پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندر یہ بحث موجود ہے کہ نواز شریف کے بعد ان کی جگہ کون لے گا، نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے ووٹ بینک کا سیاسی جانشین کون ہے۔ یہ درست ہے کہ اس وقت مسلم لیگ (ن) کی کمان میاں شہباز شریف کے پاس ہے۔ وہ مسلم لیگ (ن) کے منتخب صدر بھی ہیں، قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف بھی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سیاسی جانشین کی بحث اپنی جگہ موجود ہے۔
مریم نواز پارلیمنٹ میں موجود ہیں اور نہ ہی ان کے پاس مسلم لیگ (ن) کی کمان ہے۔ وہ صرف نائب صدر ہیں جب کہ اور بھی نائب صدر موجود ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ مریم نواز نے مسلم لیگ (ن) کے اندر اپنی ایک جگہ اور پہچان بنائی ہے۔ انھوں نے اکیلے بڑے بڑے جلسہ کیے ہیں۔ جب کہ شہباز شریف نے اکیلے 2018کی انتخابی مہم چلائی تھی۔ اس طرح سیاسی جانشنی کے حوالے سے نہ چاہتے ہوئے بھی شہباز شریف اور مریم نواز کے درمیان ایک مقابلہ موجود رہا ہے۔
مریم نواز آرمی ایکٹ پر مسلم لیگ (ن) کی جانب سے ووٹ دینے سے پہلے تک مسلم لیگ (ن) میں مزاحمتی سیاست کی علمبردار رہی ہیں۔ ان کے انٹرویوز اور تقریریں مزاحمت کی نشانی رہی ہیں۔ وہ ووٹ کو عزت دو اور سول بالا دستی کے نعروں کی سیاست کرتی رہی ہیں۔ جب کہ شہباز شریف پہلے دن سے مفاہمت کی سیاست کے علمبردار رہے ہیں۔ ان کی رائے میں مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک اس کی کارکردگی اور ترقیاتی پالیسی کی وجہ سے ہے، اس میں ووٹ کو عزت دو کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے مسلم لیگ (ن) کو محاذ آرائی کی سیاست نہیں کرنی چاہیے۔ یہ اس کا ڈی این اے نہیں ہے۔ دونوں کی سیاست میں اس فرق کو مسلم لیگ (ن) کا ووٹر سپورٹر اور کارکن محسوس کرتا ہے۔ اس لیے یہ بحث رہی ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں کس رائے کی کتنی مقبولیت ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ شہباز شریف اور مریم نواز کے درمیان شائد کوئی شخصی اختلاف اور مقابلہ تو نہیں رہا لیکن سوچ اور نظریے کا اختلاف بہت واضح رہا ہے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ جب تک نواز شریف کا جھکاؤ محاذ آرائی کی سیاست کی طرف تھا تب تک یہ رائے بھی موجود تھی مسلم لیگ (ن) میں مزاحمتی رائے کی اکثریت ہے۔ یہ شائد نواز شریف کے احترام کی وجہ سے تھا۔ لیکن جب سے نواز شریف نے آرمی ایکٹ کی حمایت کے فیصلے کی نوید سنائی ہے۔ تب سے یہ سوال پیدا ہوگیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں مزاحمتی اور مفاہمتی نظریات میں سے کس کی اکثریت ہے۔ لوگ نواز شریف کی سوچ اور پالیسی میں تبدیلی کا کریڈٹ شہباز شریف کو دے رہے ہیں۔ وہ اس سارے منظر نامہ میں ایک گیم چینجر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی بھی دوڑ سے باہر نہیں ہیں۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس دوڑ میں پیچھے ہیں۔ لیکن دوڑ میں موجود رہے ہیں۔
