ملک کا سیاسی منظر نامہ عجیب سے عجیب تو ہو تا جا رہا ہے۔ ایک طرف مولانا فضل ا لرحمٰن کے آزادی مارچ کا شور ہے، دوسری طرف پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی جانب سے آزادی مارچ موخر کرنے کا شور ہے۔ تیسری طرف تبدیلی حکومت میں تبدیلیوں کا شور ہے۔ چوتھی طرف پنجاب میں بھی دس سے زائد وزیروں کی چھٹی کا شور ہے۔
بجلی مہنگا ہونے کا شور بھی ہے۔ پٹرو ل سستا نہیں ہوا، اس کا بھی شور ہے لیکن سنائی نہیں دے رہا۔ تحریک انصاف کے فارن فنڈنگ کیس کا شور ہے۔ لوگ اس کو اشارہ کہہ رہے ہیں۔ نیب کی جانب سے تبدیلی حکومت میں دوائیوں کی قیمتوں میں تین سو گنا تک اضافہ پر انکوائری کو بھی تبدیلی حکومت کے لیے اشارہ کہا جا رہا ہے۔ ڈنگی کا شور بھی موجود ہے۔ حکومت کی نا اہلی اور نا لائقی کا بھی شور ہے۔
پتہ نہیں کیوں لیکن حکومت کے جانے کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ اس حکومت کی ناکامی کی باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ امریکا کے کامیاب دورے کا سحر بھی زیادہ دن قائم نہیں رہ سکا ہے۔ ملیحہ لودھی کی تبدیلی نے سارے سحر کو توڑ دیا ہے۔ اگر دورہ امریکا کا سیاسی فائدہ اٹھانا تھا تو ملیحہ لودھی کو ایک ہفتہ بعد بھی ہٹایا جا سکتا تھا۔ وزیر اعظم کی جانب سے کابینہ میں تبدیلی کا اعلان بھی دراصل ناکامیوں کا اعلان ہے۔
پنجاب میں بھی کابینہ میں بڑی تبدیلیوں کی خبر ہے۔ مہنگائی کا جن حکومت سے بے قابو ہو تا جا رہا ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ اس حکومت کو مارنے کی کوئی ضرورت نہیں، یہ اپنی ناکامیوں کے بوجھ تلے خود ہی دب جائے گی۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت حکومت کو سب سے بڑا خطر ہ شہباز شریف کے بھوت سے ہے۔ شہباز شریف کا بھوت اس حکومت کو چین نہیں لینے دے رہا۔ اس بھوت نے اس حکومت کی مت مار دی ہے۔
اور اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ اس وقت موجودہ حکومت کو نہ تو مولانا فضل الرحمٰن کے آزادی مارچ سے کوئی خطرہ ہے اور نہ ہی کوئی سازش اس حکومت کے لیے کوئی خطرہ پیدا کر سکتی ہے۔ لیکن شہباز شریف کے بھوت نے اس حکومت کی رات کی نیند حرام کر دی ہے۔ اور یہ بھوت کوئی کام بھی ٹھیک نہیں ہونے دے رہا۔ دوسری طرف یہ بھوت مسلم لیگ ن کے لیے بھی پریشانی کا باعث ہے۔
شہباز شریف کا یہ بھوت مفاہمت کی سیاست کا حامی ہے۔ اس لیے یہ بھوت مسلم لیگ (ن) کے اندر مزاحمت کے حامی گر وپ کے لیے درد سر ہے۔ مزاحمتی گروپ نے بار بار اعلان کیا کہ مولانا فضل الر حمٰن کے آزادی مارچ میں شرکت کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ ان کی جانب سے کارکنوں کو شرکت کی دعوت بھی دی جا رہی تھی۔ لیکن یہ شہباز شریف کے بھوت نے سارا معاملہ خراب کر دیا۔
اور شہباز شریف کی صدارت میں ہونے والی مسلم لیگ (ن) کی سینٹرل ایگزیکٹو میں مولانا فضل الرحمٰن کو اپنا آزادی مارچ ملتوی کرنے کا مشورہ دے دیا گیا تھا۔ ورنہ مزاحمتی گروپ کا تو دعویٰ تھا کہ جیل سے شرکت کا فیصلہ آگیا ہے۔ قائد نے کہہ دیا ہے کہ بس شرکت کرنی ہے۔ اب تو سینٹرل ایگزیکٹو کا اجلاس ایک رسمی کارروائی ہے۔
لیکن یہ شہباز شریف کا بھوت سینٹرل ایگزیکٹو میں ایسا چھا گیا ہے کہ سب کو سانپ ہی سونگھ گیا ہے۔ شہباز شریف کی مفاہت کی سیاست کا بھوت وزیر اعظم عمران خان کے لیے بھی پریشانی کا باعث ہے۔ عمران خان جانتے ہیں کہ شہباز شریف ہی ان کے متبادل ہیں۔
اس لیے وہ شہباز شریف پر تنقید کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ دوست کہتے ہیں کہ عمران خان کو مائنس کر کے شاہ محمود قریشی کو وزیر اعظم بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ دوست کہتے ہیں کہ شاہ محمود قریشی کی قیادت میں ایک قومی حکومت بنانے کی بھی باتیں ہو رہی ہیں۔ لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ اب عمران خان جائیں گے تو شہباز شریف آئیں گے۔
