حکومت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ملتوی کر دیا ہے۔ اطلاعات یہی ہیں کہ وزیر اعظم کے ظہرانے میں پورے ارکان آئے ہی نہیں۔ اس لیے حکومت کے پاس مشترکہ اجلاس ملتوی کرنے کے سوا کوئی آپشن تھا ہی نہیں۔ ویسے بھی اس سے قبل قومی اسمبلی میں حکومت کو دو بلوں پر شکست ہوئی۔
اپوزیشن کے ارکان کی تعداد حکومت کے ارکان کی تعداد سے زیادہ نکلی۔ حکومت کی شکست نے یقینا اقتدار کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دی ہیں، سونے پر سہاگا وزیر اعظم کے ظہرانہ سے 75سے زائد ارکان غائب تھے۔ جس نے حکومت پر واضح کر دیا کہ وہ مشترکہ اجلاس میں بھی اپوزیشن سے ہار جائے گی۔
حکومت نے یہ مشترکہ اجلاس بہت تیاری سے بلایا تھا۔ حکومت نیب آرڈیننس اور ای وی ایم پر قانون سازی ہر حال میں کرنا چاہتی تھی۔ ان معاملات پر حکومت آرڈیننس پہلے ہی جاری کر چکی تھی، جن کی مدت ختم ہونے کے قریب تھی۔ پھر اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا معاملہ بھی عمران خان کے لیے بہت ضروری تھالیکن ارکان ہی نہیں آئے، یوں تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔
کوئی تو طاقت تھی جو پہلے ارکان کو حاضر کر دیتی تھی لیکن اس بار عمران خان کے پاس وہ طاقت نہیں تھی، اس لیے ان کے اپنے ارکان ہی نہیں آئے۔ ان کے اتحادیوں نے بھی اب زبانیں کھولنی شروع کر دی ہیں۔ آپ دیکھیں وہ اتحادی جوکوئی بات نہیں کر سکتے تھے، وہ اب کھلم کھلا اختلاف کر رہے ہیں، یہ نئی تبدیلی ہے۔
حکومت کو دفاعی پوزیشن میں لانے میں میاں شہباز شریف نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ مشترکہ اجلاس سے پہلے ہی میاں شہباز شریف نے تمام اپوزیشن کو اکٹھا کر لیا تھا۔ انھوں نے بلاول سمیت اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے سربراہان کو خود فون کیے۔ انھوں نے اے این پی سے بھی مراسم بحال کیے۔ پی ڈی ایم سے پیدا ہونے والی تلخیوں کو ایک طرف رکھ کر سب کے پارلیمنٹ میں اکٹھے چلنے کی راہ نکالی۔ شہباز شریف نے تو سراج الحق کو بھی فون کیا۔ انھوں نے پارلیمنٹ میں تمام ممکنہ حمایت کو اکٹھا کیا۔ اپویشن کو اکٹھا کیا۔ جس کی وجہ سے پہلے قومی اسمبلی میں حکومت کو شکست ہوئی اور پھر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے لیے اپوزیشن کی صف بندی بہت مضبوط ہو گئی۔
شہباز شریف نے متحدہ اپوزیشن کو جو عشائیہ دیا اس میں ساری اپوزیشن موجود تھی۔ حکومت نے جب شہباز شریف کے عشائیہ کی تفصیلات حاصل کیں تو انھیں اندازہ ہو اکہ اپوزیشن نہ صرف اکٹھی ہے بلکہ ان کی تعداد بھی پوری ہے۔ ادھر حکومت پوری کوشش کے باوجود اپنے ارکان کی تعداد پوری نہیں کر پا رہی تھی۔ وہ طاقت بھی غائب تھی جو عمران خان کے لیے پہلے اپوزیشن کو تقسیم کر دیتی تھی، اپوزیشن کو آپس میں لڑا دیتی تھیں، اس بار ایسا نہیں تھا۔ ادھرشہباز شریف دن رات اپوزیشن کو اکٹھا کرنے کے کام کر رہے تھے۔ جس کا حکومت کے پاس کوئی توڑ نہیں تھا۔
اگر شہباز شریف حکمت سے ساری اپوزیشن کو اکٹھا نہیں کرتے تو یہ ممکن نہیں تھا۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان یہ پہلا سیاسی معرکہ تھا جس میں فریقین کو بیرونی مدد حاصل نہیں تھی۔ دونوں نے اپنے زور پر یہ معرکہ لڑنا تھا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ پہلا سیاسی معرکہ شہباز شریف نے جیت لیا ہے۔ انھوں نے سیاسی میدان میں عمران خان کو سیاسی حکمت سے شکست دی ہے۔