نواز شریف کے بعد وزیر اعظم بننے کے بعد ان کی مسلم لیگ (ن) میں ایک نئی پہچان بن گئی۔ انھیں متبادل قیادت کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ یہ الگ بات ہے کہ نظریاتی طور پر انھوں نے بھی مریم نواز والی لائن ہی لی۔ اس لیے انھیں بھی مریم نواز کے کیمپ میں ہی دیکھا جانے لگا۔ ایسی قیاس آرائیاں بھی رہی ہیں کہ مزاحمتی سوچ کا حامل گروپ شہباز شریف کی جگہ انھیں مسلم لیگ (ن) کا صدر بنانا چاہتا ہے۔ لیکن یہ سب باتیں ڈرائینگ روم میں ہی زیر بحث رہی ہیں۔ کبھی ان پر مسلم لیگ (ن) کے اندر کھلے عام بحث نہیں ہوئی ہے۔ اب بھی شاہد خاقان عباسی نے خود کو آرمی ایکٹ کی حمایت سے دور رکھا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) میں ان کی پہچان دوسری طرف ہے۔
ایسے میں اب جب کہ مسلم لیگ (ن) کے اندر سوچ اور پالیسی کی تبدیلی آچکی ہے۔ آرمی ایکٹ، الیکشن کمیشن سمیت اہم معاملات افہام و تفہیم سے طے کیے جا رہے ہیں، مسلم لیگ (ن) نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ حکومت اور مقتدر حلقوں کے ساتھ مفاہمت کی جا رہی ہے۔ اسٹبلشمنٹ سے اگر صلح نہیں ہو ئی تو سیز فائر ہو گیا ہے۔ مریم نواز بھی خاموش ہیں۔ ان کے ساتھ سارے مزاحتمی بھی خاموش ہیں۔ البتہ مفاہمت کے حامی جیت کا جشن منا رہے ہیں۔ ایسے میں اب یہ سوال بہت اہم تھا کہ نواز شریف کے بعد مسلم لیگ (ن) میں سیاسی جانشین کون ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے حمایتی ووٹر سپورٹر اور کارکنوں میں مقبول کون ہے۔
اس ضمن میں گیلپ اور گیلانی ریسرچ فاؤنڈیشن نے 16جنوری کو مسلم لیگ (ن) کے حوالے سے ایک دلچسپ سروے جاری کیا ہے۔ سروے کے نتائج کے مطابق مسلم لیگ (ن) کا ہر دوسرا ووٹر سپورٹر یہ سمجھتا ہے کہ نوا زشریف کے بعد شہباز شریف ہی مسلم لیگ (ن) کی قیادت کرنے کے اہل ہیں۔ جب کہ مریم نواز کو صرف 12 فیصد لوگ متبادل قیادت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اسی طرح شاہد خاقان عباسی کو صرف دو فیصد لوگ متبادل قیادت کے طور پر دیکھتے ہیں۔
14فیصد لوگوں کا خیال ہے کہ اس وقت مسلم لیگ (ن) میں کوئی بھی ایسا لیڈر نہیں جو نواز شریف کے بعد مسلم لیگ (ن) کی قیادت کا اہل ہو۔ یہ بھی ایک بڑی تعداد ہے۔ اگر جائزہ لیا جائے تو مریم نواز کے حامیوں سے زائد اس رائے کے حامی ہیں کہ اب کوئی بھی اس قابل نہیں ہیں۔ اسی طرح 19 لوگوں نے کہا انھیں نہیں پتہ اور کسی رائے کا اظہار نہیں کیا ہے۔ یہ لوگ ابھی کسی رائے اور فیصلہ پر نہیں پہنچے ہیں۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرے گا یہ بھی اپنی رائے بنائیں گے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو اب مسلم لیگ (ن) کی واضح اکثریت شہباز شریف کی حامی نظر آتی ہے اور وہ شہباز شریف کو متبادل قیادت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ آپ ان نتائج کو ایسے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ 49فیصد مسلم لیگی کھل کر مفاہمت کے نظریہ کے ساتھ کھڑے ہوگئے ہیں۔ انھوں نے حالیہ مفاہمتی اقدامات کی توثیق کر دی ہے۔ اور وہ اس مفاہمتی پالیسی کو آگے چلتا دیکھنا چاہتے ہیں۔
یہ نتائج کوئی حیران کن نہیں ہیں۔ اگر مسلم لیگ کے ارکان اسمبلی سے رائے لی جائے تو نوے فیصد مفاہمت کے حامی ہیں۔ یہ سروے تو کارکنوں اور ووٹرز سے کیا گیا ہے۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ شہباز شریف کی مسلم لیگ (ن) کے اندر کوئی حمایت نہیں وہ اس سروے کے نتائج کو دیکھیں۔ انھیں اندازہ ہو جائے گا کہ مفاہمت کے نظریہ پر ثابت قدمی سے کھڑے رہنے کی وجہ سے شہباز شریف کی حمایت میں بہت اضافہ ہوا ہے، بہرحال یہ ایک سروے کی کہانی ہے، ممکن ہے بہت سے دوست اس سے اتفاق نہ کریں، البتہ میں ذاتی طور پر شہباز شریف کی پالیسی کو درست سمجھتا ہوں۔