Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Bilawal Ki MQM Ko Peshkash Aur Siyasi Manzar Nama

Bilawal Ki MQM Ko Peshkash Aur Siyasi Manzar Nama

بلاول بھٹو نے سال کے آخر میں ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شمولیت کی دعوت دے دی ہے۔ بات سادہ نہیں ہے۔ سیاست میں ہر بات کی ٹائمنگ ہوتی ہے۔ غلط موقع پر صحیح بات بھی غلط ہو جاتی ہے اور صحیح موقع پر غلط بات بھی صحیح ہو جاتی ہے۔ اس لیے سیاست میں بات سے زیادہ ٹائمنگ اہم ہوتی ہے۔ کسی کی صحیح بات کو بھی پذیرآئی نہیں ملتی اور کسی کی غلط بات بھی بہت پذیرآئی حاصل کر لیتی ہے۔ کسی کو سو گناہوں سے بھی معافی مل جاتی ہے اور کسی کا ایک گناہ بھی اسے سیاسی موت دے دیتا ہے۔

سب سے پہلے شہباز شریف نے ان ہاؤس تبدیلی کی بات کی تھی لیکن اس وقت متحدہ اپوزیشن نے ان کی بات کو وزن نہیں دیا بلکہ دوبارہ انتخابات کا مطالبہ رکھ دیا تھا۔ شہباز شریف کہہ رہے تھے کہ ملک میں دوبارہ انتخابات ممکن نہیں۔ جنھوں نے اتنی محنت سے یہ سیاسی بساط بنائی ہے۔

وہ دوبارہ نئی بساط بنانے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے اسی سیاسی بساط کے اندر سے راستے تلاش کرنے ہونگے۔ اسی لیے شہباز شریف صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد کے خلاف تھے۔ ان کی رائے تھی کہ صادق سنجرانی اس سیاسی بساط کے کوئی سیاسی مہرے نہیں ہیں۔ بلکہ وہ جن کی بساط ہے ان کے نمایندے ہیں۔ ان کو نہیں چھیڑنا چاہیے۔

آج خواجہ آصف بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ ایک غلط سیاسی چال تھی۔ پھر یہ بھی سب کہتے ہیں کہ مریم نواز اور بلاول کا ایڈونچر تھا۔ بچوں سے غلطیاں ہو ہی جاتی ہیں۔ وہ اپنی غلطیوں سے ہی سیکھتے ہیں۔ شہباز شریف مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کے بھی خلاف تھے۔ شاید کسی کو یاد ہو کہ نہ یاد ہو جب میاں نواز شریف نے عدالت میں پیشی کے موقع پر مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کی حمایت کا اعلان کر کے شہباز شریف کو بند گلی میں دھکیل دیا تھا، تب بھی شہباز شریف کی رائے اس مارچ کے خلاف تھی۔

اس موقع پر جب ایک سینئر سیاستدان نے شہباز شریف سے کہا کہ دیکھیں مولانا کامیاب ہو گئے تو کتنی مشکلیں آسان ہو جائیں گے تو شہباز شریف نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، اگر ناکام ہو گئے تو مشکلیں کتنی بڑھ جائیں گی۔

اس پر بھی سوچیں۔ سیاست میں کامیابی سے زیادہ ناکامی کو پہلے سامنے رکھ کر حکمت عملی بنائی جاتی ہے۔ بچنے اور نکلنے کے راستے پہلے رکھے جاتے ہیں۔ اسی لیے سیاست کو بند دروازوں اور بند گلی کا کھیل نہیں کہا جاتا۔ وہ سیاستدان ہی نہیں جو بند گلی میں پہنچ جائے۔ میڈیکل رپورٹس تو بتا رہی ہیں کہ آصف زرداری کا دماغ چھوٹا ہو گیا ہے۔

