حکومت نے ہتک عزت کے نئے قوانین بنائے ہیں۔ نئے قوانین کے تحت ایف آئی اے کو خصوصی اختیار دیے گئے ہیں۔ ایک تاثر دیا جا رہا ہے کہ جھوٹی خبروں اور فیک نیوز کو قابل دست اندازی جرم بنایا جا رہا ہے۔
نئے قانون کے تحت اب ایف آئی اے کے پاس جھوٹی خبر اور فیک نیوز پر نہ صرف ایف آئی آر کے اندراج کا اختیار ہوگا بلکہ گرفتاری کے بھی اختیارات حاصل ہونگے۔ اس کے ساتھ ساتھ متاثرہ شخص کی تعریف بھی تبدیل کی جا رہی ہے اور اداروں کو بھی شکایت درج کروانے کے اختیارات دیے جا رہے ہیں۔
جو لوگ پاکستان میں ہتک عزت کے قوانین کے بارے میں جانتے ہیں کہ پاکستان میں ہتک عزت کے فوجداری قوانین پہلے سے موجود ہیں۔ تاہم متاثرہ شخص جو سمجھتا ہے کہ اس کے بارے میں فیک نیوز چلائی گئی ہے وہ ایڈیشنل سیشن جج کی عدالت میں فوجداری استغاثہ دائر کر سکتا ہے جس کے تحت سات سال تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ فوجداری استغاثہ ایک فوجداری مقدمہ کی طرح چلتا ہے اور اس کے نتیجے میں سزا ہوتی ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ پاکستان میں عدالتیں ایسے فوجداری استغاثہ زیادہ توجہ سے نہیں سنتی ہیں اور نہ ہی ایسے استغاثوں کے فوری فیصلے ہوتے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ نئے قانون سے پہلی دفعہ ہتک عزت کو فوجداری قانون میں لایا جا رہا ہے درست نہیں ہے۔ جھوٹی اور فیک نیوز کے حوالہ سے ایک فوجداری قانون پہلے سے موجود ہے۔
سوال یہ ہے کہ حکومت ایک قانون کی موجودگی میں نیا قانون کیوں بنا رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں ہتک عزت جھوٹی اور فیک نیوز کے حوالہ سے فوجداری قانون میں سزا تو موجود ہے لیکن فوری گرفتاری کا کوئی راستہ موجود نہیں ہے۔ آپ استغاثہ دائر کرتے ہیں تو ٹرائل شروع ہوجاتا ہے جس پر جھوٹی اور فیک نیوز چلانے کا الزام ہوتا ہے۔ وہ عدالت سے ضمانت حاصل کرتا ہے لیکن گرفتاری کا کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔
نئے قانون کے تحت جہاں تک مجھے سمجھ آئی ہے یہ طے کیے بغیر کہ خبر جھوٹی تھی یا سچی ایف آئی اے کے پاس گرفتاری کا اختیار آجائے گا۔ ایف آئی اے جھوٹی خبر کے الزام کے تحت کسی بھی صحافی یا بلاگر کو گرفتار کر سکے گی۔ وہ ضمانت کروائے گا، جیل جائے گا۔ یہ سب کچھ کسی عدالت سے طے ہوئے بغیر ہوگا کہ خبر جھوٹی تھی یا نہیں۔
اس سے پہلے جو فوجداری قانون موجود ہے اس میں صحافی یا بلاگر کو جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ خبر جھوٹی تھی یا نہیں جیل نہیں بھیجا جا سکتا۔ اس لیے اب حکومت کو صحافیوں کو فوری گرفتار کرنے اور جیل بھیجنے کا ایک اختیار حاصل ہو جائے گا۔ ایک دفعہ گرفتاری تو ہو جائے گی، جو تنگ کرے گا اسے پکڑا تو جا سکے گا۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو حکومت کے پاس بے گناہ صحافیوں کو جیل بھیجنے اور گرفتار کرنے کا ایک ہتھیار حاصل ہو جائے گا۔ وہ جب چاہے گی جس کو چاہے گی گرفتار کر لے گی۔ یہ بعد میں ٹرائل میں طے ہوتا رہے گا کہ کیا خبر واقعی جھوٹی تھی یا نہیں۔ لیکن گرفتاری اور ذلت تو ہو جائے گی۔ کیا ٹرائل سے پہلے گرفتاری درست اقدام ہے۔ میں سمجھتا ہوں نہیں۔ اس سے نہ تو حکومت کو کوئی نیک نامی حاصل ہوگی اور نہ ہی ملک کی نیک نامی ہوگی۔ اس سے پاکستان میں صحافت مزید مشکل ہو جائے گی اور اس کو عالمی سطح پر بھی ایک کالا قانون ہی کہا جائے گا۔
