اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے کشمیر مارچ کی وہ بازگشت سنائی نہیں دی جو دی جانی چاہیے تھی۔ یہ درست ہے کہ جماعت اسلامی ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ اسلام آباد میں جمع کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ شاید لوگوں کی تعداد مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے آزادی مارچ میں جمع کیے جانے والے لوگوں کی تعداد سے کم نہیں تھی۔ لیکن اس کے باوجود گونج بہت کم تھی۔ بے شک جماعت اسلامی کو بھی کشمیر کے لیے آواز بلند کرنے کے لیے ڈی چوک کی اجازت نہیں ملی بلکہ انتظامیہ نے درخواست کی کہ وہ ڈی چوک سے ایک چوک پیچھے یہ مارچ کر لیں۔
سراج الحق اور امیر العظیم نے خاموشی سے انتظامیہ کی جانب سے ڈی چوک سے ایک چوک پیچھے کشمیر مارچ کرنے کی اجازت مان لی۔ اگر وہ ایک نقطہ پر ٹکراؤ کی کیفیت پیدا کر لیتے اور ایک دھواں دار پریس کانفرنس داغ دیتے کہ اگر ڈی چوک کی اجازت نہیں ملی تو یہ کشمیر سے غداری ہو گی۔
حکومت ڈی چوک کی اجازت نہ دے کر مودی سے یاری نبھا رہی ہے۔ مودی کے اشارے پر ڈی چوک کی اجازت دینے سے روکا گیا ہے۔ ہم اس ملک میں مودی کی پالیسیاں نہیں چلنے دیں گے۔ یوں ملک میں اس مارچ کی دھوم مچ جاتی لیکن یہاں بھی سراج الحق اور امیر العظیم کی شرافت آڑے آگئی۔ دونوں نے شرافت سے ایک چوک پیچھے ہی کشمیر مارچ کرنے پر مان لیا۔ اور اس طرح یہ مارچ قومی منظر نامے پر وہ اہمیت حاصل نہیں کرسکا جس کی اس سے امید تھی۔ جب تک تنازعہ نہ پیدا ہو اہمیت نہیں بن سکتی۔
مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ کے موقع پر حکومت کا موقف تھا کہ آزادی مارچ دراصل کشمیر کے مسئلہ سے توجہ ہٹانے کی مودی کی سازش تھی۔ جونہی اپوزیشن کوئی بھی سیاسی سرگرمی کرتی ہے تو حکومت کا یہ بیانیہ سامنے آجاتا ہے کہ یہ کشمیر پر توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ لیکن جماعت ا سلامی کے کشمیر مارچ سے حکومت نے ایسے آنکھیں پھیر لیں جیسے حکومت کا کشمیر ما رچ سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا۔ شاید حکومت کا اندازہ تھا کہ جماعت اسلامی کا کشمیر مارچ دراصل ان کی کشمیر پالیسی کا پوسٹ مارٹم کرنے کے لیے ہو رہا ہے۔
ا س میں حکومت کی کشمیر پالیسی کی خامیوں کو اجاگر کیا جائے گا۔ اسی لیے حکومت نے بھی ایک شعوری کوشش کی کہ کسی طرح اس مارچ کو اہمیت نہ مل سکے۔ اس طرح اس مارچ کی گونج روکنے کی تالی دونوں ہاتھوں سے ہی بجی ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ کچھ شہر کے لوگ بھی لوگ ظالم تھے کچھ انھیں بھی مرنے کا شوق تھا۔
شاید کہیں نہ کہیں اس مارچ کو توجہ نہ ملنے میں جماعت اسلامی حکمت عملی کا بھی قصور ہے۔ ایک دور میں جماعت اسلامی اپنے پروگراموں کی تشہیر میں بہت دلچسپی لیتی تھی۔ دیگر بڑی سیاسی جماعتیں بھی جماعت اسلامی کی اس مہارت کی نہ صرف قائل تھیں بلکہ اس سے حسد بھی کرتی تھی۔
قاضی حسین احمد کے دور میں جماعت اسلامی کی سرگرمیاں قومی منظر نامہ کا محور رہتی تھیں۔ قاضی حسین احمد کی بات مرکز نگاہ میں رہتی تھی۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ جماعت اسلامی کی سیاسی قوت میں کمی ہوئی ہے۔ لیکن اگر اس بات کا ہی تقابلی جائزہ لیا جائے قاضی حسین احمد کے دور میں بھی کبھی جماعت اسلامی بہت بڑی سیاسی قوت نہیں رہی ہے۔ انتخابات کے بائیکاٹ کیے گئے۔ پارلیمنٹ سے باہر رہ گئے لیکن جماعت اسلامی قومی منظر نامہ پر اپنی اہمیت برقرار رکھنے میں کامیاب رہی۔ شائد اب جماعت اسلامی میں میڈیا پر وہ توجہ بھی نہیں رہی جو تب رہتی تھی۔ تب ایسی سرگرمیوں کے دعوت نامہ آتے تھے ساتھ لیجانے کی ضد کی جاتی تھی۔ لیکن اب وہ تمام روایات ختم ہو گئی ہیں۔