اگر کوئی قومی حکومت بننی ہے تو وہ شہباز شریف کی قیادت میں بنے گی۔ تحریک انصاف کے اندر کے دھڑے بھی شاہ محمود قریشی کو قبول نہیں کریں گے۔ پیپلزپارٹی کو بھی شاہ محمود قبول نہیں ہوگا۔ لیکن شہباز شریف سب کو قبول ہو گا۔ اس لیے جب بھی قومی حکومت کا شور سنائی دیتا ہے شہباز شریف کا بھوت عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو پریشان کر دیتا ہے۔
کشمیر کے مسئلہ پر شہباز شریف کا بیان کہ ہم حکومت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ایک بھوت کی طرح حکومت کوپریشان کر رہا ہے۔ حکومت شہباز شریف کے اس بیان سے خوش نہیں ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ شہباز شریف کے ایسے بیان اور ٹوئٹ بھوت بن کر اسٹبلشمنٹ کے اندر سرنگ لگا رہے ہیں۔ وہاں شہباز شریف کے لیے ماحول بن رہا ہے۔ شہباز شریف بتا رہے ہیں کہ وہ اہم قومی معاملات میں سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر ریاست کے ساتھ چلنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔
یقینا حکمران جماعت کو یہ پسند نہیں۔ اس حکومت کی نالائقی اور نا اہلی کا شور بھی شہباز شریف کے بھوت کی صورت میں حکومت کو پریشان کر رہا ہے۔ آپ بی آر ٹی کو دیکھ لیں۔ یہ شہباز شریف کا بھوت ہی تھا جس نے پنجاب میں تین میٹرو مقررہ وقت اور قیمت میں بنا دی تھیں۔ حکومت شدید کوشش کے باوجود ان منصوبوں میں کرپشن نہیں ڈھونڈ سکی ہے۔
دوسری طرف شہباز شریف کا بھوت پشاور بی آر ٹی کا منصوبہ مکمل نہیں ہونے دے رہا۔ آپ دیکھیں حکومت کے پاس تمام وسائل بھی موجود ہیں لیکن منصوبہ مکمل نہیں ہو رہا۔ اسی طرح لاہور کی اورنج لائن کو بھی شہباز شریف کا بھوت مکمل نہیں ہونے دے رہا۔ وہ جہاں سے اسے بناتے ہیں شہباز شریف کا بھوت اس کو خراب کر دیتا ہے۔ میں نے شہباز شریف کے بھوت سے پوچھا کہ یہ آجکل لوڈ شیڈنگ کیوں ہو رہی ہے۔ بجلی تو پوری تھی۔ ویسے بھی خود عمران خان نے بجلی پوری ہونے کی وفاقی وزیر عمر ایوب کو مبارکباد دی تھی۔
اب کیا ہوا ہے۔ بھوت نے مسکراتے ہوئے مجھے کہا کہ تمھیں نہیں معلوم میں شہباز شریف کا بھوت ہوں۔ اگر میں ریکارڈ مدت میں بجلی کے منصوبے لگا سکتا ہوں تو انھیں غائب بھی کر سکتا ہوں۔ سب کہتے ہیں بجلی پوری ہے لیکن پھر بھی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے۔ یہی میرا کمال ہے۔ بجلی ہے بھی اور نہیں بھی۔ اس نے مجھے کہا تم دیکھو سستی بجلی کے منصوبے لگنے کے باوجود بجلی روز مہنگی ہو رہی ہے۔ بجلی کے وہ منصوبے جو گزشتہ دور حکومت میں سستی بجلی بنا رہے تھے۔ وہ اب مہنگی بجلی بنا رہے ہیں۔ اس کو کہتے ہیں کمال۔
میں نے کہا اور کیا کر رہے ہو۔ اس نے کہا، میں بہت مصروف ہوں۔ تمھیں پتہ ہے کہ یہ مہنگائی کا جن کیا گل کھلا رہا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں میری اس سے ناراضی تھی۔ اس کو گلہ تھا کہ میں اس کی مدد نہیں کرتا۔ اب میں نے اس کو بلا لیا ہے کہ جو مرضی کرو۔ میں نے کہا مہنگائی بے قابو ہو گئی ہے۔ شہباز شریف کا بھوت بولا، یہ بھی میرا کمال ہے۔ میں نے کہا اور کیا کر رہے ہو۔
اس نے کہا ہر کام خراب کر رہا ہوں۔ لاہور میں صفائی تھی اس کو خراب کر رہا ہوں۔ تمھیں پتہ ہے میں نے ایسا چکر چلا یا ہے کہ ترکی والے جا رہے ہیں۔ اپنی مشینری بھی ساتھ لیجا رہے ہیں۔ اب گند کون اٹھائے گا۔ میں کراچی اور لاہور میں فرق مٹا دوں گا۔ میں شہباز شریف کے بھوت سے اور باتیں کرنا چاہتا تھا۔ اس نے کہا میں نے جانا ہے۔ میں نے کہا اب کہاں جا رہے ہو۔ کہنے لگا، قومی اسمبلی کا سیشن آرام سے چل رہا ہے۔ جا کر کسی حکومتی رکن کو اکساؤں گا کہ ماحول خراب کرو۔ اور وہ چلا گیا۔