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات صرف میڈیکل رپورٹس کی حد تک ٹھیک لگ رہی ہے۔ لگتا ہے کہ ضمانت کے بعد آصف زرداری کے دماغ کے سیاسی حصے نے د وبارہ کام شروع کر دیا ہے۔ ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شمولیت کی پیشکش عام اور سادہ بات نہیں ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ موجودہ ایم کیو ایم از خود فیصلہ کرنے کی مختار نہیں ہے۔ سب جانتے ہیں کہ خالد مقبول صدیقی اورعامر خان کا فیصلہ سازی میں وہ کنٹرول اب نہیں ہے جو پہلے تھا۔ جہاں فیصلے ہوتے ہیں وہاں فروغ نسیم کی چلتی ہے۔ اس لیے کب کیا فیصلہ کرنا ہے یہ فروغ نسیم کو پتہ ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ فروغ نسیم کم بات کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔

چند صحافی دوستوں کی رائے ہے کہ احسن اقبال کو چیف الیکشن کمشنر پر بات نہ ماننے پر گرفتار کیا گیا ہے۔ لیکن میں ایسا نہیں سمجھتا۔ ان کی گرفتاری کی وجوہات وہی ہیں جو شاہد خاقان عباسی کی ہیں۔ وہی وجوہات ہیں جو رانا ثناء اللہ کی ہیں۔ اور یہ وہی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے خواجہ آصف کو گرفتار نہیں کیا جاتا۔ لوگوں کو بات سمجھ نہیں آرہی دوست چاہتے ہیں کہ جیسے بانی ایم کیو ایم مائنس ہو گئے ہیں۔ اسی طرح بانی ن لیگ بھی مائنس ہو جائیں۔ میں اس بحث میں نہیں جانا چاہتا کہ یہ کوشش کتنی کامیاب ہو گی۔ اس کے کیا نتائج اور کیا نقصانات ہو نگے۔

ایسا لگتا ہے کہ زرداری نے یہ بات مان لی ہے۔ وہ اب سامنے رہ کر نہیں کھیلنا چاہتے۔ وہ بلاول کو فرنٹ رول دینے پر تیار ہو گئے ہیں۔ لیکن آصفہ بھٹو کو ساتھ شامل کرنا چاہتے ہیں۔ میری دانست میں ابھی آصفہ بھٹو کے لیے جگہ نہیں ہے۔ بلاول نے اپنی جگہ بنا لی ہے۔ انھوں نے بتا یا ہے کہ وہ پاکستانی سیاست کی نزاکتوں کو سمجھتے ہیں۔

اور اس کا خیال رکھیں گے۔ انھوں نے ماضی قریب میں غلطیاں کی ہیں۔ لیکن شاید انھیں بھی اندازہ ہو گیا ہے کہ وہ مریم نواز کے ساتھ مل کر جو کھیل کھیلنا چاہتے تھے، وہ عملی طور پر ممکن نہیں۔ ویسے بھی مریم نواز نے اپنی خاموشی سے سب کو مایوس کیا ہے۔ اگر مریم نواز نے خاموشی ہی اختیار کرنی تھی تو اتنا شور مچانے کی کیا ضرورت تھی۔ اب ان کی خاموشی بھی انھیں کچھ لے کر نہیں دے سکتی۔ باری شہباز شریف کی ہے اور انھیں انتظار کرنا ہے۔ جیسے شہباز شریف لندن میں بیٹھ کر انتظار کر رہے ہیں۔ مریم نواز کی جنید صفدر کو سامنے لانے کی حکمت عملی کی کامیابی کے کوئی امکانا ت نہیں ہیں۔

بہر حال عمران خان کو اندازہ کرنا چاہیے کہ جیسے جیسے وہ غیر مقبول ہو رہے ہیں، ان کے خلاف کام بھی تیز ہو رہا ہے۔ ان کا سیاسی بوجھ اٹھانے میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ یہ سیاست کا کھیل ہے۔ اس میں جو گر گیا وہ گیا۔ اس لیے عمران نے اگر بچنا ہے تو ایک پیج سے زیادہ عوام کی فکر کریں۔ بالا آخر انھیں عوام ہی بچائے گی۔ ورنہ داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں۔ نیب آرڈیننس جہاں پاکستان کے مفاد میں ہے، وہاں وہ عمران خان کی سیاسی بساط میں ایک کیل بھی ہے۔