کر اپوزیشن کے ساتھ آگئے ہیں کہ ان کے بھروسے پر عدم اعتماد کا کھیل کھیلا جا سکے۔ یہ درست ہے کہ تحریک انصاف میں ناراض ارکان کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ اس طرح کے ناراض ارکان کے ایک دھڑے کی قیادت جہانگیر ترین بھی کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی قومی اسمبلی کے اتنے ارکان کی تعداد موجود ہے جو عدم اعتماد کی کامیابی کو یقینی بنا سکے۔

پھر پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی تحریک انصاف کے کچھ ارکان جانے کے لیے تیار ہیں۔ دو ارکان کے جے یو آئی (ف) کے ساتھ جانے کی بھی بازگشت ہے۔ کیا تحریک انصاف کے ناراض ارکان صرف اگلی ٹکٹ کی گارنٹی پر عدم اعتماد کی حمایت کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ یہ ایک مشکل سوال ہے، لیکن یہ نا ممکن بھی نہیں ہے، ماضی میں ایسی مثالیں موجود ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ تحریک انصاف میں ایسے ارکان موجود ہیں جو اگلا الیکشن تحریک انصاف سے نہیں لڑنا چاہتے۔ اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ عمران خان انھیں ٹکٹ ہی نہیں دیں گے، اس لیے ان کے لیے اگلی ٹکٹ پکا کرنے کا یہ بہترین موقع ہے۔

اگر انھوں نے یہ موقع بھی ہاتھ سے گنوا دیا تو پھر ان کے لیے اگلے الیکشن میں کوئی بھی ٹکٹ حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا۔ ان میں جہانگیر ترین گروپ کے لوگ سرفہرست ہیں۔ انھوں نے سر عام بغاوت کی ہے۔ انھیں اندازہ ہے کہ وقت آنے پر عمران خان انھیں نشان عبرت بنا دیں گے۔ اس لیے ان کے لیے سیاست کی اگلی راہ تلاش کرنے کا یہ آخری موقع ہے۔ ان کے لیے ابھی نہیں تو کبھی نہیں والی صورتحال ہے۔ اس لیے وہ اگلی ٹکٹ پر مان سکتے ہیں، ان کے لیے اگلی ٹکٹ سب سے اہم ہے۔

تحریک انصا ف کے ارکان کے لیے یہ بات بھی پریشان کن ہے کہ اس وقت تحریک انصاف کے مقتدر حلقوں کے ساتھ کیسے تعلقات ہیں کیونکہ ان کے انتخابی حلقوں کی پوزیشن ایسی نہیں ہے کہ مقتدر اشاروں کی مدد کے بغیر وہ انتخاب جیت سکیں۔ ان کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں کہ کیا اگلے انتخابات میں انھیں ویسی مدد حاصل ہو گی جیسی گزشتہ انتخاب حاصل تھی۔ اس لیے وہ بھی اگلے انتخاب میں جیتنے کے لیے نئی سیاسی جماعت کی تلاش میں ہیں۔

ان کو ساتھ رکھنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ عمران خان وہ تمام شکوک و شبہات دور کر دیں جو ان کے اور مقتدر حلقوں کے درمیان تعلقات کے حوالے سے موجود ہیں۔ سیاسی لوگ ان کو بہت سنجیدہ لے رہے ہیں۔ یہ لوگ جانتے ہیں کہ عمران خان کا ٹکٹ اپوزیشن کی سیاست کے لیے موزوں نہیں ہے۔

بہر حال عدم اعتماد پیش ہونے و الی ہے۔ کیا پاکستان کی تاریخ کی پہلی عدم اعتماد ہو گی جو کامیاب ہو جائے گی یا یہ بھی ناکام ہو جائے گی۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں عدم اعتماد کامیاب ہونے کی کوئی تاریخ نہیں ہے۔ لیکن حال ہی میں بلوچستان میں عدم اعتماد کامیاب ہوئی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ نمبر پورے ہونے پرجام کمال نے استعفیٰ دے دیا۔ کیا نمبر پورے ہونے پر عمران خان بھی استعفیٰ دے دیں گے۔ مجھے نہیں لگتا کہ عمران خان کسی بھی صورت میں پہلے استعفیٰ دیں گے۔

وہ عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائیں گے۔ اپنے منحرف ارکان کو نا اہل کرانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ لیکن کیا وہ اس میں کامیاب ہوں گے۔ یہ الگ سوال ہے۔ اسی لیے اپوزیشن جلد از جلد انتخابات کرانے کے حق میں ہے تا کہ اس کھیل کو ختم کی جا سکے۔ مجھے لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے ناراض ارکان بھی قبل از وقت انتخاب کے حق میں ہوں گے۔ وہ بھی چاہیں گے ملک جلد نئے انتخابات کی طرف چلا جائے۔

عدم اعتماد کے اس فائنل راؤنڈ میں صف بندی تقریبا مکمل ہو چکی ہے۔ عمران خان کی پوزیشن کمزور نظر آرہی ہے۔ لیکن سیاست کھیل ہی ناممکن کو ممکن بنانے کا ہے۔ تین ماہ پہلے کون کہہ سکتا تھا کہ عمران خان ایسے سیاسی بھنور میں پھنس جائیں گے۔ اس لیے کون جانتا ہے کہ آگے کیا ہوگا۔ کس کی لاٹری لگے گی اور کون مشکل میں پھنس جائے گا۔ بہر حال نئے کھیل کے نئے انداز ہیں۔ کل جو بہت کمزور نظر آرہے تھے وہ اب مضبوط نظر آرہے ہیں اور جو کل مضبوط نظر آرہے تھے وہ اب کمزور نظر آرہے ہیں۔