آج کل ماتحت عدلیہ کے ججز کے ساتھ بعض وکلا کے ناروا سلوک کا بہت شور ہے۔ ایک خاتون جج کے ایک خط نے تو سب کی توجہ اس کی جانب مبذول کرالی ہے۔
اس خط میں کہا گیا ہے کہ چند وکلا ماتحت عدلیہ کے ججز کے ساتھ عدالتوں میں جو سلوک کرتے ہیں وہ ناقابل برداشت ہے۔ اس خط میں اور بھی بہت کچھ لکھا گیا ہے تاہم حالیہ چند برسوں کا ہی جائزہ لیا جائے تو یہی نظر آتا ہے کہ یہ معاملہ کوئی ایک جج کا نہیں ہے۔
بلکہ ماتحت عدلیہ میں وکلا اور ججز کے درمیان تنازعات روز کا معمول بن رہا ہے۔ اخبارات میں چھپی خبریں پڑھ لیں یا سوشل میڈیا پر لڑائی جھگڑے وائرل ویڈیوز دیکھیں تو یہی حقائق سامنے آتے ہیں کہ ماتحت عدلیہ کے ججز بلاشبہ کئی بار چند وکلاء کی طاقت اور من مرضی کے سامنے خود کو بے بس سمجھتے ہیں۔ ماتحت عدلیہ میں جو واقعات ہوئے ہیں۔
وہ اب کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ملک کے عوام چند وکلاء کے اس طرز عمل کو وکلا گردی کا نام دیتے ہیں۔ اب اس میں قصور کس کا ہے، سمجھدار کے لیے اشارہ ہی کافی ہے۔
ادھر یہ بھی حقیقت ہے کہ ماتحت عدلیہ کے ججز کو جس قسم کی صورت حال کا سامنا ہے، اعلیٰ عدلیہ کو اس کا سامنا نہیں ہے۔ ہائی کورٹس اور سپریم کورٹس میں کسی مشہور سے مشہور وکیل کو بھی یہ جرات نہیں ہے کہ وہ معزز ججزصاحبان کے سامنے کسی بھی قسم کی کوئی بد تمیزی کر سکیں۔ اعلیٰ عدلیہ میں عدالتوں کا احترام مثالی ہے۔ سینئر وکلا نہ صرف بر وقت عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں بلکہ ججز کا احترام بھی قابل دید ہے۔
یہ ایک بہت ہی اچھا کلچر ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ نچلی عدلیہ کے احترام کا کلچر پروان نہیں چڑھ سکا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی کہی جاتی ہے کہ اعلیٰ عدلیہ میں ججز کے پاس توہین عدالت کی کارروائی کرنے کا اختیار ہے جب کہ ماتحت عدلیہ کے ججز کے پاس توہین عدالت کی کارروائی کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے کئی مواقعے پر بدتمیزی کرنے والے وکلا کا ہی لائسنس معطل کیا ہے اور بدتمیزی کرنے والے وکلا کو آیندہ کسی بھی عدالت میں پیش ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں کئی نامور وکلا کے نام بھی شامل ہیں۔
ایسے میں یہ سوال اہم ہے کہ ماتحت عدلیہ کے ججز کو توہین عدالت کی کارروائی کے اختیارات کیوں نہیں دیے جاتے؟ کیا یہ امتیازی سلوک نہیں ہے۔ کیا اعلیٰ عدلیہ کی توہین زیادہ سنگین ہے اور ماتحت عدلیہ کی عدالتوں کے ساتھ توہین کم سنگین جرم ہے۔
کیا ماتحت عدلیہ کے ججز اور ان کے فیصلوں کا عزت و وقار کم اہم ہے۔ عدالت تو عدالت ہوتی ہے۔ اس میں فرق کیوں؟ جج تو جج ہے اس میں فرق کیوں؟ میں سمجھتا ہوں کہ ماتحت عدلیہ کے ججز نظام انصاف میں سب سے زیادہ اہم ہیں۔ کیونکہ اگر ہماری ماتحت عدلیہ میں بر وقت انصاف کی فراہمی شروع ہو جائے تو اعلیٰ عدالتوں سے بوجھ ختم ہو جائے۔
پاکستان کی وکلا تنظیموں کا بھی اس حوالے سے کردار مثالی نہیں رہا ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ اس قسم کے تنازعات میں بطور فریق سامنے آئی ہیں۔ حالانکہ قانون اور قواعد کے مطابق بار اس قسم کے واقعات میں وکلا کے خلاف ایکشن لینے کی پابند ہے۔
لیکن جب بار کے عہدیدار ہی اس قسم کے واقعات میں بطور فریق سامنے آتے ہیں تو پھر ایکشن کون لے گا؟ اس ضمن میں خاموشی نظر آتی ہے۔ ماتحت عدلیہ کے ججز کے ساتھ بدتمیزی کی حوصلہ افزائی کا ایک کلچر بھی نظر آتا ہے۔
