پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت اپنا تیسرا دور پورا کر رہی ہے۔ اگر اس بار بھی وہ اپنی مدت مکمل کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے صوبائی حکومت کے تین دور مکمل کرنے کا ایک ریکارڈ ہوگا۔
اقتدار کے مسلسل پندرہ سال اپنی جگہ ایک ریکارڈ ہوگا۔ جسے مستقبل قریب میں توڑنا ممکن نہیں ہوگا۔ ویسے بھی کسی بھی صوبے میں اتنا سیاسی استحکام نہیں ہے کہ وہاں ایک ہی جماعت مسلسل پندرہ سال اقتدار میں رہ سکے۔
جہاں یہ ایک ریکارڈ ہے کہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت اپنی تیسری مدت پوری کر رہی ہے۔ وہاں پیپلز پارٹی کی حکومت پر بیڈ گورننس کے الزامت ہیں۔ بارہویں سال میں داخل ہونے و الی حکومت کوئی ایسا بڑا یا شاندار منصوبہ پایہ تکمیل تک نہیں پہنچا سکی جسے مثال کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ ان بارہ سالوں میں تعلیم کا نظام ٹھیک ہو سکا ہے اور نہ ہی صحت کا۔ نہ ہی انفرا اسٹرکچر ٹھیک ہو سکا ہے۔
پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت کا بنیادی تعلق دیہی سندھ سے ہے۔ اس لیے ایک مربوط پالیسی کے تحت سندھ کے بڑے شہری علاقوں کے ساتھ سوتیلی اولاد کا سلوک کیا گیا ہے۔ کراچی کی حالت پیپلزپارٹی کی کارکردگی کی کہانی سنا رہی ہے۔ جسے چھپایا نہیں جا سکتا۔ ویسے تو لاڑکانہ کی صورتحال کراچی سے بھی بری ہے۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پیپلزپارٹی نے اگر شہری علاقوں کے ساتھ برا سلوک کیا ہے تو دیہی علاقو ں میں ترقی کا جال بچھا دیا ہے۔ حالت دونوں طرف ہی بری ہے۔
کراچی کی بری حالت پر سب پریشان ہیں۔ حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ کراچی کی قیادت ہمیشہ حکومت میں شامل رہی ہے۔ ایم کیو ایم آج بھی مرکزی حکومت میں شامل ہے۔ کوئی بھی ایسی حکومت نہیں رہی ہے جس میں ایم کیو ایم شامل نہیں رہی ہے۔ لیکن پھر بھی ایم کیو ایم اور کراچی کی دیگر سیاسی قیادت کراچی کے ووٹوں سے اقتدار میں تو آجاتی ہے۔ لیکن کراچی کے لیے کچھ نہیں کرتی ہے۔ ووٹ لینے کے بعد یہ کراچی کو بھول جاتے ہیں۔
ان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ بہرحال پیپلزپارٹی نے اپنے اتنے لمبے دور اقتدار میں دیہی اور شہری سندھ کے درمیان سیاسی تفریق کی خلیج کو وسیع کیا ہے۔ جس کا اسے فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوگا۔ پیپلز پارٹی کے اقتدار نے ایک سوچ پیدا کی ہے کہ یہ سندھ کی دیہی اشرافیہ کی حکومت ہے۔ ویسے تو کے پی میں تحریک انصاف کی حکومت بھی دوسرا دور مکمل کر رہی ہے اور ان کی بھی اب تک کی کارکردگی پیپلزپارٹی کے نقش قدم پر ہی چل رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی حکومت کا تسلسل توڑا گیا ہے۔ حالانکہ دیکھا جائے تو وہ ٹھیک جا رہے تھے۔ بری حکومتوں کو تسلسل برقرار رکھنے کا موقع دیا گیا ہے اور ایک اچھی حکومت کو روکا گیا ہے۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور اب بھی ارباب اقتدار کی توجہ کراچی کے مسائل پر دلانا چاہتا ہوں۔ حالیہ مردم شماری پر کراچی میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ایک عمومی رائے ہے کہ مردم شماری میں سندھ کے شہری علاقوں کی آبادی کو کم دکھایا گیا ہے۔ اس ضمن میں کراچی کی مردم شماری کو دوبارہ چیک کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا۔ لیکن اس پر عمل نہیں ہو سکا۔ جس کی وجہ سے سندھ کے دیہی اور شہری علاقوں میں سیاسی خلیج میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک تاثر قائم ہو رہا ہے کہ پی پی پی مردم شماری کے بارے میں ابہام دور نہیں کر رہی ہے۔ اس ضمن میں وفاقی حکومت کا کردار بھی درست نظر نہیں آرہا۔ میں سمجھتا ہوں یہ پالیسی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہے۔ اس سے ایسی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ جو بڑے تنازعات کو جنم دیتی ہیں۔ ہمیں اس کا احساس کرنا چاہیے۔
