پاکستان اور آئی ایم ایف کے مذاکرات پہلی سطح پر کامیاب نہیں ہو سکے ہیں۔ پاکستان نے آئی ایم ایف سے مذاکرات سے پہلے آئی ایم ایف کے مطالبات کافی حد تک پورے کرنے کی کوشش کی تا ہم آئی ایم ایف نے ان اقدمات کو ناکافی قرار دے دیا ہے۔
اسی لیے پہلی سطح پر ہی مذاکرات پھنس گئے ہیں۔ شوکت ترین کی بقا کے لیے آئی ایم ایف سے مذاکرات کی کامیابی ناگزیر ہے۔ اگر وہ ناکام ہو گئے تو صاف نظر آرہا ہے کہ ان کی چھٹی ہو جائے گی۔
شوکت ترین نے وزارت خزانہ کامنصب سنبھالنے کے بعد قوم کو نوید سنائی تھی کہ اب پاکستان کو آئی ایم ایف کی زیادہ ٹیکس لگانے والی شرائط ماننے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم آئی ایم ایف کے اہداف زیادہ ٹیکس، مہنگی بجلی اور مہنگائی کے بغیر ہی پورے کر لیں گے۔
آئی ایم ا یف نے قسط بھی جاری نہیں کی لیکن اپنے پروگرام کو بھی ختم نہیں کیا۔ انھوں نے بظاہر شوکت ترین کو وقت دے دیا کہ ان کے پاس جادو کی جو چھڑی ہے وہ چلا کر دیکھ لیں۔ اگر وہ اگلے چھ ماہ میں آئی ایم ایف کے اہداف احاصل کر لیتے ہیں تو ان کے ساتھ پروگرام ان کی شرائط پر جاری رکھ لیا جائے گا ورنہ انھیں آئی ایم ایف کی شرائط ماننا ہوں گی۔ اسی بنیاد پر بجٹ پیش کیا گیا۔ شوکت ترین نے کہا کہ اب وہ آئی ایم ایف سے ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔
لیکن آج چھ ماہ بعد وہ دوبارہ آئی ایم ایف کے کٹہرے میں کھڑے نظر آرہے ہیں، وہ اپنے وعدے پورے نہیں کر سکے ہیں۔ انھوں نے جو دعویٰ کیے تھے وہ سب جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ وہ آئی ایم ایف کی شرائط پوری کیے بغیر آئی ایم ایف کے اہداف حاصل کرنے میں ناکام نظر آرہے ہیں۔ ویسے توشکست شوکت ترین نے آئی ایم ایف کے پا س جانے سے قبل ہی تسلیم کر لی تھی۔ اسی لیے آئی ایم ایف کے پاس جانے سے قبل ہی بجلی مہنگی کر دی گئی تھی۔
پٹرول کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا گیا۔ اندازہ یہی تھا کہ ان اقدامات کے بعد آئی ایم ایف نرم ہو جائے گا اور قسط جاری کر دے گا۔ ویسے تو چھ ماہ قبل بھی آئی ایم ایف نے قسط جاری نہیں کی تھی تاہم وقت دے دیا تھا لیکن اب شاید وہ نہ تو قسط اور نہ ہی وقت دینے کے لیے تیار ہیں۔
آئی ایم ایف قسط جاری کرنے سے پہلے ساڑھے پانچ سو ارب کے مزید ٹیکس لگانا چاہتا ہے۔ بجلی کی قیمت میں بھی مزید اضافہ چاہتا ہے۔ ان اقدمات کے بغیر ہم ملک میں ٹیکس کی آمدن بڑھانے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ اس لیے آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ ان کے بغیر ممکن نہیں۔ بجلی کی قیمت میں جو اضافہ کیا گیا ہے وہ ناکامی قرارد یا جا رہا ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ شوکت ترین سے پہلے حفیظ شیخ نے یہ تمام وعدے پورے کرنے کے حوالے سے آئی ایم ایف کے ساتھ اسی سال مارچ میں ایک معاہدہ کیا تھا، پھر انھیں تبدیل کر دیا گیا اور نئے وزیر خزانہ شوکت ترین نے آئی ایم ایف کو کہانی سنائی کہ ان کے پاس جادو کی چھڑی ہے، اس لیے اس معاہدہ پر عمل کی ضرورت نہیں ہے۔ پھر چھ ماہ بعد جب جادو کی چھڑی نہیں چلی تو اب ہم آئی ایم ایف کے سامنے بطور بھکاری کھڑے نظر آرہے ہیں۔