شہباز شریف نے پارلیمنٹ میں جس طرح اپوزیشن کو اکٹھا کیا ہے۔ یہ ایک دن میں نہیں ہوا۔ شہباز شریف جب نیب کی لمبی قید سے رہائی کے بعد واپس آئے تب بھی انھوں نے اپوزیشن کو اکٹھا کرنے کی کوشش شروع کی۔ ان کی رہائی کے موقعے پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان ماحول اس قدر تلخ تھا کہ بلاول نے انھیں رہائی پر رسمی طور پر فون کرکے مبارک بھی نہیں دی تھی۔ اس کے باوجود شہباز شریف نے پارلیمنٹ پہنچنے پر اپوزیشن کو عشائیہ دیا۔ پہلے عشائیہ میں بلاو ل خود نہیں آئے لیکن پیپلزپارٹی کا اعلیٰ سطح وفد آگیا۔ اس وقت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندر بھی شہباز شریف کی مخالفت نظر آئی۔
پیپلزپارٹی کو پی ڈی ایم سے نکالنے والی مسلم لیگ (ن) کی ٹیم کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ شہباز شریف کیا کر رہے ہیں۔ ان کی رائے میں پیپلزپارٹی سے بات کرنا بھی فضول تھا۔ لیکن شہباز شریف کا موقف تھا کہ پیپلزپارٹی کو پی ڈی ایم میں شامل کرنا غلط تھا۔ لیکن پارلیمنٹ میں ان کے ساتھ چلنا غلط نہیں ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ شہباز شریف پیپلزپارٹی کے ساتھ عوامی اتحاد بنانے کے حق میں نہیں تھے۔ وہ پارلیمنٹ کی حد تک اکٹھے چلنے کے حق میں تھے اوروہ اپنے اس موقف پر آج بھی قائم ہیں۔ جو پیپلزپارٹی کے ساتھ کسی عوامی جدو جہد کا خواب دیکھتے رہے، غلط ان کی سیاسی بصیرت ثابت ہوئی ہے۔
بلاول بھٹو نے بھی شہباز شریف کے عشائیہ کے اگلے دن متحدہ اپوزیشن کو جو عشائیہ دیا، اس میں اس بات کا اقرار کیا کہ اپوزیشن کو اکٹھا کرنے کا سارا سہرا شہباز شریف کو جاتا ہے۔ لیکن شاید بلاول کو شہباز شریف کی جانب سے اس سیاسی حکمت عملی کی توقع نہیں تھی۔ تین سال میں یہ پہلی دفعہ ہے کہ اپوزیشن حکومت کو کسی محاذ پر شکست دینے کے قابل ہوئی ہے۔ یہ درست ہے کہ ملک کے سیاسی حالات بدلے ہیں، سیاسی ماحول بدل رہا ہے، لیکن اتنی تیزی سے بدل جائے گا اس کا کسی کو اندازہ بھی نہیں تھا۔
ویسے تو عمران خان پہلے دن سے شہباز شریف کو اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے پہلے دن سے شہباز شریف کو اپنے ٹارگٹ پر رکھا۔ انھیں سب سے پہلے گرفتار کیا گیا۔ نیب کی لمبی جیل کٹوائی گئی۔ رہائی ہوئی پھر دوبارہ گرفتار کیا گیا۔ پروڈکشن آرڈر نہیں جاری کیے گئے۔ شہباز شریف کو سیاست سے دور رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ لیکن کس کو پتہ تھا کہ عمران خان درست سوچتے ہیں، شہباز شر یف ان کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن جائیں گے۔ ویسے بھی مسلم لیگ (ن) میں بھی یہ بات طے ہو گئی ہے کہ ان کا ہدف عمران خان ہے۔ اس لیے اب ہدف عمران خان ہی ہوگا۔ باقی سب باتیں ختم ہو گئی ہیں۔
کیا پوزیشن کو جو کامیابی ملی ہے وہ عارضی ہے یا یہاں سے سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ کیا عمران خان پارلیمنٹ کے اندر پیدا ہونے والے مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔ ان کے اتحادیوں کو جو سیاسی آزادی ملی ہے، وہ دوبارہ ختم کیسے ہو گی۔ کیا عمران خان میں اتنی سیاسی صلاحیت ہے کہ وہ سیاسی معاملات کو سیاسی انداز میں حل کر سکیں۔ عمران خان کا انداز ہی ایسا نہیں ہے کہ وہ سیاسی معاملات سیاسی حکمت سے حل کر سکیں۔ انھیں بیرونی مدد کی ایسی عادت پڑ گئی ہے کہ اب اس کے بغیر ان کا چلنا ممکن نظر نہیں آرہا۔ دوسری طرف شہباز شریف دن بدن عمران خان کے لیے بڑا خطرہ بنتے جائیں گے۔
عمران خان کے پاس ان کی کسی سیاسی چال کا جواب نظر نہیں آئے گا۔ اگر ایک طرف سڑکوں پر میدان سج گیا دوسری طرف پارلیمنٹ میں میدان سج گیا تو حکومت کے لیے یقینا مشکلات میں دن بدن میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ ابھی تک تو یہی منظر نامہ نظر آرہا ہے۔ بہر حال موجودہ فتح کا کریڈٹ شہباز شریف کو ہی جاتا ہے۔