Saturday, 16 November 2024
  1.  Home/
  2. Express/
  3. Lahore Ke Jalse Ke Baad Ka Manzar Nama

Lahore Ke Jalse Ke Baad Ka Manzar Nama

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لاہور کے جلسہ کے بعد آگے کا کوئی لائحہ عمل نہیں دیا ہے۔ عوام کو بس اسلام آباد کی طرف اگلی کال کا انتظار کرنے کا کہہ دیا گیا ہے۔ لیکن اس کی نہ تو کوئی تاریخ دی گئی ہے اور نہ ہی اس کال کے کوئی خدوخال بیان کیے گئے ہیں۔

ویسے بھی آگے موسم بتا رہا ہے کہ کم از کم اگست ستمبر تک اسلام آباد کی طرف مارچ ممکن نہیں ہے۔ مئی جون جولائی کی گرمی اسلام آباد کی طرف مارچ کے لیے موزوں نہیں ہے۔ اس لیے عمران خان کو علم ہے کہ موسم کسی لمبے مارچ اور دھرنے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ انتظار کے سوا ان کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔

جہاں تک لاہور کے جلسہ کا تعلق ہے تو یہ ایک اچھا جلسہ تھا۔ لیکن ایسا نہیں تھا کہ یہ کوئی بہت بڑا جلسہ تھا۔ بلکہ غیر جانبدار مبصرین کے خیال میں یہ لاہور میں ہونے والے بڑے جلسوں میں سے ایک نہیں ہے۔

اس سے بڑے جلسہ بھی لاہور میں ہوئے ہیں۔ بلکہ خود عمران خان نے لاہور میں جو پہلا جلسہ کیا تھا وہ اس سے بڑا تھا۔ وہ اپنے ہی جلسہ کے ریکارڈ نہیں توڑ سکے ہیں۔ اس لیے یہ ایک اچھا جلسہ تھا۔ لیکن ایسا نہیں تھا کہ اس جلسہ کے بعد حکومت کی کانپیں ٹانگنے لگ جائیں۔ اسی لیے عمران خان کے حامی اس جلسہ کے بجائے ماضی کے جلسہ کی تصاویر شیئر کرتے نظر آئے۔ کیونکہ وہ جلسہ اس سے بڑا تھا۔

لاہو رکا جلسہ کیا ان کی احتجاجی تحریک کا اختتام ہے۔ کیا اس کے بعد وہ خاموشی سے گھر بیٹھ جائیں گے۔ بظاہر ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ اس طرح اتنے بڑے تین جلسوں کے بعد گھر بیٹھ جانے سے ان کی مقبولیت کو بہت نقصان ہوگا۔ لوگوں کا جوش ٹھنڈا ہو جائے گا۔ جب لوگ ٹھنڈے ہو جائیں گے تو پھر بات سازش سے کارکردگی پر چلی جائے گی۔ اس لیے عمران خان نے جس تیزی سے اپنی تحریک کا ٹمپو بنایا ہے۔

انھیں اسے قائم بھی رکھنا ہوگا۔ ٹمپو گرنا ان کے لیے سیاسی طور پر زہر قاتل سے کم نہیں ہوگا اور اس سے ان کے لیے سیاسی مسائل میں اضافہ ہو جائے گا۔ اس لیے ویسے تو عمران خان کو سیاسی درجہ حرارت اتنا بڑھانا ہی نہیں چاہیے تھا۔ لیکن اب جب انھوں نے بڑھا لیا ہے تو اس کا گرنا ان کے لیے سیاسی نقصان کا باعث ہو گا۔

جب عمران خان نے حکومت سے نکلنے کے بعد پشاور میں پہلا جلسہ کیا تھا۔ تب ہی سیاسی تجزیہ نگار یہ سوال کر رہے تھے کہ عمران خان کب تک اور کہاں تک کھیلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگر وہ ملک میں جلد از جلد انتخابات کے خواہاں ہیں۔ تو کیا یہ جلسے حکومت کو ملک میں قبل از وقت انتخابات کے اعلان پر مجبور کر دیں گے۔

ہم نے دیکھا کہ پشاور اور کراچی کے جلسوں کے بعد حکومت کی یہی حکمت عملی سامنے آئی کہ انھیں ملک میں انتخابات کروانے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔ اس کے بعد سوال یہی تھا کہ اب عمران خان حکومت کو جلد از جلد انتخابات کے لیے کیسے مجبور کریں گے۔ یہ جلسے اس کے لیے کافی نہیں ہیں۔ انھیں ان جلسوں سے بڑھ کر کچھ ایسا بڑا کرنا پڑے گا کہ حکومت ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے۔ لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا ہے۔

اگر عمران خان ناکام ہو جاتے ہیں۔ اور حکومت اپنی سیاسی حکمت عملی میں کامیاب ہو جاتی ہے تو پھر عمران خان کو حکومت کے سامنے سیاسی طور پر گھٹنے ٹیکنے پڑ سکتے ہیں۔ کیا ناکامی کے بعد عمران خان دوبارہ پارلیمنٹ میں چلے جائیں گے۔ جیسے 2014میں اپنے کنٹینر اور دھرنے کی ناکامی کے بعد وہ دوبارہ پارلیمنٹ میں چلے گئے تھے۔

