میں نے کئی بار لاہور اور کراچی کا موازنہ لکھا ہے۔ آج لاہور کئی شعبوں میں کراچی سے بہتر ہے۔ پھر کراچی میں جو کچھ ہوا، وہ کسی سے ڈھکا چپھا نہیں ہے۔ وفاق اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد مجھے خدشہ تھا کہ اب لاہور کے ساتھ سوتیلی اولاد کا سلوک ہو گا۔ ایک بیانیہ بھی بن چکا تھا کہ پنجاب کے تمام وسائل لاہور پر لگا دیے گئے ہیں جب کہ باقی پنجاب پسماندہ رہ گیا ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی تھی لیکن اتنی سچ بھی نہیں تھی جتنی بنا دی گئی تھی۔
سردار عثمان بزدار نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد بلا شبہ جنوبی پنجاب کے محروم علاقوں اور پنجاب کے ان علاقوں پر توجہ دی جہاں ترقی کی ثمرات نہیں پہنچ سکے تھے۔ ان کا اپنا تعلق بھی ایسے ہی علاقے سے ہے۔ اس لیے چند ناقدین نے ڈیرہ غاز ی خان کی ترقی پر سوال بھی اٹھائے۔ لیکن عثمان بزدار ثابت قدم رہے۔ ادھر کہیں نہ کہیں اہل لاہور میں احساس محرومی پیدا ہونا شروع ہو گیا تھا۔ لاہور اب عثمان بزدار کی توجہ مانگ رہا تھا۔ خوش آیند بات یہ ہے کہ دوبارہ لاہور کی باری آ گئی ہے۔ عثمان بزدار نے لاہور کے لیے میگا منصوبوں کا اعلان کر دیا ہے۔
عمران خان کے دو عدد وعدے، پچاس لاکھ گھر اور ایک کر وڑ نوکریاں بھوت بن کر ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے کوئی بڑا کام تاحال شروع نہیں ہوا۔ لیکن عثمان بزدار نے لاہور میں کام شروع کر دیا ہے۔ ایل ڈی اے سٹی ہاؤسنگ اسکیم میں شامل موضع ہلوکی میں واقع ساڑھے آٹھ ہزار کنال اراضی پر تین سال کی مدت میں 35 ہزار 24 اپارٹمنٹس تعمیر کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ یہ جگہ رنگ روڈ سے ملحقہ ہے اور فیروز پو ر روڈ اورڈیفنس روڈ سے بھی قریب ہے۔ لاہور میں رہائش کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
اس میں یہ منصوبہ بہت اچھا ثابت ہو سکتا ہے۔ ابتدائی طور پر ان اپارٹمنٹس کی لاگت کا تخمینہ تقریبا ً45 لاکھ روپے فی اپارٹمنٹ لگایا گیا تھا۔ تاہم وائس چیئر مین ایل ڈی اے ایس ایم عمران اس لاگت کو کم کر کے 27 لاکھ روپے تک لانے میں کامیاب ہو گئے۔ ان اپارٹمنٹس کا تعمیراتی معیار Aکیٹگری کے قریب رکھا گیا ہے۔ اپارٹمنٹس خریدنے کے خواہشمند افراد کے لیے نیا پاکستان ہاؤسنگ اتھارٹی کی طرف سے تین لاکھ روپے کی سبسڈی اور قومی بینکوں کی طرف سے اسلامی بینکاری (تکافل) کے اصولوں کے تحت آسان شرائط پر قرضے فراہم کیے جائیں گے۔
جیسے جیسے لاہور بڑھ رہا ہے۔ ویسے ٹریفک کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے شہر کے گنجان علاقہ آسٹریلیا چوک، ریلوے اسٹیشن سے جنرل بس اسٹینڈ کے قریب شیرانوالہ گیٹ، سرکلر روڈ تک فلائی اوور تعمیر کیا جا ئے گا، یہ فلائی اوور دو کلومیٹر طویل ہو گا۔ دو رویہ فلائی اوور دونوں طرف سے دو دو لین پر مشتمل ہو گا۔ اس منصوبے کی تکمیل سے روزانہ پانچ لاکھ سے زیادہ گاڑیوں کو ٹریفک سگنل فری راستہ میسر آئے گا۔ علاقے میں تین پارکنگ پلازے بھی تعمیر کیے جائیں گے۔
