پاکستان میں سیاسی قیاس آرائیوں کا ایک طوفان آیا ہوا ہے۔ ہر کسی کے پاس اپنی سیاسی قیاس آرائی اور سازشی تھیوری موجود ہے۔ سب اپنی اپنی قیاس آرائی اور سازشی تھیوری اس قدر وثوق سے بتا رہے ہیں کہ لگتا ہے کہ ارباب اقتدار ان سے پوچھ کر ہی فیصلے کر رہے ہیں۔ حالانکہ مجھ سمیت سارے جغادری اپنے اپنے تجربے کی روشنی میں تجزیے کر رہے ہیں لیکن اصل میں ہوکیا رہا ہے، اس کے بارے میں شاید چند اہم ترین لوگوں کو ہی علم ہے۔ باقی سب حضرات اپنی اپنی خواہشات کو سیاسی قیاس آرائیوں کی شکل دے رہے ہیں۔
سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی پہلے ضمانت اور پھر اچانک پاکستان واپسی اور ایئر پورٹ پر ان کے لیے غیر معمولی انتظامات نے بھی بہت سی سیاسی قیاس آرئیوں اور کہانیوں کو جنم دیا ہے۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر حفیظ شیخ صاحب کے نیب نے وارنٹ گرفتاری جا ری کیے ہوئے تھے تو یک دم ضمانت کرا کر ان کی وطن واپسی کی کیا ضرورت تھی۔ سونے پر سہاگہ شیخ رشید نے بیان دے دیا کہ مقتدر حلقے نگران سیٹ اپ کے لیے کسی معیشت دان کا انٹرویو کر رہے ہیں۔
ویسے تو حفیظ شیخ کے ساتھ ڈاکٹر عشرت حسین اور سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے نام بھی سامنے آئے ہیں۔ لیکن میں پھر واضع کرنا چاہتا ہوں کہ یہ سب سیاسی قیا س آرائیاں ہی ہیں۔ ان کی نہ تو کہیں سے کوئی تصدیق ہوئی ہے اور نہ ہی کہیں سے کوئی تردید ہوئی ہے۔ بہرحال یہ سوال اہم ہے کہ حفیظ شیخ جو اس وقت نیب کے ملزم ہیں، انھیں کس نے اور کیوں پاکستان بلایا ہے۔ ان کے بارے میں یہ رائے بھی مضبوط ہے کہ وہ صرف حکومت میں شامل ہونے کے لیے ہی پاکستان آتے ہیں۔ جیسے ہی حکومت سے نکل جاتے ہیں، پاکستان سے چلے جاتے ہیں، اگر ان کے پا س اقتدار نہیں تو انھیں پاکستان رہنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
کیا حفیظ شیخ کو پاکستان کے مقتدر حلقوں نے واقعی نگران یا کسی ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ میں وزیر اعظم یا دوبارہ وزیر خزانہ بنانے کے لیے بلایا گیا ہے؟ پاکستان کے معروضی سیاسی حالات میں مجھے یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ لیکن سیاسی قیاس آرائیاں اس قدر زور پر ہیں کہ انسان خود بھی شک میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
ایک رائے یہ بھی ہے کہ پاکستان آج آئی ایم ایف کے جس معاہد ہ کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار ہے، وہ حفظ شیخ نے ہی کیا تھا۔ اسی معاہدے کی وجہ سے اسٹبلشمنٹ ان سے ناراض ہو گئی تھی اور اسی ناراضی کی وجہ سے وہ آؤٹ ہو گئے تھے۔ اس لیے انھیں اتنی مشکل سے تو نکالا گیا تھا، اب دوبارہ لایا کیسے جا سکتا ہے۔ ان پر نیب کے کیس بھی اسی ناراضی کی وجہ سے بنے تھے۔ کیونکہ یہ رائے تھی کہ انھوں نے آئی ایم ایف کے مفادات کو تو سامنے رکھا کہ لیکن پاکستان کے مفادات کو سامنے نہیں رکھا۔
سینیٹ میں ان کی ہار مقتدر حلقوں کی مرضی سے ہی تھی۔ وہ کوئی سرپرائز نہیں تھا۔ اس کے بعد انھیں کیسے نکالا گیا، وہ سب کے سامنے ہے۔ کیا پاکستان کے مقتدر حلقے اب ان کو پاکستان کا نگران وزیر اعظم بنانے کا سو چ رہے ہیں؟ ایک عام فہم ذہن بھی اسے مان نہیں سکتا۔
