پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کشمیر کے حوالہ سے او آئی سی کے اجلاس کو نہ بلائے جانے پر عرب دنیا سے کچھ گلے شکوے کیے ہیں۔ انھوں نے تاثر دیا ہے کہ اگر کشمیر کے معاملہ پر او آئی سی پاکستان کے ساتھ نہیں کھڑا ہوگی تو پاکستان اپنے طور پر کشمیر پر ایک اجلاس بلا لے گا۔ شاہ محمود قریشی کی اس گفتگو نے ایک تلخ ماحول بنا دیا۔
اس ضمن میں حقائق کا جائزہ لینا ضروری ہے تا کہ جو یک طرفہ ماحول بنایا جا رہا ہے اس کا جائزہ لیا جا سکے۔ جب پاک بھارت کشیدگی عروج پر پہنچ گئی اور جنگ کے سائے منڈلانے لگے۔ اس وقت سعودی عرب نے اپنے وزیر خارجہ شہزاد ہ فیصل بن فرحان کو پاکستان کی حمایت اور اظہار یکجہتی کے لیے پاکستان بھیجا۔ ان کے آنے سے پاکستان کی عالمی سطح پر نہ صرف پوزیشن مستحکم ہوئی۔ بلکہ بھارت کو اپنے عزائم میں ناکامی بھی ہوئی۔ ایک واضح پیغام گیا کہ سعودی عرب پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ حالانکہ اس وقت سعودی وزیر خارجہ کے د ورہ پاکستان سے بھارت خوش نہیں ہوا تھا۔
سعودی عرب کے اسی کردار کا بعد میں وفاقی وزیر فواد چوہدری نے ایک ٹی وی انٹرویو میں باقاعدہ اعتراف بھی کیا۔ وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ سعودی عرب نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ سعودی عرب نے نہ صرف خود بھارت پر دباؤ ڈالا بلکہ اپنی سفارتکاری سے دیگر عرب ممالک اور امریکا کو بھی متحرک کیا تا کہ بھارت کو جنگی عزائم سے روکا جا سکے۔ سعودی عرب نے یہ تمام کام خاموشی سے کیا تھا۔ یہ کام کرنے کے بعد سعودی وز ارت خارجہ کی جانب سے نہ تو کوئی پریس کانفرنس کی گئی اور نہ ہی پاکستان پر کوئی احسان جتایا گیا۔ پاکستان نے بعد میں خود ہی سعودی عرب کی ان کاوشوں کا اعتراف کیا۔
اگست 2019میں جب بھارت نے آرٹیکل 370کو ختم کر کے مقبوضہ کشمیر کی حیثیت بدلنے کی کوشش کی تب بھی سعودی عرب نے بھارت کے اس اقدام پر نہ صرف تشویش کا اظہار کیا بلکہ خطے کے باشندوں کے مفادات کو مدنظر رکھنے پر زور دیا۔ سعودی عرب کا بیان ان چند ممالک کے بیان میں شامل تھا جنھوں نے اس موقع پر پاکستانی موقف کی بات۔ کشمیریوں کی بات کی۔ حالانکہ مغربی اور دیگر کئی دوست ممالک نے خاموش رہنا ہی بہتر سمجھا۔ اس موقع پر سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اور وزیر اعظم عمران خان کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ بھی ہوا اور خطہ کی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔ اس موقع پر عالمی سطح پر واضح پیغام گیا کہ سعودی عرب کشمیر پر نہ صرف پاکستانی موقف کی تائید کرتا ہے بلکہ بھارت کی جانب سے آرٹیکل 370ختم کرنے پر اسے شدید تشویش بھی ہے۔
