وزیر اعظم عمران خان کے خطاب سے ایک بات واضح ہے کہ ان کے پاس لاک ڈائون نہ کرنے کی واحد وجہ یہ ہے کہ دیہاڑی دار لوگ اور غربت کی سطح سے نیچے رہنے والے لوگ کیا کریں گے۔ میں عمران خان کے خدشات سے متفق ہوں۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر لاک ڈائون نہیں کیا گیا تو زیادہ نقصان کا خطرہ ہے۔ ایک طرف لوگوں کے بھوک سے مرنے کا خدشہ ہے تو دوسری طرف کورونا سے مرنے کا خدشہ ہے۔
اگر لاک ڈائون کریں تو لوگ بھوک سے مر جائیں گے اور اگر نہیں کریں گے تو کورونا سے مر جائیں گے۔ سندھ نے وزیر اعظم کی منطق سے اختلاف کرتے ہوئے بہر حال لاک ڈائون کی طرف جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سعودی عرب میں کرفیو لگ رہا ہے۔ سب کی رائے ہے کہ آج نہیں تو کل ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کی مربوط بنیادوں پر تیار ی کی جائے۔
ملک معاشی لاک ڈائون کی طرف جا رہا ہے۔ معاشی لاک ڈائون ویسے تو دو سال سے جاری تھا۔ ملک معاشی بحران کا شکا ر ہے۔ روزگار کے مواقع پہلے ہی کم ہیں۔ محتاط اعدا و شمار کے مطابق گزشتہ سال دس لاکھ سے زائد لوگ بے روزگار ہو ئے ہیں۔ کورونا سے پہلے اندازہ تھا کہ اس سال بیس لاکھ سے زائد لوگ بے روزگار ہو جائیں گے۔ مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی تھی۔ خود حکومت کو بھی مہنگائی کا احساس ہونا شروع ہو گیا تھا۔ بجلی اور گیس کی قیمت اتنی بڑھ چکی ہے کہ خود حکومت کی بس ہو گئی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی۔ شرح ترقی کا گرنا اور شرح سود میں بے پناہ اضافہ وہ سب وجوہات تھیں جنہوں نے عام آدمی کی زندگی کو پہلے ہی مشکل بنا دیا تھا۔ ایسے میں کورونا آگیا ہے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کی عوام میں کورونا کے معاشی اثرات سہنے کی سکت نہیں ہے۔ دنیا کے امیر ممالک جہاں فی کس آمدنی پاکستان کی نسبت بہت زیادہ ہے وہاں بھی حکومتیں کورونا کی وجہ سے عوام کو ریلیف دینے کے راستے تلا ش کر رہی ہیں۔ امریکا میں فی گھرانہ ہزار ڈالر دینے کی بات ہو رہی ہے۔ دنیا کے کئی ممالک بجلی گیس کے بلوں میں ریلیف دے رہے ہیں۔ لوگ بھی ایک د وسرے کی مدد کر رہے ہیں۔ لوگوں نے گھروں کے باہر اشیا صرف میزوں پر رکھ دی ہیں کہ جس کو جو چاہیے لے جائے۔ کورونا سے نبٹنے کے لیے قوم میں ایک جذبہ ایثار جگانے کی ضرورت ہے۔ صرف حکومت اس سے اکیلے نہیں نبٹ سکتی۔ سب کو ملکر اس کا مقابلہ کرنا ہوگا۔ ایک دوسرے کو مرتے دیکھنے کا تماشہ ہم سب کو مار دے گا۔
اختلاف کے اس ماحول میں میری نظر سے جماعت اسلامی کی جانب سے کورونا وائرس کی صورتحال میں راشن پیک کا ایک پوسٹر گزرا ہے۔ میں نے پوسٹر پڑھنے کے بعد جماعت ا سلامی کے سیکریٹری جنرل امیر العظیم سے رابطہ کیا تو انھوں نے مجھے بتایا کہ کورونا کی وجہ سے ملک میں معیشت کا پہیہ رک گیا ہے۔ وزیر اعظم لاک ڈائون کریں یا نہ کریں لیکن کام بند ہو رہے ہیں۔ لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔
امیر العظیم کا موقف تھا کہ سب سے زیادہ دیہاڑی دار لوگ مزدوری کرتے ہیں۔ کورونا کے خوف سے مزدوری ختم ہو گئی ہے۔ لوگوں نے کنسٹرکشن کا کام بند کر دیا ہے۔ رنگساز بے روزگار ہو گئے ہیں۔ اس ماحول میں کوئی گھر میں رنگ کرانے کے لیے تیار نہیں۔ الیکڑیشن، پلمبر سمیت تمام دیہاڑی دار بے روزگار ہو رہے ہیں۔ ریسٹورنٹس میں لوگوں نے آنا بند کر دیا ہے۔ وہاں صفائی کا عملہ بے روزگار ہو رہا ہے۔ اس لیے معاشی لاک ڈائون شروع ہو چکا ہے۔
