مولانا اور حکومت کے درمیان معاملات کیا رخ اختیار کرتے ہیں، یہ آنے و الے دنوں میں طے ہو جائے گا۔ مولانا کی پہلی بڑی کامیابی یہی ہے کہ وہ اپنی سیاسی طاقت اسلام آباد میں جمع کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ یہ حکومت کی ناکامی ہے۔ حکومت کو شائد اندازہ نہیں ہے کہ اس نے اپنے سر پر ایک ٹائم بم بٹھا لیا ہے۔ اور اب امید کی جا رہی ہے کہ ٹائم بم پھٹے گا نہیں بلکہ ہم پر رحم کر دے گا۔ شائد سیاست میں ایسا نہیں ہوتا۔ سیاست میں کوئی کسی پر رحم نہیں کرتا۔ ویسے بھی تحریک انصاف اور بالخصوص عمران خان نے کبھی کسی پر رحم نہیں کیا ہے۔ اس لیے انھیں اپنے مخالفین سے کسی بھی قسم کی رعایت اور رحم کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔
مولانا جب اسلام آباد میں بیٹھ جائیں گے تو کیا آرام سے اٹھ کر گھر چلے جائیں گے۔ یہ بات عقل تسلیم نہیں کرتی۔ مولانا کو بیٹھنے تو آسانی سے دیا گیا ہے لیکن شائد اٹھانا مشکل ہو جائے گا۔ یہ بات درست ہے کہ مولانا کے بیک چینل سب سے رابطے ہیں۔ ان تمام رابطوں کے باوجود وہ اسلام آباد پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ان کے مارچ کی کوئی کوریج نہیں ہوئی ہے۔ مولانا کے مارچ کی کوریج اور ماضی کے دھرنوں اور مارچ کی کوریج کا ہی موازنہ کر لیا جائے تو ساری کہانی سمجھ آجاتی ہے۔
لیکن ساری میڈیا کوریج اور سازگار ماحول کے باوجود عمران خان اور طاہر القادری اسلام آباد میں مطلوبہ تعداد میں لوگ جمع نہیں کر سکے تھے جو کسی بڑی تبدیلی کی بنیاد بن سکتے۔ لیکن یہاں تو نظر یہی آرہا ہے کہ لوگ آگئے ہیں۔ لیکن سوال یہی ہے کہ کیا اتنی تعداد میں لوگ آگئے ہیں جن کی ضرورت ہے۔ میں سمجھتاہوں کہ صرف لوگوں کی تعداد کافی نہیں، حالات بھی سازگار ہونے چاہیے۔ لیکن عمران خان کی دفعہ حالات سازگار تھے لیکن لوگ نہیں آئے۔ اب لگ رہا ہے کہ لوگ آگئے ہیں تو حالات سازگار نہیں ہیں۔ عمران خان کی دفعہ اگر قوتیں ساتھ تھیں تو عوام نہیں آئے اب عوام آگئے ہیں تو قوتیں کا ساتھ نظر نہیں آرہا۔
لیکن کیا مولانا کی عوامی طاقت حالات تبدیل کر سکے گی۔ کیا قوتیں اتنی بڑی تعداد میں لوگ دیکھ کر اپنی سوچ اور رویہ بدل سکتی ہیں۔ کیا مولانا اور عمران حکومت کے درمیان میچ کے فائنل راؤنڈ میں کچھ ہوجائے گا۔ یہ بات ابھی سامنے آنی ہے۔
مولانادھرنے پر بیٹھنے کے بعد کیسے اٹھیں گے، عمران خان کے لیے بھی 126دن یہی مشکل تھی کہ کیسے دھرنے کو ختم کیا جائے۔ پھر آرمی پبلک اسکول کا واقعہ ہوا تو عمران خان نے اس کو بنیاد بنا کر اپنے دھرنے کو ختم کیا۔ لیکن تب تک دھرنا اپنی شدت ختم کر چکا تھا۔ ایک کنٹینر تھا۔ اور بس ویک اینڈ پر چند ہزار لوگ آجاتے تھے۔ لیکن پھر بھی جاتے جاتے عمران خان کو دھاندلی پر جوڈیشل کمیشن مل گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں عمران خان دھاندلی کا کیس ہار گئے۔ لیکن کیا مولانا بھی کسی کمیشن پر مان جائیں گے۔ ایسا نہیں لگتا۔ مولانا اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ کسی کو اپنا ثالث مان سکیں۔ ایسے میں حکومت اور مولانا کے درمیان کیا نیا معاہدہ ہو سکتا ہے؟
حکومت کو اس وقت سیاسی دانشمندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ ایسا راستہ نکالنا چاہیے جو اگر مولانا کو قابل قبول نہ بھی ہو تو اپوزیشن کی باقی جماعتوں کو قابل قبول ہو جائے۔ اگر حکومت انتخابی اصلاحات کی طرف قدم بڑھائے اور ایسی اصلاحات لانے کی یقینی دہانی کرا دے جس سے آیندہ منصفانہ انتخابات ممکن ہو سکیں تو شائد اپوزیشن کی باقی جماعتیں اس پر مان سکتی ہیں۔ دھاندلی کو روکنے کے لیے ایک ایسا انتخابی نظام پاکستان کی ضرورت ہے جہاں منصفانہ انتخابات ممکن ہو سکیں۔ ان اصلاحات پر پاکستان کی اپوزیشن اور حکومت کے درمیان بات چیت ممکن ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ اگر عمران خان چھ ماہ میں ان انتخابی اصلاحات کے بعد ملک میں نئے انتخابات کرانے کا اعلان کر دیں تو ان کے اور اپوزیشن کے درمیان ایک معاہدہ ہو سکتا ہے۔ شائد کسی کو نہ یاد ہو لیکن وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد عمران خان نے خود بھی ایک دفعہ عندیہ دیا تھا کہ وہ قبل از وقت انتخابات کرانے پر غور کر رہے ہیں۔
