نیب نے قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کو دوبارہ طلب کر لیا ہے۔ نیب اور شہباز شریف کے درمیان یہ محبت اور جنگ عمران خان کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے جاری ہے۔
عمران خان کی حکومت بننے کے بعد شہباز شریف کو سب سے پہلے گرفتار کیا گیا۔ اس وقت بھی ان کے بیٹے حمزہ شہباز جیل میں ہیں۔ شہباز شریف کو آشیانہ کیس میں گرفتار کیا گیا۔ لیکن بعدازاں مکمل ریمانڈ کاٹنے اور جیل برداشت کرنے کے بعد ملک کی اعلیٰ عدالت نے انھیں ضمانت دی۔ ان کے ضمانت کے حکم نامہ میں بھی لکھا گیا کہ ان کے خلاف کوئی ٹھوس شواہد سامنے نہیں لائے جاسکے۔
پتہ نہیں کیوں لیکن جب بھی شہباز شریف بطور قائد حزب اختلاف حکومت کو ٹف ٹائم دیتے ہیں انھیں پروانہ محبت آجاتا ہے۔ جب بھی حکومت کے پاس ان کا کوئی سیاسی حل نہیں ہوتا تب ہی ایسا ہوتا ہے۔ ویسے تو شہباز شریف کے دوست انھیں مشورہ دے رہے تھے کہ وہ ابھی وطن واپس نہ آئیں۔
کورونا کے اس ماحول میں جب وہ کہیں آجا بھی نہیں سکیں گے وہ پاکستان آکر کیا کریں گے۔ ان کے دوستوں نے انھیں اس بات سے بھی خبردار کیا تھا کہ جیسے ہی وہ حکومت کو ٹف ٹائم دیں گے۔ ان کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس لیے میں نہیں سمجھتا کہ حالیہ طلبی شہباز شریف کے لیے کسی حیرانی اور پریشانی کا باعث ہوگی۔ اس کا انھیں اور ساری مسلم لیگ (ن) کو معلوم تھا۔ ویسے بھی جب سے عمران خان کی حکومت آئی ہے مسلم لیگ کو یہ مسئلہ رہا ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی کوشش کی ہے اسے گرفتار کیا گیاہے۔
پتہ نہیں کیوں لیکن یہ تاثر اور رائے مضبو ط ہے کہ خاموش رہنے والوں کے لیے آسانیاں ہیں جب کہ بولنے والوں کی گردن شکنجے میں ہے۔ حکومت کی نظر میں اس وقت شہباز شریف کی سب سے بڑی غلطی چینی اور آٹا سکینڈ ل میں عمران خان کو ملوث کرنا ہے۔ اگر شہباز شریف یہ شور نہ مچاتے کہ تمام فیصلوں کی اصل ذمے داری عمران خان پر عائد ہوتی ہے تو معاملہ جہانگیر ترین تک ہی ختم ہو جاتا۔ اور عمران خان اور حکومت ہیرو بن جاتی۔ لیکن شہباز شریف نے بار بار بیان دیکر کہ برآمد کی اجازت کس نے دی۔ سبسڈی کا فیصلہ کس کا تھا۔ ماحول ہی خراب کر دیا۔ حکومت کی ساری حکمت عملی ہی فیل ہو گئی۔
کیا یہ سوال کرنا جائز نہیں ہے کہ یہ کیسا احتساب ہے جو صرف اپوزیشن کے گرد ہی گھوم رہا ہے۔ ایک وزیر صاحب تو کھلم کھلا اعلان کر رہے ہیں کہ انھوں نے شہباز شریف کی گرفتاری رکوانے کے لیے دم کیا ہے۔ اس وقت بھی شائد پہلے مرحلہ میں شہباز شریف کی گرفتاری مقصد نہیں تھی اسی لیے جب شہباز شریف نے پہلے نوٹس پر پیش نہ ہونے کا فیصلہ کیا اور نیب نے بھی و ضاحت نامہ میں یہی واضح کیا کہ صرف سوال جواب کرنا مقصود ہے، گرفتاری مقصود نہیں ہے۔
اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ شہباز شریف کو پیغام دیا جائے کہ وہ حکومت کو ٹف ٹائم دینا بند کریں۔ یہ روزانہ ویڈیو اور ٹیلی کانفرنسیں بند کریں۔ حکومت کے اقدمات کی مخالفت بند کردیں۔ چپ کر جائیں۔ اس حکومت میں چپ کر جانے والے کے لیے عافیت ہی عافیت ہے۔ میں سمجھتا ہوں شہباز شریف بھی پیغام کو سمجھ رہے ہیں۔ اگر انھوں نے حکومت کی مخالفت بند نہ کی تو دعوت معاملات آگے بھی بڑ ھ سکتے ہیں۔ ایک ماحول بنانے کی کوشش کی جائے گی کہ جب تک شہباز شریف گرفتار نہیں ہوں گے ملک آگے چل ہی نہیں سکتا۔