سندھ کے شہری علاقوں کے ووٹروں کی تعداد میں کمی اور دیہی سندھ کے ووٹروں کی تعداد میں اضافے کا تاثر نیک شگون نہیں ہے۔ اسے دور کرنے کی ضرورت ہے۔ آج سندھی مہاجر مایوس نظر آرہا ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ اگر پنجاب کو تقسیم کرنے کی بات ہوسکتی ہے تو سندھ کے بارے میں باتیں ہوں گی۔ کیا یہ بات باعث حیرانی نہیں ہے کہ مردم شماری میں سندھ کے اضلاع میں ووٹنگ کے جو نئے مضحکہ خیز اعداد و شمار لائے گئے ہیں، ان کے مطابق شہری سندھ کے اضلاع میں ووٹروں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے جب کہ دیہی سندھ کے ووٹروں میں اضافہ دکھایا گیا ہے۔
یہ کیسے ممکن ہے؟ کیا یہ بات سندھ ہائی کورٹ کے ریکارڈ پر نہیں ہے کہ 1973کی مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو اس وقت کے سندھ کے سیکریٹری داخلہ نے بھٹو کے حکم پر نصف سے بھی کم کردیا تھا اور اس طرح کراچی کی نشستیں محدود کردی گئی تھیں۔ پھر سندھ میں دیہی اور شہری بنیاد پر کوٹہ سسٹم نافذ کیا گیا جس کی کہیں اور کوئی مثال نہیں ملتی۔ ایک تاثر ہے کہ کوٹہ سسٹم نے میرٹ کو نقصان پہنچایا اور مہاجروں پر تعلیم اور ملازمتوں کے دروازے بھی بند کردیے جو آج تک بند ہیں۔
پیپلزپارٹی کیوں جواب نہیں دیتی کہ وہ گزشتہ پچاس برسوں سے شہری سندھ کی آبادی اور اس کی جائز سیاسی نمایندگی کا حق ادا نہیں کرسکی ہے۔ یہ رائے کیوں بن رہی ہے کہ دیہی سندھ کی سیاسی قیادت شہری سندھ کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے۔ اگر شہباز شریف دس سال میں لاہور کا نقشہ بدل سکتے ہیں تو پی پی پی کی سندھ حکومت کراچی کا نقشہ کیوں نہیں بدل سکی۔ اگر لاہور میں صفائی ممکن ہوئی ہے تو کراچی کا کچرا کیوں نہیں صاف ہو سکا۔ کیوں یہ تاثر ہے کہ دیہی سندھ کو شہری سندھ کی ترقی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔
وفاقی اداروں نے کراچی میں امن قائم کرنے کے لیے بہت قربانیاں دی ہیں۔ کراچی کو مافیا کے چنگل سے آزاد کرایا گیا ہے۔ لیکن اب سندھ کے دیہی علاقوں کو معاشی انصا ف دینے کا وقت آگیا ہے۔ اس ضمن میں بھی کوتاہی کے وہی نتائج ہوں گے جو امن و امان پر عدم توجہ کے نتائج ہوئے تھے۔ یہ بھی اہم معاملہ ہے۔ اس ضمن میں کسی سیاسی جماعت کو من مانی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
یہ پاکستان اور دیہی سندھ کی ترقی کا معاملہ ہے۔ کراچی کو بھی پی پی پی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ کراچی اور حیدر آباد سکھر وغیرہ کے لیے نئے انتظامی ڈھانچے کا قیام اب لازم ہوگیا ہے۔ اس سوچ کو بدلنا ہوگا کہ سندھ کے شہری علاقوں کے لیے الگ انتظامی ڈھانچے کی بات کرنا کوئی غداری ہے۔ جس طرح پنجاب کی تقسیم کی بات کرنا ملک کے مفاد میں ہے، اسی طرح دیگر صوبوں ( جہاں ضرورت ہے) کی تقسیم کی بات کرنا بھی پاکستان کے مفاد میں ہی سمجھا جانا چاہیے۔ اس ضمن میں غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنا درست نہیں ہے۔