عمران خان کے اتحادی ان سے ناراض ہیں۔ صرف ایم کیو ایم ناراض نہیں ہے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا بلکہ سارے اتحادی ہی ناراض ہیں۔ عمران خان نے اب تک اپنے اتحادیوں کے ساتھ بھی اپوزیشن کا ہی سلوک کیا ہے۔ انھوں نے ملک کی تمام سیاسی اکائیوں کو ایک ہی انداز میں ڈیل کیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ وہ پندرہ ماہ سے زائد کے اقتدار میں دوست بنانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں البتہ انھوں نے چند دوستوں کو دشمن ضرور بنا لیا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان کا اپنا کسی بھی اتحادی جماعت سے نظریہ یا سوچ کی بنیاد پر اتحاد نہیں ہے بلکہ عمران خان نے صرف اور صرف اپنے اقتدار کے لیے اتحاد بنائے تھے۔ اس لیے یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ دوسرے فریقین نے بھی کسی نظریے کی بنیاد پر عمران خان کے ساتھ اتحاد نہیں بنایا بلکہ انھوں نے بھی شراکت اقتدار کے لیے اتحاد بنائے ہیں اور اقتدار ہی دونوں کے درمیان اتحاد کا واحد نقطہ ہے۔
عمران خان کو اتنی جماعتوں کے ساتھ اتحادی حکومت بناتے وقت اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے تھا کہ یہ جماعتیں انھیں کسی بھی مشکل وقت میں تنگ کر سکتی ہیں۔ لیکن سب جانتے ہیں کہ ان جماعتوں کے ساتھ اتحاد عمران خان نے خود نہیں بنایا تھا۔ بلکہ جو قوتیں عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے کوشاں تھیں، یہ اتحاد بھی ان کی طرف سے تحفہ ہی تھا۔ عمران خان نے کسی بھی اتحاد کے لیے نہ تو خود کوشش کی اور نہ ہی کسی سے خود مذاکرات کیے۔
اس لیے آج تک انھوں نے کسی اتحادی کے ساتھ کوئی رابطہ رکھنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ وہ چاہتے رہے ہیں کہ جنہوں نے اتحاد بنوایا ہے وہی اس کو قائم رکھنے کی ذمے دار رہیں۔ عمران خان پہلے دن سے کسی بھی اتحاد کو نہ تو اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں اور ہی اب بھی اپنی ذمہ داری سمجھنے کے لیے تیار ہیں۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم کو کیا ہوا ہے؟ ایم کیو ایم کے معاملے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم کو صرف عمران خان سے شکایات نہیں ہیں۔ انھیں ان قوتوں سے بھی شکایت پیدا ہو گئی ہے جو اس اتحاد کی ضامن تھیں اور ہیں۔ فروغ نسیم کی اتنی زیادہ اہمیت نے بھی ایم کیو ایم میں مسائل پیدا کیے ہیں۔ خالد مقبول صدیقی، عامر خان اور دیگر کو یہ خوف پیدا ہو گیا ہے کہ فروغ نسیم ایم کیو ایم کو ٹیک اوور کر رہے ہیں۔
جہاں فیصلے ہوتے ہیں وہاں اب ایم کیو ایم کی نمائندگی فروغ نسیم نے کرنی شروع کر دی ہے۔ جس کی وجہ سے فروغ نسیم کی سیاسی طاقت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ جب کہ ایم کیو ایم کی باقی تمام قیادت خود کو مائنس ہوتا محسوس کر رہی ہے۔ اس لیے پوری ایم کیو ایم نے ملکر پیغام دیا ہے کہ وہ مائنس ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی لیے خالد مقبول صدیقی نے پوری ایم کیو ایم کی قیادت کے ساتھ بیٹھ کر پریس کانفرنس کی ہے تا کہ واضح پیغام پہنچ جائے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ فاروق ستار کے بعد اب ایم کیو ایم میں فروغ نسیم کے خلاف بغاوت ہو گئی ہے۔ فروغ نسیم کو گورنر سندھ بنانے کی خبریں بھی آرہی تھیں۔ اس ضمن میں بھی ایم کیو ایم کا عشرت العباد کا تجربہ کوئی خوش آئند نہیں رہا ہے۔ اسی لیے فروغ نسیم بھی قابل قبول نہیں ہیں۔ اب فروغ نسیم اس ساری صورتحال سے کیسے نبٹتے ہیں، یہ دیکھنے کی بات ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف اس ساری صورتحال میں خاموش ہیں۔
یہ درست ہے کہ ایم کیو ایم نے فروغ نسیم کو کبھی وزارت سے مستعفیٰ ہونے کے لیے نہیں کہا۔ شاید ایم کیو ایم ایشو کو پوائنٹ آف نو ریٹرن پر نہیں لیجانا چاہتی ہے۔ وہ صرف یہ چاہ رہی ہے کہ ایم کیو ایم سے رابطہ کے لیے ایم کیو ایم کی قیادت کو ہی رابطہ کار سمجھا جائے۔