کہیں نہ کہیں بعض وکلا نمایندوں کے اندر یہ احساس پیدا ہو جاتا ہے کہ بار کا صدر اور سیکریٹری ہونے سے وہ ماتحت عدلیہ کے جج سے پروٹوکول اور مرتبہ میں افضل ہو جاتے ہیں۔ لہٰذا انھیں عدالتوں میں غیر معمولی پروٹوکول دیا جائے۔ اسی لیے جب ماتحت عدلیہ کے ججز جب ان کے سامنے جج بننے کی کوشش کرتے ہیں تو تنازعہ پیدا ہو جاتا ہے۔
ہم نے ماضی میں دیکھا ہے کہ ماتحت عدلیہ کے ججز کی عدالتوں کی بلکہ ڈسٹرکٹ سیشن ججز کی تالہ بندی بھی کی ہے۔ بلکہ بعض اوقات ایسا مطالبہ بھی رکھا گیا کہ جب تک جج صاحب کا تبادلہ نہیں کیا جائے گا، تب تک ہڑتال رہے گی۔ ایسے کلچر میں ماتحت عدلیہ کیا کرے۔ وکلا نمایندوں کی جانب سے ہڑتال کے اعلان کے بعد کسی عدالت میں مقدمات کی سماعت رک جاتی ہے۔ یہ کلچر بھی ماتحت عدلیہ میں ججز کے عزت و وقار میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
درجنوں وکیل جب ایک ہی مقدمہ میں اکٹھے پیش ہوتے ہیں تو ججز ذہنی طور پر دباؤ محسوس کرتے ہیں۔ یہ جتھہ بندی کلچر وکلا جیسے مقدس پیشے کے تقدس کو داغدار کر رہا ہے۔ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز کو کہا جاتا ہے کہ وہ ضلع کو پر امن چلانے کے لیے مقامی بار نمایندوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھیں۔ تنازعات کو سیشن جج صاحب کی انتظامی ناکامی سمجھاجاتا ہے۔
اب وقت آگیا ہے کہ عدلیہ کے بڑے وکلا نمایندوں کے ساتھ بیٹھ کر ماتحت عدلیہ کے ججز کے عزت وقار کے تحفظ اور عدالتوں کے احکامات اور قانون کی رٹ قائم کرنے کے لیے ایک ڈائیلاگ کریں۔ نئے قواعد بنائے جائیں۔ وکلا تنظیموں کو بھی چاہیے کہ وہ عدالتوں اور ماتحت عدلیہ کے ججز کو ہراساں کرنے، ان کے ساتھ جھگڑا کرنے اور بعض واقعات میں یرغمال بنانے کی حکمت عملی کو چھوڑنے کی طرف قدم بڑھائیں۔
ایک تاثر ہے کہ وکلا تنظیموں کی جانب سے ایسے وکلا کے ساتھ نرم رویہ رکھا جاتا ہے جن پر ماتحت عدلیہ کے ججز کے ساتھ غلط رویہ رکھنے کا الزام ہوتا ہے۔ یہ نرم رویہ ہی نئے واقعات کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور اس طرح واقعات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اس لیے بار اور بنچ کو اکٹھے ملکر اس قسم کے واقعات کی نہ صرف روک تھام بلکہ مکمل خاتمہ کے لیے روڈ میپ بنانا چاہیے۔ اسی میں عدلیہ کا وقار اور ماتحت عدلیہ کے ججز کے لیے آزادانہ کام کرنے کا ماحول ممکن ہے۔
جج کے ساتھ عدالت میں بد تمیزی کی کسی کو بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ وکلا کو تو بالکل نہیں ہونی چاہیے۔ اگر کوئی وکیل کسی بھی جج کے ساتھ بدتمیزی کرے تو اسے سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے۔ اس ضمن میں وکلا اور عدلیہ کو ملکر سخت قواعد اور قانون بنانے کی راہ ہموار کرنی چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ نئے اور نوجوان وکلا جوش جوانی میں ایسا کرتے ہیں۔
لیکن اگر نوجوان وکلا کو ہی عدالتوں کا احترام نہیں سکھائیں گے تو وہ بڑے ہو کر بھی عدالتوں کا احترام نہیں کریں گے۔ اگرماتحت عدلیہ میں ججز طاقتور ہونگے تو انصاف کی فراہمی بھی ٹھیک ہو جائے گی۔ تاریخ پر تاریخ کا کلچر بھی ٹھیک ہو جائے گا۔
ابھی ماتحت عدلیہ میں ججز وکلا کے خوف سے بھی تاریخ پر تاریخ دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ عدلیہ دوسرے محکموں میں خرابی پر تو فیصلے کرتی ہے۔ ان کو ٹھیک کرنے کے احکامات تو جاری کرتی ہے۔ لیکن ماتحت عدلیہ کی ان معاملات پر خاموشی افسوسناک ہے۔ یہ معاملہ فوری ایکشن کا مطالبہ کر رہا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کو اس ضمن میں واضح کردار ادا کرنا چاہیے۔