میں سمجھتا ہوں فیک نیوز اور جھوٹی خبریں آج کا اہم مسئلہ ہے۔ اس کو کسی بھی صورت نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ سوشل میڈیا کی جدت نے اس مسئلہ کو بہت گھمبیر بنا دیا ہے۔ اس لیے سوشل میڈیا کو قانون کے دائر ے میں لانے کی فوری ضرورت ہے۔ لیکن سوشل میڈیا کو قانون کے دائرے میں لانے کی بات سے کسی بھی صورت اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اس چکر میں صحافیوں کی گرفتاریوں کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
سوشل میڈیا کی غلط پوسٹوں کے ساتھ بھی اسی طرح نبٹنے کی ضرورت ہے جیسے غلط خبروں کے ساتھ نبٹنے کی ضرورت ہے۔ جب تک یہ طے نہ ہو جائے کہ خبر جھوٹی تھی پوسٹ جھوٹی تھی کسی بھی قسم کی گرفتاری انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہو گی اور اس کی کسی بھی صورت حمایت نہیں کی جا سکتی ہے۔
پاکستان کے نظام انصاف کو فعال کرنے کی ضرورت ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے عدالتوں کو احساس دلایا جا سکے کہ ہتک عزت کے مقدمات کا فوری فیصلہ ایک مہذب معاشرہ کے لیے ناگزیر ہے۔ جس طرح انسان کا قتل ایک گھنائونا جرم ہے اسی طرح کسی بھی انسان کی عزت کا قتل بھی اس کے قتل سے کم جرم نہیں۔ ویسے تو ہمارے نظام انصاف میں قتل کے مقدمات بھی کئی کئی سال چلتے ہیں لیکن ہتک عزت کے مقدمات کا بھی اللہ ہی حٖافظ ہے۔
ابھی تو صورتحال یہ ہے کہ مدعی ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرے خود ہی مشکل میں پھنس جاتا ہے۔ اسے انصاف ملنے کی کوئی امید نہیں ہوتی۔ مقدمہ کئی کئی سال چلتا ہے اور اس دوران جھوٹی خبر دینے والا قانون اور عدلیہ کا مذاق بناتا رہتا ہے۔ اس لیے حکومت کو چاہیے کہ ایسی عدالتی اصلاحات سامنے لائے جس میں انصاف کا حصول آسان اور جلد از جلد ممکن ہو سکے۔ انصاف میں تاخیر انصاف کا قتل ہے اور ہمارے عدالتی نظام میں روزانہ تاخیری ہتھکنڈوں سے انصاف کا خون ہوتا ہے۔ ضرورت اس کو ٹھیک کرنے کی ہے لیکن حکومت دوسری طرف چل پڑی ہے۔
آپ یقین کریں ایک دفعہ ملک میں جھوٹی اور فیک نیوز پر عدالت سے سزائوں کا عمل شروع ہو گیا ملک میں خود بخود سچ کا بولا بالا ہو جائے گا۔ صحافی بھی احتیاط کرنے لگیں گے اور ادارے بھی محتاط ہو جائیں گے۔ لیکن جس طرح کے قوانین بنائے جا رہے ہیں یہ مسائل کا حل نہیں ہے۔
میں سمجھتا ہوں قانون میں نہ تو کسی فرد اور نہ ہی کسی ادارے کو مقدس گائے کی حیثیت حاصل ہونی چاہیے۔ قانون کی نظر میں سب برابر ہونے چاہیے۔ اداروں کی عزت کے لیے خصوصی قانون سازی سے ان کی عزت کی یقین دہانی نہیں کروائی جا سکتی۔ اداروں کا کام ان کی عزت کی یقین دہانی کروانا ہو سکتا ہے۔ ڈنڈے سے کسی ادارے کی عزت آج ممکن نہیں۔ لوگوں کے پاس اظہار رائے کے بہت سی آپشن موجود ہیں۔ آپ کس کس کو گرفتار کریں گے۔ گرفتاریاں مسائل کا حل نہیں۔ قانون کی بالادستی مسائل کا حل ہے۔
قانون میں اس منطق کی بھی بہت اہمیت ہے کہ صرف متاثرہ شخص ہی انصاف کے حصول کے لیے قانون کے دروازے پر دستک دے سکتا ہے۔ جب تک آپ متاثرہ شخص نہیں ہیں آپ قانون کے دروازے پر دستک نہیں دے سکتے۔ یہ شق ختم کرنا بھی انصا ف کے بنیادی اصولوں کی خلاف ورزی ہوگی۔ کسی کو بھی کسی کے خلاف مقدمہ کرنے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ جس کے بارے میں خبر ہے صرف وہی ہتک عزت کی کارروائی کر سکتا ہے۔
کسی تیسرے شخص کو نہ تو حقائق کا علم ہوتا ہے اور نہ ہی اسے مقدمہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔ اس طرح تو بے نامی مقدمات کی بھر مار ہو جائے گی۔ حکومت کسی کی طرف سے بھی مقدمہ درج کر کے گرفتاری شروع کر دے گی۔ بعد میں معلوم ہو گا کہ اسے بھی خبر کے حقائق کا کچھ علم نہیں تھا۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو موجودہ قانون سازی کو کالا قانون ہی کہا جائے گا۔ اس سے حکومت کو گرفتاری کا حق تو مل جائے گا لیکن انصاف کا بول بالا نہیں ہوگا۔