اسی کے ساتھ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کی آمد ہے۔ ایم کیو ایم کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ تحریک انصاف کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے روڈ میپ واضح نہیں کر رہی۔ ایسے اشارے ملے ہیں کہ تحریک انصاف کراچی کے پیکیج میں تاخیر اس لیے کر رہی ہے کہ تحریک انصاف اگلے بلدیاتی انتخابات میں کراچی میں اپنا مئیر لانا چاہتی ہے اور اپنے مئیر کے ذریعے ہی کراچی پیکیج پر عمل کرنا چاہتی ہے۔
ایم کیو ایم کے اندر یہ رائے بن گئی ہے کہ اگر کراچی کی مئیر شپ کی گارنٹی نہیں کی جاتی تو تحریک انصاف کے ساتھ چلنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر بلدیاتی انتخابات ایم کیو ایم نے تحریک انصاف کے مقابلے میں لڑنا ہے تو ابھی سے حکومت سے علیحدگی کر لی جائے تا کہ ووٹر کو قائل کیا جا سکے کہ ایم کیو ایم اور حکومت علیحدہ ہیں۔ انتخاب کے قریب یہ مشکل ہو جائے گا۔ البتہ اگر تحریک انصاف ایم کیو ایم کے ساتھ بلدیاتی سطح پر ایسی سیٹ ایڈجسٹمنٹ گارنٹی کر دے جس میں مئیر ایم کیو ایم کا ہو تب ہی بات بن سکتی ہے۔ ایم کیو ایم کے اندر یہ رائے مضبوط ہے کہ کراچی کی مئیر شپ وفاقی وزارت سے اہم ہے۔
بلاول نے بھی انھی تمام حالات کا اندازہ لگاتے ہوئے ایم کیو ایم کو گزشتہ دنوں پیشکش کی تھی کیونکہ بلاول کو ایم کیو ایم کے اندر کے معاملات کی اطلاعات مل چکی تھیں۔ ایم کیو ایم فروغ نسیم اور کراچی کی مئیر شپ سمیت دونوں کو اپنی بقا کے معاملات سمجھتی ہے جن پر مفاہمت ممکن نہیں ہے۔ اسی لیے بلاول نے ایم کیو ایم کو فیصلہ کرنے میں آسانی دینے کے لیے سندھ حکومت میں شمولیت کی پیشکش کی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ بلاول کی پیشکش نے ایم کیو ایم کے لیے معاملات کافی آسان کر دیے ہیں اور انھوں نے چند دنوں میں ہی فیصلہ کر لیاہے۔
عمران خان کو صورتحال کا ادراک کرنا ہوگا۔ ان کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ سیاسی معاملات بہترکرنے کی پالیسی بنانا ہوگی۔ جیسے جیسے اپوزیشن کے حالات بہتر ہوں گے، نیب کا خوف ختم ہوگا، عمران خان کی جادوئی قوت میں کمی ہوتی جائے گی، خوف سے لوگوں کو ساتھ رکھنے کا وقت آہستہ آہستہ ختم ہو رہا ہے، سیاسی قوتوں نے سیاسی ماحول کو کھول دیا ہے۔
آرمی ایکٹ کی قانون سازی کے موقع پر نظر آنے والی مفاہمت عمران خان کے لیے کوئی خوش آئند نہیں ہے۔ اس سے عمران خان کے لیے سیاسی مسائل میں اضافہ ہوگا جو ہوتا نظر بھی آرہا ہے۔ کوئی بعید نہیں پنجاب سے چوھدری برادران بھی اپنے تحفظات بیان کرنے شروع کر دیں۔ وہ ابھی ایم کیو ایم کے معاملہ کو غور سے دیکھ رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کو ملنی والی ذرا سی کامیابی ان کے لیے را ہ ہموار کر دے گی۔ مینگل ناراض ہیں۔ جی ڈی اے ناراض ہے۔ اپوزیشن کی بانہیں کھلی ہیں۔ ایم کیو ایم کو سندھ میں کچھ مل سکتا ہے۔ چوہدریوں کو پنجاب میں مل سکتا ہے۔ مینگل کو بلوچستان میں مل سکتا ہے۔ ایسے میں کوئی بھی خالی ہاتھ نہیں رہے گا۔ البتہ عمران خان کی مشکلات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
اتحادیوں کی ناراضی کے مقابلے میں عمران خان کے پاس کیا آپشنز ہیں۔ کیا عمران خان اب بھی اس پوزیشن میں ہیں کہ اتحادیوں کو ویسے ہی کنٹرول کر سکیں جیسے کرتے آئے ہیں؟ کیا عمران خان اپنی ٹوٹتی حکومت کو بچانے کے لیے قبل از وقت انتخابات کا آپشن استعمال کر سکتے ہیں؟ کیا قبل از وقت انتخابات کا آپشن استعمال کرنے میں عمران خان نے دیر نہیں کر دی ہے؟ اس کا وقت گزر گیا ہے۔
کیوں اپریل مئی میں حکومت کے خاتمہ کی باتیں ہو رہی ہیں؟ یہ سب سوال نظر آرہے ہیں۔ لیکن جوابات کا انتظار ہے۔ کیا اب بھی عمران خان اپنے ہاتھ سے پھسلتے اقتدار کو مضبوط کرنے کے لیے اپوزیشن کو دبانے کی پوزیشن میں ہیں۔ کیا اب بھی ایک بڑی گرفتاری سے منظر نامہ بدلا جا سکتا ہے یا اب ایسا ممکن نہیں ہے۔