اگر یہ مان لیا جائے کہ نیب کے نوٹس کا مقصد صرف اور صرف چند سوال کرنا ہی مقصود ہے تو اس کے لیے کورونا کے اس ماحول میں بلانے کے بجائے سوالنامہ بھی بھیجا سکتاہے اور ان سوالوں کے جواب بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ ویڈیو کانفرنس بھی ہوسکتی ہے۔ لیکن شاید ایسا کرنے سے بات نہیں بنتی۔ ویسے بھی ایک پیغام دیا جا رہا ہے کہ دیکھیں جیلوں میں کورونا پھیل چکا ہے۔ اگرآپ کو اس وقت جیل میں ڈال دیا تو آپ کا کورونا سے بچنا نا ممکن ہو جائے گا۔
یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ عمران خان کی حکومت تقریبا دو سال سے شہباز شریف اور ان کے خاندان کا احتساب کر رہی ہے۔ ان دو سالوں میں حکومت شہباز شریف کے خلاف سرکاری خزانہ میں خرد برد اور کرپشن کا ایک کیس نہیں بنا سکی ہے۔ شہباز شریف کے دور میں کوئی ایک کام نہیں ہوا۔ پراجیکٹ ہی پراجیکٹ ہیں۔ کل جس پی کے ایل آئی کے خلاف اتنا پراپیگنڈا کیا جاتا تھا آج وہی پی کے ایل آئی کورونا کے خلاف جنگ میں حکومت کی سب سے زیادہ مدد کر رہا ہے۔ ہزاروں یونٹ بجلی کے پلانٹ لگائے۔ میٹروز بنائی ہیں۔ لیکن پھر بھی کسی میگا پراجیکٹ میں ان کے خلاف کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے۔ کسی سرکاری خزانہ سے شہباز شریف کی لوٹ مار کا کوئی نشان نہیں ملا ہے۔ لیکن پھر بھی ان کا حتساب جاری ہے۔
شہباز شریف اور ان کے خاندان کا احتساب جس معیار پر کیا جا رہا ہے اس معیار اور پیمانہ پر کسی اور کا احتساب نہیں کیا جا رہا ہے۔ ٹی ٹی کا جو معیار سلمان شہباز کے لیے ہے وہ باقی سیاسی خاندانوں اور کاروباری افراد کے لیے نہیں ہے۔ آج دو سال بعد کیا حکومت سے یہ سوال جائز نہیں ہے کہ کیا وہ سب صرف سلمان شہباز کے لیے ہے اور باقی سب کے لیے عام معافی ہے۔ کیوں نہیں گزشتہ دس سال میں جس جس نے ٹی ٹی لگوائی سب کو پکڑا جاتا ہے۔ یہ کاروباری طریقہ کار تھا جو پاکستان کے سب کاروباری افراد استعمال کر رہے تھے۔ اس میں کرپشن کا کوئی عنصر نہیں تھا۔
حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ سلمان شہباز پر کیس بنانے کی کوشش میں جب ملک کی معیشت ہی بیٹھ گئی اور سارے کاروباری لوگ ڈ ر گئے۔ انھوں نے کاروبار بند کر دیے۔ معیشت کا پہیہ رک گیا تو پھر وضاحتیں شروع ہوئیں۔ اگر حکومت دوسروں کے بجائے اپنا احتساب ہی کرلے تو ا سے اندازہ ہو جائے گا کہ انھوں نے ملکی معیشت کو کتنا نقصان پہنچایا دیا ہے۔ اسی لیے آپ دیکھ لیں اس کے بعد باقی سب کو عام معافی حاصل ہے۔ کسی کو چیک بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔ لیکن پھر بھی ملک کا اتنا نقصان ہو گیا۔
معیشت اس قدر جمود کا شکار ہو گئی کہ حکومت نیب قوانین میں ترمیم کرنے پر بھی مجبور ہو گئی۔ لیکن معاملہ پھر بھی نہیں چل رہا۔ کورونا کے اس ماحول میں جب چیف جسٹس پاکستان نے اس بات پر ناراضگی کا اعلان کیا ہے کہ حکومت نے پارلیمنٹ کو تالے کیوں لگائے ہوئے ہیں۔ وفاقی وزیر قانون کہہ رہے ہیں کہ حکومت کی کوشش ہے کہ قوانین میں ترامیم کے لیے پارلیمنٹ کا اجلاس بلائے۔