مولانا فضل الر حمٰن کے مارچ میں ابھی تک ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی خاموش تماشائی سے زیادہ کچھ نہیں ہیں۔ دونوں نے اس مارچ میں شرکت کے لیے کوئی تیاریاں نہیں شروع کی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے بلا شبہ اس مارچ میں شرکت کا اعلان تو کر دیا ہے لیکن کسی جگہ کوئی تیاری نہیں ہے۔ اس کے باوجود اس مارچ کے حق میں ایک عوامی رائے عامہ بن گئی ہے۔ مولانا ایک دینی جماعت کے سربراہ ہیں۔ لیکن پھر بھی عام آدمی اس مارچ سے لاتعلق نظر نہیں آرہا۔ شاید یہی عوامی رائے عامہ کا دبائو ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کو اس مارچ کی حمایت پر مجبور کر رہا ہے۔
پاکستان کی سیاست ماضی میں دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم رہی ہے۔ ملک میں سبز اور سرخ کی سیاست کی تقسیم بھی واضح رہی ہے۔ سیکولر، لبرل اور دینی سیاست کی تقسیم بھی واضح رہی ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ سیکولر اور لبرل لوگ شروع سے بائیں بازو کی سیاست سے مرعوب رہے ہیں جب کہ دینی حلقہ دائیں باز و کی سیاست کے نمایندے رہے ہیں۔
اب آہستہ آہستہ پاکستان کی سیاست میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کی تقسیم ختم ہو گئی ہے۔ ایک وقت تھا کہ پی پی پی بائیں بازو کی سیاسی جماعت سمجھی جاتی تھی جب کہ نواز شریف دینی حلقوں کے تعاون سے دائیں بازو کی سیاست کرتے تھے۔ لیکن اب تو نواز شریف بھی بائیں بازو کی سیاست کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ تا ہم پی پی پی نے کسی حد تک سیکولر اور لبرل حلقوں کے ساتھ نہ صرف اپنا رشتہ برقرار رکھا ہوا ہے۔
بلکہ وہ دینی جماعتوں سے ایک فاصلہ بھی برقرار رکھتے ہیں۔ ادھر تحریک انصاف نے بھی خود کو دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کا ایک ملغو بہ بنا لیا ہے۔ ایک طرف سیکولر اور لبرل ازم کی بات کی جاتی ہے دوسری طرف ریاست مدینہ کی بات بھی کی جاتی ہے۔ ایک طرف کہا جاتا ہے کہ سیاست میں مذہبی کارڈ استعمال نہیں ہونا چاہیے دوسری طرف کہا جاتا ہے کہ جدا ہو دین سے سیاست تو رہ جاتی ہے چنگیزی۔ لیکن پھر سیاسی جماعتوں نے دونوں رنگ ہی بوقت ضرورت استعمال کرنے شروع کر دیے تھے۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ گزشتہ دو دہائیوں میں بالخصوص مشرف کے بعد سے پاکستان میں دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کی تقسیم معدوم ہو گئی ہے۔
لیکن پھر بھی ایک تقسیم رہی تھی۔ دائیں بازو کی سیاست اسٹبلشمنٹ کی سیاست سمجھی جاتی تھی۔ یہ ایک نظریاتی اتحاد بھی تھا۔ جس میں جہاد سمیت تمام دیگر ڈاکٹرائن شامل تھیں۔ جب کہ دوسری طرف بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں اور اسٹبلشمنٹ کے درمیان ایک وسیع اور واضح اختلاف رہا۔ ترقی پسند لبرل ہمیشہ سے اغیار نمایندے رہے ہیں۔ وہ بھار ت نواز رہے ہیں۔ مغرب نواز رہے ہیں۔ اسی تناظر میں پاکستان کی دینی جماعتوں اور سیکولر لبرل کے درمیان بھی ایک اختلاف واضح رہا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے وجود کو ماننے کے لیے تیار نہیں رہے ہیں۔ ایک دوسرے کو محب وطن ماننے کے لیے تیار نہیں رہے ہیں۔ دینی طبقہ ان کو دشمن کا ایجنٹ کہتا رہا ہے جب کہ سیکولر اور لبرل انھیں اسٹبلشمنٹ کا پٹھو کہتے رہے ہیں۔ دونوں کی سوچ مختلف رہی ہے۔
لیکن آج مولا نا کے مارچ کے موقعے پر ایک نئی شکل نظر آرہی ہے۔ پاکستان کی سیاست میں دائیں اور بائیں بازو کے درمیان ایک اتحاد نظر آرہا ہے۔ دینی جماعت اور سیکولر لبرل اکٹھے چلتے نظر آرہے ہیں۔ انھیں مولانا فضل الرحمٰن کی باتیں اچھی لگ رہی ہیں۔ وہ مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ متفق نظر آرہے ہیں۔ ہم قدم نظر آرہے ہیں۔ ایک ہم آہنگی نظر آرہی ہے۔ ایسا پہلے کبھی نہیں تھا۔