عمران خان نظام کو مفلوج اور ایک آئینی بحران پیدا کرنے کی بھی بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔ وہ موجودہ حکومت کی راہ میں ہر رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ حکومت کو یہ باور کروا سکیں کہ وہ نظام حکومت نہیں چلا سکتی۔ اس لیے اس کے پاس انتخابات کی طرف جانے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔

آپ دیکھیں صدر مملکت عارف علوی بھی یہی کر رہے ہیں۔ گورنر پنجاب کی سمری اور دیگر صوبوں میں گورنر کی تقرری جیسے وہ روک رہے ہیں وہ ایک شعوری کوشش ہے کہ نظام کو مفلوج کیا جائے۔ لیکن عمران خان کو اندازہ ہونا چاہیے کہ دوسری طرف بھی بہت تجربہ کار کھلاڑی ہیں۔ ان میں صبر بھی عمران خان سے زیادہ ہے۔ انھیں علم ہے کہ صدر ایک مقررہ مدت تک ہی کوئی چیز روک سکتے ہیں۔

اس لیے وہ انتظار کر لیں گے۔ اسی لیے ہم نے دیکھا کہ صدر عار ف علوی نے پہلے وزیر اعظم اور کابینہ سے حلف لینے سے معذرت کی۔ لیکن جب انھیں اندازہ ہوا کہ زیادہ دیر تک اسے روکنا ممکن نہیں تو انھوں نے کابینہ کی دوسری حلف برداری تقریب میں شرکت کا فیصلہ کر لیا۔ یہ عمران خان کے لیے ایک پیغام ہے کہ صدر مملکت بھی اس نتیجہ پر پہنچ گئے ہیں کہ ان کی طرف سے رکاوٹیں پیدا کرنے سے نہ تو حکومت گر جائے گی اور نہ نظام مفلوج ہو جائے گا۔ بلکہ ان کے آئینی عہدہ پر سوال ضرور پیدا ہو جائے گا۔

اسی طرح عمران خان نے گورنر پنجاب کے ذریعے پنجاب میں جو بحران پیدا کرنے کی کوشش کی یہ بھی کوئی خاص کامیاب نظر نہیں آئی۔ اس سے چند دن کے لیے تو بحران پیدا ہوا ہے لیکن اس کے بعد یہ بھی قانونی راستوں سے حل ہوتا نظر آرہا ہے۔ گورنر پنجاب کوئی بہت بڑا اپ سیٹ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ اس لیے یہاں بھی عمران خان کی حکمت عملی کامیاب ہوتی نظر نہیں آئی ہے۔

عمران خان کی سیاست کے بارے میں ایک عمومی رائے یہی ہے کہ ان کی جماعت میں احتجاجی سیاست کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ وہ ماضی میں مکمل حمایت کے باوجود کامیاب نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے اگر اس بار بھی وہ اسلام آباد کی طرف مارچ کرتے ہیں تو وہ بھی ناکام ہی ہونگے۔ وہ اپنی سوشل میڈیا ٹیم کے سہارے پر حکومت نہیں گرا سکتے۔ احتجاجی تحریک کے لیے جو لوازمات چاہیے وہ عمران خان کی جماعت میں نہیں ہیں۔

اسی لیے شاید عمران خان نے پانچ سال بعد جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو فون کیا ہے۔ ایسا لگتاہے کہ انھیں اپنی سیاسی تنہائی کا احساس ہونے لگا ہے۔ لیکن شاید دیر ہو گئی ہے۔

لاہور کے جلسہ سے عمران خان اپنے مطلوبہ سیاسی نتائج حاصل نہیں کر سکے ہیں۔ وہ کوئی ایسا پیغام نہیں دے سکے کہ ان کے مخالفین خوف کا شکار ہو جائیں۔ نہ عوام کی تعداد اتنی زیادہ تھی اور نہ ہی تقریر ایسی تھی کہ خوف پھیل جائے۔ ان کی تقریر میں مصالحت نظر آرہی تھی۔

وہ نام لینے سے اجتناب کر رہے تھے۔ وہ تمام محاذ کھولنا بھی نہیں چاہتے۔ لیکن انھیں سمجھنا ہوگا کہ مصالحت پسندی ان کے حامیوں کو پسند نہیں۔ اس سے انھیں نقصان ہوگا۔ لیکن عمران خان کو اندازہ ہے کہ تمام محاذ کھولنے سے انھیں زیادہ نقصان ہو گا۔ اس لیے عمران خان کے پاس انتظار کے سوا کوئی آپشن نہیں ہے۔ اور انتظار ان کا آپشن نہیں۔ لاہو رکا جلسہ کامیابی اور ناکامی کے درمیان عمران خان کو چھوڑ گیا ہے۔ نہ مکمل کامیابی ہے اور نہ ہی مکمل ناکامی ہے۔