ستمبر 2019میں دوبارہ پاک بھارت کشیدگی بڑھ گئی۔ سعودی عرب کے وزیر مملکت برائے خارجہ امور عاد ل الجبیر اور متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ مشترکہ طور پر پاکستان آئے۔ اس دورہ نے اس وقت بھی کشیدگی اور تناؤ کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ شاہ محمود قریشی نے اس وقت ٹوئٹ کیا تھا کہ دونوں وزرا خارجہ کااس نازک موقع پر دورہ پاکستان کے موقف کی تائید ہے۔ اس دورہ کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے اپنے بیان میں کہا کہ دونوں وزرا خارجہ کا دورہ ان ممالک کی قیادتوں کی رہنمائی میں ہوا ہے۔ اور دونو ں ممالک کے ساتھ پاکستان کے اسٹرٹیجک تعلقات کی اہمیت پر زور دیا۔ اس موقع پر پاکستان کی جانب سے تصدیق کی گئی کہ دونوں وزرا خارجہ کے دورہ سے پاک بھارت کشیدگی کم کرنے میں بہت مدد ملی۔
مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر مسلم ممالک میں رائے عامہ ہموار کرنے اور پاکستان کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دینے کے لیے سعودی عرب نے اپنی شوریٰ کونسل کے اسپیکر کے ذریعہ جموں و کشمیر کے معاملے پر بات کرنے کے لیے اسلامی پارلیمان کے سربراہان کی ایک کانفرنس منعقد کرنے کی تجویز پیش کی۔ لیکن پاکستان نے اس تجویز پر مثبت جواب نہیں دیا۔ او آئی سی کی بہت بات کی جاتی اور پاکستان کی جانب سے اس کے کردار پر سوالات بھی اٹھائے گئے ہیں۔
میں مانتا ہوں کہ بہتری کی گنجائش موجود ہے تا ہم جو کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں ان کو ضایع کرنا بھی کوئی عقلمندی نہیں ہے۔ او آئی سی کی رابطہ کمیٹی نے اگست 2019سے اب تک مسئلہ کشمیر پر تین اجلاس منعقد کیے ہیں۔ ان میں سے دو اجلاس وزرا خارجہ کی سطح پر تھے۔ ان اجلاسوں کے بعد کشمیری عوام کے مقصد کی حما یت کے لیے سخت بیانات جاری کیے گئے۔ جن کی واضح تکلیف بھارت میں محسوس کی گئی۔
او آئی سی دنیا کی واحد تنظیم ہے جس نے 1994میں جدہ میں جموں کشمیر کے معاملے پر رابطہ کمیٹی قائم کی تھی۔ یہ کمیٹی تب سے متواتر اکشمیر پر اجلاس منعقد کر رہی ہے۔ اس کا آخری اجلاس 22جون 2020یعنی اسی سال منعقد ہوا ہے۔ اس میں سعودی عرب پاکستان آذر بائیجان ترکی اور نائیجریا کے وزرا خارجہ شریک ہوئے۔ جو نہیں ہوئے ان کی ذمے داری ہم سعودی عرب پر تو نہیں ڈال سکتے۔ او آئی سی نے کشمیر کے شہدا کے حوالہ سے بھی ایک الگ کمیٹی بنائی ہوئی ہے۔ اس کا آخری اجلاس 13جولائی 2020جدہ میں ہوا ہے۔ یقینا بھارت ان کمیٹیوں سے خوش نہیں ہے۔ ان کو ختم کروانا چاہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ او آئی سی اور سعودی عرب سے دوری پیدا کر کے ہم بھارت کے ایجنڈے کی تکمیل کر رہے ہیں یا پاکستان کے مفاد کا تحفظ کر رہے ہیں۔
اگر دیکھا جائے تو اقوام عالم میں کشمیر پر سعودی عرب کا موقف پاکستان کے موقف سے قریب تر ہے۔ پاکستان اقوام متحدہ قراردادوں کی روشنی میں کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق کشمیر کے پر امن حل کی بات کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے بھارت سے مذاکرات شروع کرنے پر بھی زور دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا سعودی عرب اور پاکستان کے موقف میں کوئی فرق ہے۔ اگر یہ سب حقیقت ہے تو مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ہم کو ناراضی کیا ہے۔ کیوں ہم ایک دوست کو بے وجہ ناراض کر رہے ہیں۔