پاکستان میں آزادی صحافت کا ایشو ہمیشہ سے ہی اہم اور زیر بحث رہا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جہاں آزادی صحافت صحت مند اور جمہوری معاشرے کا لازمی جز ہے، وہاں آزادی اظہار کی حدود قیود کا طے ہونا بھی ضروری ہے۔ آج بھی یہ اہم مسئلہ اسی طرح زیر بحث ہے جیسے ماضی میں تھا، اس میں قصور کسی ایک فریق کا نہیں ہے بلکہ تالی دونوں ہاتھ سے بجی ہے۔
میں مانتا ہوں کہ میڈیا کو مفلوج کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نجی ٹی وی چینلز کو بھی پی ٹی وی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، ادھر اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ بعض اینکرز حضرات نے پاکستان کی صحافت کو کوئی نیک نامی نہیں دی ہے۔ ایسے لوگ الیکٹرانک میڈیا میں صحافی، اینکر اور تجزیہ نگار بن گئے جن کا صحافت سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ انھوں نے خود کو قانون اور آئین سے مبرا سمجھنا شروع کر دیا۔ پرنٹ میڈیا میں جس کو زرد صحافت کہتے تھے یہ اس سے بھی کوئی اگلی قسم کے لوگ تھے۔ حقائق کو مسخ کرنا۔ ذاتی ایجنڈے کو آگے بڑھانا۔ جھوٹ کو اس طرح بولنا کے سچ بھی شرما جائے، ان کا ایجنڈا تھا۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ دنیا بھر میں نجی ٹی وی چینلز کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی ریاستی ادارہ نہیں بنایا جاتا۔ لیکن پھر بھی وہاں اینکرز اور تجزیہ نگار بولنے سے پہلے سوچتے ہیں۔ ہر چینل کی ایک پالیسی ہے۔ حدود و قیود کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ وہاں اینکرز کو ان کے تجربہ کی بنیاد پر منتخب کیا جاتا ہے نہ کہ خوبصورتی اور پرچی کی بنیاد پر۔ وہاں اہلیت بنیادی شرط ہے۔ پاکستان میں شاید ایسا نہیں ہے۔
تا ہم یہ کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کوئی ایسا کوڈ آف کنڈکٹ موجود نہیں ہے۔ پھر بھی وہاں خرابی نہیں ہے۔ میری رائے میں صحا فت کو کنٹرول کرنے کے لیے کسی خاص قوانین اور اداروں کی ضرورت نہیں ہے۔ دنیا بھر میں صرف ہتک عزت کے موثر قوانین ہیں جن سے سب ڈرتے ہیں۔ اس لیے ترقی یافتہ ممالک میں کوئی حدود سے تجاوز نہیں کرتا۔
آپ صرف میڈیا کی بات کرتے ہیں دنیا میں سیاست اور جمہوریت کو بھی ہتک عزت کے قوانین نے ہی دائرہ اختیار میں رکھا ہے۔ لوگ ایک دوسرے پر الزام لگانے سے پہلے سوچتے ہیں کہ کل کو عدالت میں جواب دینا پڑے گا۔ لوگ ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے سے پہلے سوچتے ہیں کہ عدالت سے سزا ملے گی۔ مہذب جمہوری ممالک کی سیاست میں جھوٹ اس لیے ختم ہوا ہے کہ وہاں عدالتوں میں جھوٹ بولنے پر سزائیں دی ہیں۔ سیاست دان اپنے سیاسی مفاد کی خاطر ایک دوسرے پر جھوٹے الزام لگانے سے اس لیے پرہیز کرتے ہیں کہ کل کو لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔ افسوس کے پاکستان میں ایسا نہیں ہو سکا ہے۔
آج پاکستان کے میڈیا کو مصنوعی طریقہ سے کنٹرول کرنے کی جو کوشش کی جا رہی ہے اس کے مثبت کی بجائے منفی نتائج سامنے آرہے ہیں۔ ایک تو یہ سب طریقے فرسودہ اور پرانے ہو گئے ہیں۔ لیکن شائد پاکستان میں ارباب اختیار کو یہ بات سمجھ نہیں آرہی ہے۔ میرے خیال میں نجی چینلز کو جرمانہ بھی کوئی درست اقدام نہیں ہے۔ یہ جرمانے تمغہ جمہوریت بن رہے ہیں۔ یہ جرمانے ریاستی جبر کی نشانی بن گئے ہیں۔ یہ جرمانے اپنا اخلاقی اور قانونی جواز کھو چکے ہیں۔
ایسے میں کیا کرنا چاہیے۔ جب حکومت خود عدالت بننے کی کوشش کرے گی تو مسائل پیدا ہوں گے۔ پوری دنیا میں آزاد عدلیہ کا فلسفہ کی بنیاد ہی یہ ہے کہ حکومت عدالت کا کام نہیں کر سکتی۔ بلکہ حکومت عدالت اور انصاف کی فراہمی میں ایک فریق کی حیثیت رکھتی ہے۔ فریق خود ثالث نہیں بن سکتا۔
پاکستان میں ابھی تک ہتک عزت کے مقدمات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے نامور سیاستدانوں نے ایک دوسرے کے خلاف ہتک عزت کے مقدمات دائر کیے ہیں۔ لیکن ان مقدمات کا کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ تاریخ پر تاریخ پر کلچر ان مقدمات کو سالہاسال لمبا کر دیتا ہے جن سے ان کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے۔ مجھے یاد ہے کہ 1990میں میاں نواز شریف نے قاضی حسین احمد پر کشمیر فنڈ میں خرد بردکا الزام لگایا تو انھوں نے لاہور کی ایک عدالت میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا۔ لیکن اس مقدمہ کا کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ بہت سے دیگر سیاستدانوں نے بھی ایک د وسرے کے خلاف ہتک عزت کے دعویٰ دائر کیے ہیں لیکن آج تک کسی ایک کا بھی فیصلہ نہیں ہو سکا۔
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں صحافیوں کو بھی ایک اخلاقی ضابطہ اخلاق طے کرنے کی طرف کام کرنا چاہیے۔ ایک آزاد میڈیا ہی ایک آزاد پاکستان کی بنیاد ہے۔ ایک آزاد میڈیا ہی ایک باوقار پاکستان کی بنیاد ہے۔ آزاد میڈیا ہی جمہوریت کی بنیاد ہے۔ جیسے ہی میڈیا کی آزادی سلب ہو جاتی ویسے ہی جمہوری آزادیاں بھی سلب ہو جاتی ہیں۔ انسانی حقوق سلب ہو جاتے ہیں۔ لیکن شتر بے مہار آزادی کا بھی کوئی مہذب ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔ ایک منظم طریقہ کار سے اس انڈسٹری کا گلہ گھوٹا جا رہا ہے۔ سیکڑوں نہیں ہزاروں صحافی بے روزگار ہو گئے ہیں۔ ادارے سکڑتے جا رہے ہیں۔ کیا یہ آزادی صحافت پر حملہ نہیں ہے۔ لیکن کوئی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں۔