پاکستان تحریک انصاف اس وقت ملک کے جمہوری نظام اور آئین وقانون کے نظام کی بنیادیں ہلانے کی شعوری کوشش کر رہی ہے۔ ایک طرف پنجاب میں وزارت اعلیٰ کے حلف کے لیے جس قسم کا آئینی بحران بنا دیا گیا ہے۔
اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ مرکز میں بھی صدر پاکستان نے وزیر اعظم سے حلف نہ لے کر ایسی ہی کوشش کی تاہم وہاں چیئرمین سینیٹ نے حلف لے کر بحران کو ٹال دیا۔ صوبوں میں گورنر کی تعیناتی کے حوالے سے بھی صدر حکومت سے تعاون نہیں کر رہے ہیں۔ انھوں نے بالخصوص گورنر پنجاب کو ہٹانے کی سمری کو روکا ہوا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ تحریک انصاف ملک میں آئینی انتقال اقتدار کے راستے میں ہر ممکن رکاوٹ پیدا کر رہی ہے۔
پرامن انتقال اقتدار جمہوریت اور آئین کا بنیادی حسن ہے۔ اگر نظام میں سے پر امن انتقال اقتدار ہی ختم ہو جائے تو نظام کا حسن ہی ختم ہو جاتا ہے۔ فاشسٹ اور جمہوری نظام کا بنیادی فرق پرامن انتقال اقتدار ہے۔ صدر اور گورنر کو آئین میں استثناء اسی لیے دیے گئے ہیں کہ وہ مکمل آزادی سے آئین وقانون کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے فرائض منصبی انجام دے سکیں۔ یہ استثناء اس لیے نہیں ہیں کہ صدر مملکت اور گورنر خود کو آئین سے ماورا سمجھنے لگ جائیں۔
وہ غیر آئینی کام کریں اور سمجھیں کہ استثناء کی وجہ سے انھیں آئین سے انحراف اور آئین کی خلاف ورزی کی کھلی چھٹی ہے۔ روح یہی ہے کہ آئین کی سربلندی کے لیے یہ استثناء دیے گئے ہیں۔ تا ہم اگر اس استثناء کو پر امن انتقال اقتدار کی راہ میں رکاوٹ کے لیے استعمال کیا جائے گا تو یہ نظام کی بنیاد کو ہلانے کے مترادف ہے۔
تحریک انصاف نے جمہوریت کی بنیاد انتخابی نظام کے ریگولیٹر الیکشن کمیشن کے خلاف بھی محاذ آرائی شروع کر دی ہے۔ ویسے تو ان کی جانب سے ملک بھر میں الیکشن کمیشن کے خلاف منگل کو دی جانے والی کال میں کسی بھی شہر میں کوئی بڑا مظاہرہ نہیں ہوا ہے۔ دو درجن سے زیادہ لوگ کسی بھی شہر میں جمع نہیں ہوئے۔ اس لیے میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ عمران خان موسم سے نہیں لڑسکتے۔
جیسے جیسے گرمی بڑھے گی لوگوں کی تعداد کم ہوتی جائے گی۔ روزے میں دن میں مظاہرے ہو ہی نہیں سکتے۔ عمران خان اپنے ورکر کی صلاحیت کا غلط اندازہ لگا بیٹھے ہیں۔ راتوں کو ڈی چوک پر جلسہ اور بات ہے۔ دن میں پولیس کے سامنے احتجاج کرنا مشکل کام ہے۔ میری رائے میں عمران خان کو الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج سے اندازہ کرنا چاہیے کہ گرمی میں مارچ بھی ناکام ہو سکتا ہے۔ لوگ گرمی اور ریاست سے بیک وقت نہیں لڑ سکیں گے۔ اس لیے عمران خان کو سوچنا ہوگا۔
تا ہم اس ساری صورتحال سے قطع نظر الیکشن کمیشن کا احترام بھی ملک کے جمہوری نظام کے لیے ناگزیر ہے۔ 2018کے انتخابات شدید متنازعہ انتخابات قرار دیے جاتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ان انتخابات کے نتائج کو نہ صرف متاثرہ سیاسی جماعتوں نے قبول کیا بلکہ انھوں نے اس طرح الیکشن کمیشن کو ٹارگٹ نہیں کیا جیسے عمران خان آج فارن فنڈنگ کیس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔
میری رائے میں الیکشن کمیشن کا احترام اعلیٰ عدلیہ سے کم نہیں ہے۔ اسی لیے الیکشن کمیشن کو بھی اعلیٰ عدلیہ کی طرح توہین عدالت کے اختیارات دیے گئے ہیں۔ ہم نے دیکھا کہ الیکشن کمیشن نے جب فواد چوہدری اور اعظم سواتی کو توہین الیکشن کمیشن کے نوٹس دیے تو انھیں معافی مانگنا پڑی۔ میں سمجھتا ہوں آج جس طرح الیکشن کمیشن پر حملے کیے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو اس موقع پر کسی قسم کی بھی نرمی نہیں کرنی چاہیے۔ جو بھی الیکشن کمیشن کے احترام کو ملحوظ خاطر نہیں رکھے اس کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہیے۔