مارچ سے ایک دن قبل میں نے تجسس میں سیکر ٹری جنرل امیر العظیم صاحب کو فون کیا اور مذاق میں پوچھا کہ مارچ صرف ایک دن کا ہے یا بیٹھنے کا بھی ارادہ ہے۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے ابھی ایک دن کا ہی پروگرام ہے۔ لیکن ہم مقبوضہ کشمیر میں سید علی گیلانی اور حریت کانفرنس کے دیگر رہنماؤں سے بالواسطہ رابطہ میں ہیں۔ گو کہ بھارتی حکومت کی جانب سے ان پر پابندیاں عائد ہیں اور رابطہ آسان نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی بات ایک دوسرے تک پہنچ جاتی ہے۔ ہم نے ان سے اگلے لائحہ عمل کی بات کی ہے۔ اس ضمن میں یہ مارچ پہلا مرحلہ ہے۔
کشمیر آہستہ آہستہ حکومت کے ایجنڈے میں پیچھے جا رہا ہے۔ اس لیے ہم کشمیر کو دوبارہ مرکزی نقطہ کے طور پر سامنے لانا چاہتے ہیں۔ لیکن کشمیر پر اسلام آباد کی پالیسی سے اختلاف ہے۔ ہم اس کو ایک کمزور پالیسی سمجھتے ہیں۔ امیر العظیم کی بات سے یہی تاثر مل رہا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کی قیادت بھی اسلام آباد کی کشمیر پالیسی سے کوئی خاص خوش نہیں ہیں۔ ان کی توقعات بھی پوری نہیں ہوئی ہیں۔ وہاں بھی اضطراب موجود ہے۔
اس لیے امیر العظیم کا موقف تھا کہ ابھی تو ہم واپس چلے جائیں گے۔ لیکن جونہی سری نگر سے کال دی جائے گی ہم اسلام آباد کی دوبارہ کال دیں۔ وہ کال وہاں بیٹھنے کے لیے ہوگی۔ اس کال کی آواز سری نگر سے آئے گی۔ ہم اس پر لبیک کہیں گے۔ آج ہم اس کال کے لیے نہ صرف ماحول بنا رہے ہیں بلکہ آپ ہمارے اس کشمیر مارچ کو اس کی تیاری بھی کہہ سکتے ہیں۔
امیر العظیم کی بات میں بہت وزن تھا۔ اگر کوئی کال سری نگر سے جائے اور اس کو پاکستان میں لبیک کہا جائے گا تو کیا ہوگا۔ پھر حکومت کا کیا یہی موقف ہوگا کہ وہ مارچ اور دھرنا بھی کشمیر پر توجہ ہٹانے کے لیے دیا جا رہا ہو گا۔ کیا علی گیلانی اور حریت کانفرنس کی کال کو بھی مودی کی سازش ہی قرار دیا جائے گا۔ اور اس کو بھی کشمیر کے خلاف سازش ہی قرار دیا جا ئے گا۔ ہمیں شاید احساس نہیں کہ عمران خان کی حکومت کی اب تک کی کارکردگی سے مقبوضہ کشمیر میں شدید اضطراب پایا جا رہا ہے۔ ایک آدھ دن احتجاج کے بعد حکومت غائب ہو گئی ہے۔ کہاں گیا وہ ہفتہ وار احتجاج۔ کہاں گئے وہ کشمیر کے وکیل۔
ہم سراج الحق اور امیر العظیم کی حکمت عملی کو سمجھ نہیں سکے ہیں۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ جماعت اسلامی آزادی کشمیر کی وکیل خاص ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان کی کسی بھی حکومت نے کشمیر کمیٹی کی سربراہی کبھی بھی جماعت اسلامی کو نہیں دی۔ اس کی بھی وجہ یہی رہی کہ جماعت اسلامی حقیقی وکیل تھی۔ جماعت اسلامی نے کشمیر کی آزادی کے لیے اپنے جوانوں کا خون دیا ہے۔ منصورہ میں رہنے والے سرکردہ رہنماؤں کے جوان بچوں کی نامعلوم قبریں کشمیرمیں ہیں۔ اور انھیں آج بھی اس پر فخر ہے۔
اس لیے عام آدمی کے لیے جماعت اسلامی کے لیے مسئلہ کشمیر کی اہمیت سمجھنا مشکل ہے۔ میں اب بھی سمجھتا ہوں کہ مقبوضہ کشمیر کی قیادت کو جو اعتماد اور یقین جماعت اسلامی پر ہے وہ پاکستان کی حکومت پر نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کی آزادی کشمیر کی جدو جہد پاکستان کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی مقید نہیں رہی ہے۔ تا ہم دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کی حریت قیادت کے ساتھ ملکر کشمیر کی ایک نئی تحریک کی تیاری کر رہی ہے۔ جس کے مقصد میں دہلی کے ساتھ ساتھ اسلام آباد کو جھنجھوڑنا بھی شامل ہو گا۔ یہ کب اور کیسے ہوگا۔ اس کی ٹائمنگ کیا ہوگی۔ اس کے بارے میں کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