امیر العظیم کا موقف ہے کہ جماعت اسلامی نے راشن پیک اسکیم شروع کی ہے۔ جس کے تحت ہر ضرورت مند کو ایک ماہ کا راشن دینے کے لیے چندہ مہم شروع کی گئی ہے۔ ایک ماہ کے راشن کے لیے صرف 3500 سے پانچ ہزار روپے کا پیک بنایا گیا ہے۔ جس میں آٹا، دال، گھی، چائے، دودھ اور مصالحہ جات شامل ہیں۔ اس راشن پیک کو یہ سوچ کر بنایا گیا ہے کہ اگر آپ کو کام نہیں ملا یا آپ لاک ڈائون ہیں تو کم از کم گھر میں کھانے پینے کی کمی نہ ہو۔ میں سمجھتا ہوں یہ بہت اچھی اسکیم ہے۔ اگر ہم نے رضاکارانہ لاک ڈائون کی طرف بھی جانا ہے تو ہمیں اس راشن پیک اسکیم کو آگے بڑھانا ہوگا۔ جماعت اسلامی نے یہ ایک بہت اچھی اسکیم شروع کی ہے۔
حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ جماعت اسلامی کے ساتھ شامل ہو جائے۔ اس ضمن میں فنڈز او ر وسائل جماعت اسلامی کو مہیا کئے جائیں۔ اگر حکومت اور جماعت اسلامی ہاتھ ملا لیں تو مجھے امید ہے کہ اس معاشی لاک ڈائون میں لوگ بھوک سے نہیں مریں گے۔ ہر ضرورت مند تک یہ پیک پہنچ جائے گا۔
پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت یہ راشن پیک تقسیم کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ کوئی بھی سیاسی جماعت جب ایسی اسکیم شروع کرے گی تو سیاسی لٹیروں کی نذر ہو جائے گی۔ ان کے کارکن ہی راشن پیک گھر لے جائیں گے۔ اگر حکومتی عہدیداروں کو یہ تقسم کرنے کے لیے کہا جائے گا تب بھی یہ سفارشی کلچر کی نذر ہو جائے گی۔ جس کی سفارش ہو گی وہ لے جائے گا۔ ایسا پاکستان میں پہلی دفعہ نہیں ہو گا۔ ماضی میں اس کی بہت مثالیں موجود ہیں۔
جماعت اسلامی کو یہ اعزاز بھی حا صل ہے کہ وہ ایک سیاسی جماعت کے ساتھ ایک فلاحی جماعت بھی ہے۔ جماعت اسلامی الخدمت کے نام سے ایک بہت بڑی فلاحی تنظیم بھی چلا رہی ہے۔ جس کے تحت سیکڑوں فلاحی منصوبے جاری ہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں اسپتال چل رہے ہیں۔ حال ہی میں امیر جما عت اسلامی سراج الحق نے منصورہ اسپتال اور جماعت اسلامی کی الخدمت کے زیر اہتمام چلنے و الے دیگر تمام اسپتال کورونا کے لیے وقف کئے ہیں۔ وہاں آئسولیشن وارڈز بنائے جا رہے ہیں۔
حکومت کو پیشکش کی ہے کہ وہ جیسے چاہے ان اسپتالوں کو استعمال کر سکتی ہے۔ سراج الحق نے عوام میں آگاہی مہم بھی شروع کی ہے۔ فری ماسک بھی تقسیم کئے ہیں۔ جماعت اسلامی اس موقع پر سیاست کرنے کی بجائے عوام اور حکومت دونوں کو بتا رہی ہے، وہ آفت کی اس گھڑی میں آپ کے ساتھ کھڑی ہے۔ ہمیں یہ راشن پیک اس قدر تعداد میں مہیا کرنے چاہیے کہ سب ضرورت مندوں کو مل سکیں۔
جماعت اسلامی کو بھی چاہیے کہ وہ سب سیاسی جماعتوں سے رابطہ کرے اور انھیں اپنی اس راشن پیک اسکیم میں شامل ہونے کی دعوت دے۔ بڑی سیاسی جماعتوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ ان کے پاس ایسی راشن پیک اسکیم چلانے کا کوئی میکنزم موجود نہیں ہے۔ انھیں جماعت اسلامی کی اس خصوصی صلاحیت سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ باقی سیاسی جماعتوں کو فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پاکستان کے عوام فلاحی کاموں کی وجہ سے ووٹ نہیں دیتے۔ اگر ایسا ہوتا تو جماعت اسلامی ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بن گئی ہوتی۔
لوگوں کا ووٹ دینے کا معیار فلاحی کام نہیں ہیں۔ یہ بات جماعت اسلامی کو بھی پتہ ہے لیکن پھر بھی فلاحی کام کرنے سے باز نہیں آتی۔ جب ان سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں رضا ئے الہیٰ کے لیے کرتے ہیں۔ اس لیے اس نیک کام میں جماعت اسلامی کا ساتھ دیں۔ جب ووٹ کی باری آئے گی تو ووٹ پہلے کی طرح ہی دیجیے گا۔ حکومت کو بھی چاہیے کہ سیا سی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس کار خیر میں جماعت اسلامی کا سا تھ دے۔ یہ وقت مل کر اس مشکل کا مقابلہ کرنے کا ہے۔ کو ئی تو عمران خان کو سمجھائے کہ سیاسی لڑائی اور پوائنٹ اسکورنگ کے لیے یہ وقت مناسب نہیں۔