الیکشن کمیشن پر حملہ اعلیٰ عدلیہ پر حملے کے مترادف ہے۔ اگر سپریم کورٹ پر حملہ کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے تو الیکشن کمیشن پر حملہ کو اس سے کم کیسے سمجھا جا سکتا ہے۔
اگر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار جب میاں نواز شریف کو سزا سنا رہے تھے تو ان کے خلاف بات کرنے پر توہین عدالت کی سزائیں سنائی گئیں۔ سزا پانے والوں میں طلال چوہدری اور دانیال عزیز جیسے لیڈر بھی شامل ہیں۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کو اپنا توہین عدالت کا اختیار سختی سے استعمال کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر ملک میں الیکشن کمیشن کی ہی کوئی عزت نہ رہی تو ملک میں انتخابی نظام کی عزت اور توقیر ہی ختم ہو جائے گی۔
اس لیے الیکشن کمیشن پر حملہ اعلیٰ عدلیہ پر حملہ کے برابر ہے۔ جس طرح عدلیہ آپ کے خلاف فیصلہ کرے تو اس فیصلے کو ماننا فرض ہے۔ آپ اس فیصلے کے خلاف اپیل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح الیکشن کمیشن کا فیصلہ ماننا سب پر فرض ہے البتہ اس کے خلاف اپیل کی جا سکتی ہے۔
یہ دلیل بھی کوئی قابل فہم نہیں کہ کوئی فریق یہ مطالبہ کر دے کہ میرے مقدمہ کا تب تک فیصلہ نہ کیا جائے جب تک میرے مخالفین کے مقدموں کا فیصلہ نہ ہوجائے۔ ایک چور یہ کہہ دے کہ جب تک سب چوروں کو سزا نہ مل جائے مجھے سزا نہ دی جائے۔ کیا عدالت ایسی کسی دلیل کومان سکتی ہے۔ اس طرح یہ موقف کہ جب تک سب سیاسی جماعتوں کا فیصلہ نہ ہوجائے الیکشن کمیشن ان کا فیصلہ نہ کرے۔ کون مانے گا۔ یہ سیاسی دلیل تو ہو سکتی ہے۔ لیکن آئین وقانون کے دائرے میں یہ دلیل قبول نہیں ہو سکتی۔
ماضی میں ہم نے دیکھا کہ آصف زرداری نے نواز شریف سے حلف لیا۔ ممنون حسین نے عمران خان سے حلف لیا۔ اس لیے صدر عارف علوی کو بھی نہ صرف ماضی کی روایات کو سامنے رکھنا چاہیے۔
یہ جمہوریت کا حسن اور تقاضا ہے۔ انتقال اقتدار میں رکاوٹ ہمارے جمہوری نظام کو ایک مذاق بنا رہی ہے۔ ماضی میں ہم نے دیکھا کہ صدر مملکت کے پا س اسمبلیاں توڑنے کا اختیار تھا۔ لیکن مختلف صدور نے اس اختیار کا غلط استعمال کیا۔ پھر عدالتوں نے اس اختیار کے خلاف فیصلے دینا شروع کیے۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ ملک میں یہ رائے بن گئی کہ اس اختیار کے ساتھ ملک میں جمہوریت نہیں چل سکتی۔
اسی طرح صدر عار ف علوی اب یہ رائے بنا رہے ہیں کہ صدر اور گورنر کے پاس حلف لینے کے اختیارات بھی پر امن انتقال اقتدار کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ کیا ہماری پارلیمان نے جیسے صدر کا 58 2 (B) کا اختیار ختم کیا ہے۔ اسی طرح کیا حلف لینے کے اختیار بھی ختم کیے جائیں گے۔ حالانکہ ملک کے تمام جمہوری ممالک میں یہ اختیارات موجود ہیں۔ لیکن وہاں تو اسمبلیاں توڑنے کا اختیار بھی موجود ہے۔ جسے کبھی غلط استعمال نہیں کیا گیا۔
ہم نے دیکھا کہ قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی غیر آئینی رولنگ نے اعلیٰ عدلیہ کو پارلیمان کی کارروائی میں مداخلت پر مجبور کر دیا۔ غیر آئینی رولنگ کی وجہ سے اعلیٰ عدلیہ کو پارلیمانی کارروائی میں مداخلت کرنا پڑی۔ اسی طرح عدم اعتما دپر ووٹنگ سے انکار نے بھی ملک کے جمہوری نظام کو کمزور کیا۔ اور جمہوری اداروں کی بالادستی کو کمزور کیا۔ کیا عمران خان جان بوجھ کر جمہوری اداروں کو کمزور کر رہے ہیں۔
وہ ملک کو کس طرف لے کر جا رہے ہیں۔ یہ بڑا سوال ہے۔ وہ جو کر رہے ہیں اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ کیا جب تک ادارے عمران خان کی حمایت کریں گے تب تک وہ ان کا احترام کریں گے۔ عمران خان نے یہ ثا بت کیا ہے کہ وہ صرف اقتدار کے لیے ہر غیرقانونی اور غیر آئینی حد تک جا سکتے ہیں۔