چوہدری برادران اس وقت پاکستان کی سیاست کا محور بن چکے ہیں۔ ان کے دو تین انٹرویوز نے اقتدار کے ایوانوں میں اس قدر تہلکہ مچا دیا کہ خود چوہدری پرویز الٰہی کو یہ کہنا پڑ گیا کہ وہ حکومت کے اتحادی ہیں اور حکومت کے اتحادی رہیں گے۔ اگر چوہدری پرویز الٰہی وضاحتی بیان جاری نہ کرتے اور بات صرف انٹرویوز تک محدود رہتی تو سب ہی یہ سمجھ رہے تھے کہ چوہدری برادران نے اس حکومت کی کشتی سے اترنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔
وہ تو چوہدری پرویز الٰہی نے بر وقت وضاحت جاری کر دی کہ وہ حکومتی اتحادی ہیں اور ان کا حکومت کا اتحاد چھوڑنے کا کوئی ارداہ نہیں ہے۔ ورنہ یہ قیاس آرائی تو عام تھی کہ چوہدریوں اور شریف خاندان کے درمیان بات چیت ہو گئی ہے۔ اوپر سے شہباز شریف نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے نواز شریف کو بیرون ملک جانے کی اجازت دینے کے بعد جب اپوزیشن کی سیاسی قیادت کا نواز شریف کی حمایت پر شکریہ ادا کیا تو بالخصوص چوہدری برادران کا بھی شکریہ ادا کر دیا۔ اس سے پہلے چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی دونوں ہی نواز شریف کو بیرون ملک جانے دینے کی کھلم کھلا حمایت کر رہے تھے۔
اور حکومت کی جانب سے بانڈ مانگنے کے فیصلے کو غلط قرار دے رہے تھے۔ اس لیے رائے تو بن رہی تھی کہ چوہدریوں نے دوبارہ ن لیگ کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اوپر سے عمران خان بھی دو دن کی چھٹی پر چلے گئے۔ سب نے کہا حکومت کا پیک اپ شروع۔
چوہدری پرویز الٰہی کی سچی اور کھری باتوں کے نتیجے میں لوگوں نے قیاس آرائیاں شروع کر دی تھیں کہ اگر چوہدری برادران اس موقعے پر حکومت سے علیحدہ ہوں گے تو کیا ہوگا۔ سب کو سمجھ تھی کہ تحریک انصاف کی پنجاب حکومت ختم ہو جائے گی۔ مرکز کی بنیادیں ہل جائیں گی۔ صورتحال کافی دلچسپ تھی، تحریک انصاف کی قیادت کو چوہدری پرویز الٰہی کی باتیں پسند نہیں آرہی تھیں۔ ان کے انٹرویوز کے سچ کڑ وے تھے۔ ایک ماحول یہ بھی بن گیا تھا کہ اسکرپٹ بدل گیا ہے اور چوہدری برادران نے عمران خان سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ چوہدری ایسے ہی بات نہیں کرتے۔ چوہدری روز بیان اور انٹرویو دینے والے سیاستدان نہیں ہیں۔ وہ موقع اور ٹائم پر بات کرتے ہیں۔
اس لیے ٹائم آگیا ہے۔ دوسری طرف مولانا کے دھرنے میں چوہدریوں کے کردار نے بھی ملک کے منظر نامہ کو محو حیرت کر دیا تھا۔ پوری حکومتی ٹیم ایک طرف اور چوہدری ایک طرف۔ صا ف نظر آرہا تھا کہ چوہدری حکومت کے لیے نہیں ریاست کے لیے بات کر رہے ہیں۔ بات چیت کے دوران حکومت اور چودھر ی برادران کے درمیان فاصلے عقل کے اندھے کو بھی نظر آرہے تھے۔ صاف نظر آرہا تھا کہ ریاستی ادارے چوہدری برادران کے ذریعے بات کر رہے ہیں۔
انھیں بھی حکومتی ٹیم پر اعتبار نہیں تھا۔ مولانا کے دھرنا ختم ہونے کے بعد بھی حکومت نے چوہدری برادران کے کردار کو کوئی خاص نہیں سراہا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمران خان چوہدری برادران کی کاوشوں کو خراج تحسین پیش کرتے۔ لیکن وہاں تو خاموشی اور سناٹا تھا۔ بلکہ دوران مذاکرات تحریک انصاف کی زہریلی سوشل میڈیا ٹیم چوہدری برادرا ن کا مذاق بھی اڑاتی رہی۔ یہ سیاست کا کھیل ہے۔ اس میں جہاں خاموشی کی ایک قیمت ہے۔ وہاں درست موقعے پر بات نہ کرنا بھی ناقا بل معافی جرم ہے۔ اس لیے چوہدری برادران کے لیے دھرنے کو ختم کروانے میں ایک سیاسی کردار ادا کرنے کے بعد خاموشی سیاسی طور پر ممکن نہیں تھی۔
