ایک طرف پاکستان میں یہ شور مچایا جا رہا ہے کہ کاروباری سرگرمیوں کو آسان بنایا جا رہا ہے۔ حکومت نے دعوی کیا ہے کہ اس نے پاکستان کی معیشت کو دوبارہ پائوں پر کھڑا کر دیا ہے۔ جہاں ایک طرف مہنگائی میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے وہاں رکی ہوئی معیشت بھی اس حکومت کا بڑا مسئلہ ہے۔ لوگوں نے ایک انجانے خوف سے کام کرنا بند کر دیا ہے۔ اسی لیے بیروزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے۔ شرح ترقی کم ہو گئی ہے اورمعاشی سرگرمیاں بہت کم ہو گئی ہیں۔
مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ حکومت کا ہدف کیا ہے؟ اگر ٹیکس اکٹھا کرنا ہدف ہے تو ایسی اصلاحات ضرور لائی جانی چاہیے جس سے ٹیکس چوری رک سکے۔ لیکن یہ کام کرتے ہوئے خوف کی فضا قائم نہیں کرنی چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بہت بڑی میٹنگ میں جب ایک بہت بڑے صنعتکار کو کہا گیا کہ آپ کام کریں۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ اب جیل جانے کی ہمت نہیں ہے۔
حکومت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ماضی کی غلطیوں کا حساب کرنے کے بجائے نظام کو درست کرنے پر توجہ دینی ہو گی۔ ایسی ٹیکس اصلاحات لانے پر توجہ دینی ہوگی کہ کاروباری سرگرمیاں بھی متاثر نہ ہوں اور ٹیکس کا نظام بھی ٹھیک ہو جائے۔ لیکن افسوس ایسا نہیں ہو رہا ہے۔
حال ہی میں بلکہ 8نومبر2019 کوحکومت نے رئیل اسٹیٹ ڈیلرز )یعنی پراپرٹی ڈیلزر( اور جیولرز کے لیے ایک نیا نوٹیفکیشن نکالا ہے۔ اس نئے نوٹیفکیشن کے مندرجات نہایت دلچسپ اور حیران کن ہیں۔ اس میں لکھا گیا ہے کہ جب کسی پلاٹ گھر بلڈنگ یا پراپرٹی سے متعلقہ کسی بھی قسم کے لین دین کے لیے کوئی شخص پراپرٹی ڈیلر کے پاس آتا ہے تو یہ پراپرٹی ڈیلر کا فرض ہو گا کہ وہ اس بات کی تحقیق کرے کہ مذکورہ شخص کے پاس کوئی غیر قانونی سرمایہ تو نہیں ہے۔
یہ تحقیق کرنا بھی پراپرٹی ڈیلر کا فرض ہو گا کہ کیا یہ اصل خریدار یا فروخت کنندہ ہی ہے۔ یعنی کوئی بے نامی خریدار یا فروخت کنندہ تو نہیں ہے۔ کیا خریدار یا فروخت کنندہ نے اپنے اصل بینک اکائونٹ میں ہی لین دین کیا ہے۔ کیا کیش میں تو کوئی لین دین نہیں کیا گیا۔ کیا کسی تیسرے شخص کے اکائونٹ سے تو ادائیگی نہیں کی جا رہی یا کسی تیسرے شخص کے اکائونٹ میں رقم وصول تو نہیں کی جا رہی۔ یہ تحقیق کرنا بھی پراپرٹی ڈیلر کا فرض ہو گا کہ اس کے کلائنٹ کے پاس موجود سرمایہ وائٹ ہے۔
ان ساری تحقیقات کے دوران اگر پراپرٹی ڈیلر کو یہ محسوس ہو کہ معاملہ گڑ بڑ ہے تو وہ پابند ہو گا کہ اس شخص کا ڈیٹا مشکوک افراد اور مشکوک کاروباری سرگرمیوں کے ساتھ ایف بی آر کو رپورٹ کرے۔ معامہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ اگر کسی پراپرٹی ڈیلر کے ذریعے کوئی مشکوک ڈیل ہو گئی اور اس نے اس کی رپورٹ ایف بی آر کو نہ کی تو اس پراپرٹی ٰ ڈیلر کا نہ صرف لائسنس منسوخ ہو جائے گا بلکہ اس کے خلاف ضابطہ فوجداری کے تحت کارروائی بھی ہو گی جس میں تین سال سے زائد قید ہے۔
اسی طرح کی شرائط جیولرز کے لیے بھی رکھی گئی ہیں۔ وہ بھی دس لاکھ سے زائد جیولری کی خرید و فروخت کے لیے اسی قسم کی تحقیق کرنے کے پابند ہوں گے۔ اور اپنے گاہکوں کا اسی قسم کا ڈیٹا ایف بی آر کو دینے کے پابند ہوں گے۔ دس لاکھ میں آج کل دس تولے سونا ہی آتا ہے۔ اب ہر جیولر ہر خاتون سے اس کے زیور کے بارے میں مکمل تفصیلات حاصل کرنے کا پابند ہو گا۔ اور اس بات کی تحقیق کرنے کا بھی پابند ہوگا کہ یہ سونا وائٹ پیسے سے ہی خریدا جا رہا ہے۔ اگر جیولر کو لگے کہ خریدار یا بیچنے والا کا سونا جائز نہیں ہے تو وہ اس کی ایف بی آر کو رپورٹ کرنے کا پابند ہو گا۔
مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ اس قسم کے قوانین بنا کر ہم پاکستان میں کیسی ترقی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کیا اس طرح ہر پراپرٹی ڈیلر اور جیولر نیب کا تحقیقاتی افسر نہیں بن جائے جو کسی بھی گاہک کے بارے میں یہ رائے قائم کرنے میں آزاد ہو گا کہ اس کا سرمایہ ٹھیک ہے کہ نہیں۔ اس کے پاس کسی کو بھی مشکوک قرار دینے کے وسیع اختیارات حاصل ہوں گے۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ ایک شخص ایک پراپرٹی ڈیلر کے پاس ایک سودے کے لیے گیا اور آخری موقعے پر سودا منسوخ ہو گیا۔ ریٹ نہیں بنا یا کوئی اور وجہ ہو گئی تو پراپرٹی ڈیلر نے غصہ میں آ کر اس کو مشکوک قراد دیکر ایف بی آر میں اس کا ڈیٹا اپ لوڈ کر دیا۔ فیصلے کا یہ اختیار ان پراپرٹی ڈیلروں اور جیولرز کو کیسے دیا جا سکتا ہے۔
میں نے جب ایف بی آر اور رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کے نمایندوں سے بات کی تو معلوم ہوا کہ رئیل اسٹیٹ ڈیلرز نے بہت شور مچایا ہے کہ اس طرح ان کا کاروبار مزید بیٹھ جائے گا۔ لوگ پراپرٹی میں سرمایہ کاری کرنا بند کر دیں گے۔ ایف بی آرکے چیئرمین اور ممبر پالیسی کے ساتھ رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کی تنظیم کے نمایندوں کے مذاکرات ہوئے ہیں۔ تاحال کوئی حتمی حل سامنے نہیں آیا۔ دنیا میں کہیں ایسے کسی قانون کی کوئی مثال نہیں ہے۔ جب خریدار اور فروخت کنندہ کسی بھی جائیداد کی خریدو فروخت اور لین دین کے لیے ٹیکس ادا کرتے ہیں تو ان کا ڈیٹا ایف بی آر کے پاس آ جاتا ہے۔ پھر یہ اضافی تحقیقات کا بوجھ کیوں ڈالا جا رہا ہے۔ کاروباری پیچیدگیاں کیوں پیدا کی جا رہی ہیں۔
حکومت کا موقف ہے کہ FATF نے پابندیاں لگانے پر مجبور کیا ہے۔ اگر بلیک لسٹ میں جانے سے بچنا ہے تو یہ پابندیاں لگانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ ایف ٹی اے ایف کا موقف ہے کہ پاکستان میں دہشت گرد پراپرٹی اور جیو لری میں اپنا سرمایہ چھپاتے ہیں اور بوقت ضرورت کیش کرا لیتے ہیں۔ لہٰذا جو پراپرٹی ڈیلر یا جیولر کسی بھی دہشت گرد یا مشکوک شخص کے ساتھ لین دین کرے گا اس کو بھی ان کا مالی معاون سمجھا جائے گا۔ پراپرٹی ڈیلر اور جیو لرز اب اس نئے قانون کے تحت ایف بی آر کو جو ڈیٹا دیں گے اس تکFATFکو بھی رسائی ہو گی اور وہ ایک ایک ٹرانزیکشن چیک کر سکیں گے۔ ایسی پابندیاں وکلا اور چارٹرڈ اکائونٹنٹس پر بھی لگنے جا رہی ہیں۔ وہ کام ایس ای سی پی کو دیا گیا ہے۔
حکومت FATF کے سامنے بے بسی مظاہرہ کر رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بھارتی لابی نے پاکستان کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ اس ساری صورتحال میں ایسا لگ رہا ہے کہ چاہے ہم گرے سے بلیک لسٹ میں نہ بھی جائیں لیکن ایسی پابندیوں سے پاکستان کو معاشی طور پر ایسے جکڑا جا رہا ہے کہ گرے لسٹ میں بھی وہ نقصان ہو جائے جو بلیک لسٹ میں جانے سے ہونا ہے۔ پاکستان نے فروری میں یہ سب کام کر کے FATF کو بتانا ہے پھر وہ ہماری قسمت کا اگلا فیصلہ کریں گے۔ باقی جو لوگ کہتے ہیں کہ ہم جیت رہے ہیں وہ بھی درست ہی کہتے ہوں گے۔ لیکن حقیقت بر عکس ہے۔ مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ ہم اپنی خود مختاری بھی قربان کرتے جا رہے ہیں۔