ملتان روڈ لاہورکے قریب کینال روڈ اور ڈیفنس روڈ کے سنگم پر شاہکام چوک پر عثمان بزدار نے فلائی اوور تعمیر کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ بھی سگنل فری راستہ ہوجائے گا۔ اس منصوبے سے روزانہ دو لاکھ سے زیادہ گاڑیوں کو فائدہ ہو گا۔ اسی طرح لاہور کے جوہر ٹاؤن کی مولانا شوکت علی روڈ جو فیروز پو رروڈ کو ملتان روڈ سے ملانے کے لیے اہم راستے کے طور پر استعمال ہوتی ہے جہاں سے روزانہ لاکھوں گاڑیاں گزرتی ہیں، کریم بلاک چوک میں ٹریفک دیر تک بند رہتی ہے۔ عثمان بزدار نے یہاں ٹریفک مسائل کے حل کے لیے انڈر پاس اور فلائی اوور تعمیر کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
انڈر پاس وحدت روڈ سے نہر کی طرف جانے والی ٹریفک کے لیے تعمیرکیا جائے گا۔ یہ انڈر پاس 600 میٹر طویل ہو گا۔ اس منصوبے سے روزانہ تین لاکھ سے زیادہ گاڑیوں کو فائدہ ہو گا۔ عثمان بزدار نے ہدایت کی ہے کہ مال روڈ پر ٹریفک کے مسائل کو حل کرنے کے لیے تفصیلی منصوبہ بنا کر پیش کیا جائے۔
ویسے کسی حد تک یہ تاثر بھی درست نہیں کہ گزشتہ دو سال میں عثمان بزدار نے لاہور میں کام نہیں کیے ہیں۔ شہباز شریف پل اور انڈر پاس بنانے میں مشہور تھے لیکن عثمان بزدار نے بھی فردوس مارکیٹ گلبرگ کے قریب انڈر پاس کا افتتاح بھی کر دیا ہے۔ ملتان روڈ پر ٹھوکر نیاز بیگ کے قریب بابِ لاہور کی تعمیر بھی مکمل کی جا چکی ہے۔ بارش کے پانی کو اسٹور کرنے کے لیے لارنس روڈ پر رین واٹر ہارویسٹنگ (بارشی پانی جمع کرنے) کے منصوبے کی کامیابی کے بعد شہر کے دو اور مقامات پر ایسے منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں۔ یہ منصوبے بسم اللہ پارک تاج پورہ اور بیرون شیرانوالہ گیٹ سرکلر روڈ پر تعمیر کیے جائیں گے۔
خوشی کی خبر یہ ہے کہ لاہور پر توجہ دی جارہی ہے۔ جو یہ خدشات تھے کہ اگر ان پانچ سالوں میں لاہور پر کوئی توجہ نہ دی گئی تو لاہور بھی کراچی بن جائے گا، یہ دور ہورہے ہیں۔ پیپلزپارٹی کو عثمان بزدار سے سبق سیکھنا چاہیے۔ لاہور میں میگا منصوبے شروع کرنے کے لیے وفاق سے کوئی خصوصی پیکیج نہیں مانگا گیا۔ پنجاب نے پہلے بھی لاہور کی ترقی کے لیے اپنے وسائل ہی استعمال کیے ہیں۔ اب بھی اپنے وسائل ہی استعمال کر رہا ہے۔ یہ لاہور کی خوش قسمتی ہے۔ ویسے جس نے لاہور سے محبت کی ہے لاہور نے بھی اس سے محبت کی ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ لاہور نے محبت کا جواب محبت سے نہ دیا ہو۔ لیکن لاہور کی محبت پانے کا سفر مشکل اور لمبا بھی ہے۔ اس لیے ثابت قدم رہنا ہو گا۔ درمیان میں تھک کر بھاگنے کی ضرورت نہیں۔