دیکھا جائے تو اگر چھ ماہ قبل ہی آئی ایم ایف کی شرائط مان لی جاتیں تو عمران خان کے لیے سیاسی طور پر بہتر تھا، انھیں شاید کم نقصان ہوتا۔ لیکن اب ان کی حکومت کے لیے آئی ایم ایف کا مزید بوجھ برداشت کرنے کا وقت نہیں رہا ہے، چھ ماہ قبل وہ سیاسی طورپر بہتر پوزیشن میں تھے، آج مشکل میں ہیں۔ ایسے میں آئی ایم ایف کی سخت شرائط ان کی مشکلات میں مزید اضافے کا ہی باعث بنیں گی۔
شوکت ترین آئی ایم ایف سے مذاکرات نا مکمل چھوڑ کر واشنگٹن سے نیویارک چلے گئے ہیں، لیکن جب مذاکرات کی ناکامی کی خبریں ہر طرف پھیل گئیں تو فائر فائٹنگ شروع کر دی گئی، اب کہا جا رہا ہے کہ مذاکرات ابھی جاری ہیں اور کب تک جاری رہیں گے، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ دوسری طرف شوکت ترین کی وزارت خزانہ کی مدت بھی ختم ہو گئی ہے اور اب وہ پھر مشیر خزانہ بن گئے ہیں کیونکہ وہ ایم این اے بن سکے اور نہ ہی سینیٹر۔ اس وقت وہ بھی آئی ایم ایف کے پروگرام کی طرح ہوا میں معلق نظر آرہے ہیں۔
حکومت انھیں بروقت سنیٹر منتخب کرانے میں بھی ناکام رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ کوئی بھی ان کے لیے اپنی سیٹ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس کا بھی کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے دوران انھیں مضبوط کرنے کے بجائے کمزور کیوں گیا ہے۔
اگر آئی ایم ایف کی مزید شرائط مان کر ہی قسط حاصل کی گئی تو یہ بھی شوکت ترین کی ناکامی ہی ہو گی۔ یہ کام تو حفیظ شیخ زیادہ بہتر انداز میں کر رہے تھے۔ انھوں نے تجارتی خسارہ بھی کنٹرول کیا ہوا تھا۔ کسی حد تک روپے کی قدر کو بھی کنٹرول کیا ہوا تھا۔ لیکن شوکت ترین کے تجربات نے تجارتی خسارے میں بھی بے پناہ اضافہ کر دیا، روپے کو غیر مستحکم کر دیا اور آئی ایم ایف کی تمام شرائط کو ماننے پر بھی مجبو رکر دیا۔ یہ تو سو چھتر اور سو گنڈے کھانے والی بات ہو گئی۔
آئی ایم ایف کا یہ پروگرام عمران خان حکومت کی ناکامی کی بنیاد بن گیا ہے۔ ویسے تو عمران خان خود مان چکے ہیں کہ ان کی حکومت نے آئی ایم ایف کے پروگرام میں جانے میں تاخیر کی جس کی وجہ سے بہت نقصان ہوا۔ اسد عمر کی چھٹی بھی اسی بنیاد پر ہوئی تھی۔ لیکن اب دوبارہ پہلے والی غلطی کر دی گئی۔ یہ چھ ماہ پھر ضایع کیے گئے ہیں اور آئی ایم ایف کی شرائط کو خوامخواہ مزید سخت کرا لیا گیا۔ معاشی معاملات میں تاخیر کس قدر نقصان دہ ہو سکتی ہے، یہ بات عمران خان سے بہتر اب کون جانتا ہوگا۔
آئی ایم ایف سے مذاکرات ناکام نہیں ہوئے۔ صرف آئی ایم ایف نے ہماری بات ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ اپنی بات منوانے پر بضد ہیں۔ اس بار وہ پہلے شرائط منوانا چاہتے ہیں بعد میں قسط جاری کی جائے گی۔ اس لیے اگر عمران خان نے آئی ایم ایف کی بات مان لی تو بھی یہ سیاسی طور پر زہر قاتل ہو گا اور اگر مذاکرات نہیں مانے تو اس کے نتائج بھی بہت بھیانک ہوں گے۔ اس لیے دیکھا جائے تو شوکت ترین نے انتہائی قیمتی چھ ماہ ضایع کر دیے ہیں اور حکومت کو بند گلی میں لا کر کھڑا کر دیا ہے۔ ایک طرف اپوزیشن سڑکوں پر اور دوسری طرف مزید مہنگائی سے نبٹنا آسان نہیں ہوگا۔