بہرحال انھیں بتانا تھا کہ ان کا کیا کردار ہے۔ دو انٹرویوز نے تحریک انصاف کو اتنا پریشان کر دیا۔ شاید اتنا پریشان مولانا کے دھرنے نہیں کیا تھا۔ چوہدری برادران کے لیے موجودہ سیاسی صورتحال کوئی نئی نہیں ہے۔ انھیں سیاسی طور پرایسے زندہ رہنے کا وسیع تجربہ ہے۔ البتہ تحریک انصاف کے دوستوں کو چوہدری برادران کی سیاسی بصیرت اور سیاسی دور اندیشی کا اندازہ نہیں ہے۔ اگر وہ دوست یہ سمجھتے ہیں کہ وہ چوہدری برادران کو دیوار سے لگا کر الگ کر لیں گے تو یہ ممکن نہیں۔ چوہدری برادران نہ تو ایسے ہی کسی سے اتحاد بناتے ہیں اور نہ چھوڑتے ہیں۔ چھوڑنے سے پہلے وہ اتحادی کو ایک نہیں سو بار آزماتے ہیں۔
سب کا خیال تھا کہ اگر مونس الٰہی کو وزارت نہیں دی جائے گی تو چوہدری ناراض ہو جائیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ عمران خان سے ملاقات میں چوہدری برادران نے خود ہی کہہ دیا کہ انھیں کوئی وزارت نہیں چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ چوہدری برادران کے ساتھ آجکل تحریک انصاف میں بھی وہی سلوک ہو رہا ہے جو کئی سال ان کے ساتھ ن لیگ میں ہوتا رہا ہے۔ کئی سال ن لیگ میں انھیں دیوار سے لگانے کی کوشش ہوتی رہی۔ جیسے آجکل تحریک انصاف میں اس بات کا شور مچایا جا رہا ہے کہ چوہدری پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب بننے کے لیے سارا شور کر رہے ہیں۔ آج بھی تحریک انصاف ق لیگ اور چوہدری خاندان کے ساتھ ویسے ہی سوتیلے بھائیوں والا سلوک کر رہی ہے جو ن لیگ اور شریف خاندان نے کیا تھا۔
تب بھی چوہدری خاندان کے سیاسی مشوروں کو اسی طرح نظر انداز کیا جاتاتھا جیسے آج کیا جا رہا ہے۔ تب بھی مشکل میں چوہدری برادران سے مدد تو لی جاتی تھی لیکن بعد میں اس مدد کی وجہ سے ملنے والے ثمرات کا کریڈٹ دینے کے بجائے اسے سازش کا نشانہ بنایا جا تا تھا۔ آج بھی ایسا کیا جا رہا ہے۔ ایسا مشرف دور میں بھی رہا۔ تب بھی شوکت عزیز نے سیاسی بونوں کا ایک گروپ بنا لیا تھا جو ہر وقت چوہدری خاندان اور مشرف کے درمیان فاصلے بڑھانے کی کوشش میں رہتا۔
یہ الگ بات ہے بعد میں یہ سیاسی بونے نظر بھی نہیں آئے اور ساری لڑائی چوہدری خاندان کو ہی لڑنی پڑ گئی۔ حتیٰ کے آصف زرداری کو بھی پہلے چوہدری خاندان سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن پھر زرداری صاحب کو سمجھ آئی کہ اگر مدت پوری کرنی ہے تو انھیں ساتھ ملانا ہو گا۔ آج عمران خان کو بھی یہ سمجھنا ہے کہ چوہدریوں سے فاصلے رکھ کر ان کی حکومت کو سیاسی استحکام نہیں مل سکتا۔ مدت پوری کرنی ہے تو چوہدریوں کے ساتھ فاصلے اور عدم اعتماد کی فضا کوختم کرنا ہوگا۔ ورنہ مشکلات میں کمی نہیں اضافہ ہی ہوتا رہے گا۔ ویسے بھی یہ حکومت اب چوہدریوں کا کچھ بگاڑنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ عمران خان کی جانب سے عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنانے کے فیصلے کو بھی چوہدری پرویز الٰہی نے ہی استحکام اور طاقت دی ہے۔ تحریک انصاف کے اندر سے عثمان بزدار کے خلاف جتنی سازشیں کی گئی ہیں ان کو ناکام بنانے میں چوہدری پرویز الٰہی کا اہم کردار ہے۔
آج بھی عثمان بزدار اور چوہدری پرویز الٰہی کی انڈر اسٹینڈنگ نے ہی پنجاب کو سیاسی طور پر مستحکم رکھا ہوا ہے۔ مرکز میں بھی چوہدریوں کے کردار میں اضافہ کرنے سے حکومت کمزور نہیں مضبوط ہو گی۔ عمران خان ملک کے سیاسی منظر نامہ میں سیاسی تنہائی کا شکار نظر آتے ہیں۔ انھیں چوہدریوں سے یہ فن سیکھنا ہوگا کہ سیاسی مخالفین کے ساتھ اختلافات برقرار رکھتے ہوئے بھی کھڑکیا ں اور دروازے کیسے کھلے رکھتے ہیں۔ بہر حال خبر یہی ہے کہ تحریک انصاف کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے چوہدری پرویز الٰہی نے مزید انٹرویوز نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ کچھ سنیئر دوستوں کے فائنل انٹرویو منسوخ ہو گئے ہیں۔ کیونکہ وہ حکومت کو کسی بڑی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے۔