لیکن شائد اس وقت عمران خان کا یہ خیال تھا کہ ان کی حکومت دو سال میں اتنی اچھی کارکردگی دکھا ئے گی کہ نئے انتخابات میں بڑی کامیابی ممکن ہوگی۔ لیکن شائد آج عمران خان قبل از وقت انتخابات کے حامی نہیں ہوں گے۔ انھیں اندازہ ہے کہ ان کی حکومت کی پہلے سال کی کارکردگی بہت بری رہی ہے۔ اس لیے اس موقع پر انتخابات میں پہلے سے حاصل شدہ سیٹیں بھی کم ہو جائیں گی۔ اس لیے شائد اس موقع پر عمران خان کو قبل از وقت انتخابات قابل قبول نہیں ہوں گے۔
نواز شریف نے عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے کو اس لیے بھی شکست دے دی تھی کہ اپوزیشن کی باقی جماعتیں نواز شریف کے ساتھ تھیں۔ وہ سیاسی تنہائی کا شکار نہیں تھے۔ اسی لیے دھرنے کے سیاسی اثرات کو زائل کرنے کے لیے نواز شریف نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا لیا تھا۔ یہ ایک کامیاب سیاسی مورچہ تھا۔ جس نے عمران خان کو بہت مشکل میں ڈال دیا تھا۔ ایک موقع پر استعفوں کے باوجود عمران خان کو شاہ محمود قریشی کو دوبارہ پارلیمنٹ میں بھیجنا پڑ گیا۔ تا کہ وہاں جواب دیا جا سکے۔ شاہ محمود قریشی کا دوبارہ پارلیمنٹ میں جانے سے عمران خان کو استعفوں کے محاذ پر بھی شکست ہو گئی تھی۔
لیکن آج عمران خان اور ان کی حکومت اپنی سیاسی تنہائی کی وجہ سے اس دھرنے کے موقع پر پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے کی متحمل بھی نہیں ہو رہی ہے۔ حالانکہ میری اب بھی یہی رائے ہے کہ اگر اب بھی پارلیمنٹ کا اجلاس بلا لیا جائے، تمام قید اراکین پارلیمنٹ کے پروڈکشن آرڈر جا ری کر دئے جائیں۔ اور حکومت یہ اعلان کر دے کہ وہ تمام سیاسی تنازعات کا حل پارلیمنٹ سے نکالنے کے لیے تیار ہے تو مولانا کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ ایسے موقع پر پی پی پی اور ن لیگ شائد دوبارہ پارلیمنٹ میں جانے کو ترجیح دیں گی۔ اور وہ پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنے پر تیار نہیں ہوں گی۔ لیکن ایسا کرنے کے لیے بہت بڑا سیاسی حوصلہ چاہیے جو تحریک انصاف میں نظر نہیں آرہا۔
دوسری طرف مولانا کے پاس بھی بہت کم آپشنز ہیں۔ کیا مولانا پی پی پی اور ن لیگ کو اس بات پر آمادہ کر سکتے ہیں کہ ساری اپوزیشن مشترکہ طور پر پارلیمنٹ سے استعفیٰ دے دے۔ شائد مشکل ہے۔ پی پی پی اور ن لیگ اس پر نہیں مانیں گے۔ کیا مولانا ریڈ زون کی طرف مارچ کرنے کا اعلان کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک مشکل فیصلہ ہوگا۔ لیکن اگر حکومت نے مولانا کے ساتھ مذاکرات کا سلسلہ شروع نہیں کیا تو پھر آگے بڑھنے کے سوا کیا آپشن ہوگا۔ یہ اعلان کون اور کیسے کرے گا یہ الگ سوال ہے۔ لیکن مولانا کے پاس پیچھے ہٹنے کے بجائے آگے بڑھنے کا ہی آپشن ہوگا۔
اگر مولانا کا یہ دھرنا ناکام ہوگیا۔ عمران خان اور ان کی حکومت دیگر قوتوں کے ساتھ مل کر اس دھرنے کو ناکام کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ تو پھر کیا ہوگا؟ پھر عمران خان کو ایک نئی سیاسی زندگی مل جائے گی۔ ان کی حکومت کو ایک نئی طاقت اور جان مل جائے گی۔ اپوزیشن کے لیے مزید مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔ مزید لوگ اندر جائیں گے۔ نواز شریف اور زرداری کو مائنس کرنے کے اسکرپٹ پر مزید تیزی سے کام ہوگا۔ مولانا کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔ ن لیگ بھی مشکل میں پھنس جائے گی۔ اس لیے ناکامی زہر قاتل سے کم نہیں۔ شائد اس کا احساس سب کو ہے۔ یہی عمران خان کی سب سے بڑی مشکل ہو گی۔ عمران خان جب خود دھرنے دے رہے تھے تب ناکامی ان کے لیے زہر قاتل نہیں تھی۔ انھیں امید تھی کہ انھیں پھر موقع دیا جائے گا۔ لیکن یہاں ایسا نہیں ہے۔ یہی آخری اور فائنل موقع ہے۔ اس بات کو سمجھنا ہوگا تب ہی اگلا منظر نامہ سمجھ آئے گا۔