آج ایک طرف ملک کی دیگر دینی جماعتیں مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ چلتی نظر نہیں آرہی ہیں۔ جماعت اسلامی سمیت دیگر جماعتیں ساتھ نہیں ہیں۔ لیکن سیکولر اور ترقی پسند طبقہ مولانا کے ساتھ آتا نظر آرہا ہے۔ ترقی پسند اور سیکولر لبرل رائے کے دانشور اور اہل قلم مولانا کے ساتھ کھڑے نظر آرہے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ستر سال سے دینی جماعتوں کی سیاست کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
ستر سال سے اس ملک کے ملا کو اسٹبلشمنٹ کا نمایندہ سمجھتے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی سیاست میں نظریاتی صف بندی ایک مرتبہ پھر تبدیل ہو رہی ہے۔ کیاپاکستان کے اداروں اور دینی حلقوں کے درمیان اتحاد ٹوٹ گیا ہے۔ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کی دینی جماعتیں بھی اب ترقی پسند نظریے کے ساتھ ہو گئی ہیں۔
میں یہ نہیں کہہ رہا کہ مولانا کے مارچ کارنگ تبدیل ہو رہا ہے۔ وہ اب بھی دینی حلقوں کا ہی مارچ ہوگا۔ اس میں علما ہی شامل ہوں گے۔ مدارس کے طلبا شامل ہونگے۔ لیکن آج ملک کا سیکولر اور ترقی پسند طبقہ بھی اس مارچ سے متفق نظر آرہا ہے۔ وہ اس مارچ کی مخالفت نہیں کر رہے بلکہ اس کو جمہوری قرار دے رہے ہیں۔ وہ اس کو پاکستان کو ایک دینی ملک بنانے کی سازش نہیں قرارد ے رہے بلکہ اس مارچ کو اپنے ترقی پسند اور جمہوری ایجنڈ ے سے ہم آہنگ سمجھ رہے ہیں۔
ان کی خا موش حمایت نے اس مارچ کو سیاسی اور نظریاتی طور پر ایک نیا رنگ دے دیا ہے۔ ایسا پاکستان کی سیاست میں پہلے نہیں ہوا ہے۔ شاید مارشل لاء کے خلاف جدو جہد میں بھی یہ دونوں طبقہ اکٹھے چلتے نظر نہیں آئے ہیں۔ ضیا ء الحق کو دینی طبقوں کی حما یت حا صل تھی۔ جب کہ سیکولر اور ترقی پسند زیر عتاب ہی رہے۔ مشرف بلا شبہ خود کو ترقی پسند لبرل ظاہر کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن ان کا سیاسی اتحاد بھی ایم ایم اے کے ساتھ ہی ممکن ہوا تھا۔
مارچ کامیاب ہوگا کہ نہیں؟ اس کے اہداف کیا ہیں؟ دھرنا ہو گا کہ نہیں؟ یہ مارچ عمران خان کے خلاف ہے یا اسٹبلشمنٹ کے خلاف؟ کیا مارچ سے پہلے گرفتاریاں ہو جائیں گی؟ کیا مولانا کے ساتھ سارے کھوٹے سکے ہوں گے؟ کیا یہ مارچ صرف جے یو آئی کا ہی ہوگا، باقی سب نام کے ساتھ ہوں گے؟ کیا مولانا واقعی اتنی بڑی تعداد میں لوگ لے آئیں گے؟ کیا واقعی جب مولاناسندھ سے پنجاب آئیں گے تو ان کے ساتھ لا کھوں لوگ ہوں گے؟
کیا اکیلے پنجاب کی حکومت کو اس مارچ کو روکنے کی ذمے داری دینا جائز ہے؟کیا حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات سے کوئی راہ نکلنا ممکن ہے؟ کیا بیک چینل پر جو مذاکرات ہو رہے ہیں ان سے کوئی نتائج نکلنا ممکن ہے؟ کیا حکومت کی سیاسی تنہائی ختم ہونا ممکن ہے؟ کیا پنجاب یہ بوجھ اٹھانے کا متحمل ہو سکتا ہے؟کیا پنجاب سے لوگ نکل آئیں گے؟ کیا اسلام آباد پہنچ سکیں گے؟ کیا بات راستے میں طے ہو جائے گی؟کو ن طے کرے گا؟کیا مولانا اکیلے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہیں؟ کیا یہ آخری معرکہ ہوگا؟
ایسے ان گنت سوال ملک کے سیاسی منظر نامہ کے ارد گرد گھوم رہے ہیں۔ ہر کوئی خواہشوں کے سمندر میں حقیقت تلاش کر رہا ہے۔ مولانا نظر بند ہو جائیں گے تو کیا ہوگا۔ کیا عمران چلے جائیں گے۔ کہاں ڈیل ہوگی۔ کن شرائط پر ڈیل ہوگی۔ شاید حقیقت کا کسی کو بھی علم نہیں۔ سب ہی فلم دیکھ رہے ہیں۔ لیکن دائیں اور بائیں بازو کا یہ اتحاد نیا ہے۔ ترقی پسند اور دینی طبقوں کے درمیان ہم آہنگی نئی ہے۔ بس یہی خبر ہے۔