البتہ یہ ممکن ہے کہ آج ہماری آئی ایم ایف کے ساتھ بات جہاں سے پھنسی ہوئی ہے وہاں سے نکلنے کے لیے حفیظ شیخ کوئی مدد کر سکتے ہیں اور ان سے وہ مدد لی جا رہی ہے۔ انھیں بلایا گیا ہے کہ آپ نے ملک کو جس مشکل میں ڈال دیا ہے، اس سے نکلنے کا راستہ بھی بتائیں۔ ایسے میں کیا انھیں نگران وزیر اعظم بنانے کا رسک لیا جا سکتا ہے؟ ممکن نہیں۔ وہ معین قریشی کی طرح کوئی نیا چہرہ نہیں ہیں کہ سب کو قابل قبول ہوں۔ وہ اس وقت سب کو ناقابل قبول ہیں، اگر معاشی فیصلے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ہونے ہیں تو قومی سلامتی کے اداروں نے بھی تیاری رکھنی ہے۔ شاید حفیظ شیخ کا دورہ اسی تناظر میں ہے۔ لیکن اس کو رنگ ایسے دے دیا گیا ہے کہ وہ ملک کی بھاگ ڈور سنبھالننے آرہے ہیں۔
شاید کم لوگوں کو علم ہے کہ آئی ایم ایف کسی بھی نگران یا عبوری حکومت سے نہ تو کوئی ڈیل کرتا ہے اور نہ ہی کوئی معاہدہ کرتا ہے۔ ان کا اصول ہے کہ نگران اور عبوری حکومتیں محدود عرصے کے لیے آتی ہیں، ان سے طویل مدتی معاہدات نہیں ہوسکتے۔
پاکستان نے آج تک صرف ایک ہی دفعہ نگران دور میں آئی ایم ایف سے کسی بھی قسم کا پیکیج لیا ہے، وہ بھی معین قریشی کے دور میں تھا۔ شاید انھیں لایا بھی اسی لیے گیا تھا۔ لیکن آئی ایم ایف نے ان سے بھی معاہدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ ملک کی اس وقت کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں سے لکھوا کر لائیں کہ دونوں میں سے کوئی بھی جیت گیا تو وہ اس معاہدہ کو مانے گا۔ لہٰذا اس وقت بھی مقتدر حلقوں کو نواز شریف اور بے نظیر بھٹو سے آئی ایم ایف کے لیے یہ خط حاصل کرنے پڑے کہ اگر وہ انتخاب جیت جاتے ہیں تو وہ معین قریشی کے معاہدہ کو مانیں گے۔
دونوں نے لکھ کر دیا تو آئی ایم ایف نے معاہدہ کیا۔ ایسے میں سوال ہے کہ کیا آج مقتدر حلقے اس پوزیشن میں ہیں کہ ملک کی بڑی جماعتوں سے کسی نگران، عبوری یا ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کے لیے ایسے خط لے لیں۔ اس وقت دو پارٹیاں ہیں ہی نہیں ہیں، کسی کو نہیں معلوم اگلی دفعہ کون وزیر اعظم ہوگا۔ اس لیے آئی ایم ایف سے بات چیت کے لیے کسی ٹیکنو کریٹ سیٹ اپ کا مجھے کوئی چانس نظر نہیں آتا۔ اسی حکومت کو پاکستان کواس بحران میں سے نکالنا ہے۔
یہ قیاس آرائی بھی موجود ہے کہ ملک میں مارشل لاء کا ماحول بن رہا ہے۔ ایک ماحول بنایا جا رہا ہے کہ پہلے عمران خان کو آزما لیا، اب ان کو بھی آزما لیا ہے۔ سب ہی پاکستان کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ ملک اس نا اہل سیاسی قیادت کا مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔
اس لیے ملک کی نازک صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے خود آنے کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں تھا۔ اس سیٹ اپ کی بھی تیاری ہو رہی ہے۔ بس دن گنے جا چکے ہیں۔ سب کو علم ہے حالات مزید خراب ہونے جا رہے ہیں۔ عمران خان کے مارچ میں حالات مزید خراب ہو جائیں گے جس کو اس پلان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ لیکن یہ بھی قیاس آرائی یا دور کی کوڑی ہی ہے۔
یہ قیاس آرئی بھی ہے کہ موجودہ حکومت نے مدت پوری کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سخت فیصلوں کے بعد مدت پوری کی جائے گی۔ مقتدر حلقوں سے بات ہو گئی ہے۔ اسی لیے سخت معاشی فیصلے کابینہ کے بجائے قومی سلامتی کمیٹی میں کیے جائیں گے تا کہ یہ تاثر جائے کہ اسٹیبلشمنٹ ساتھ ہے، وہ ان فیصلوں کا بوجھ ساتھ ہی اٹھائے گی۔ حکومتی حلقے یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ قدم سے قدم ملا کر ساتھ چلیں گے، ملک میں کسی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں، یہی سیٹ اپ اپنی مدت پوری کرے گا۔
سپریم کورٹ کے منحرف ارکان کے بارے میں فیصلے کے بعد بھی قیاس آرائیوں کا طوفان ہے۔ ایک فریق کہہ رہا ہے کہ یہ فیصلہ نہیں طوفان ہے۔ دوسرا فریق کہہ رہا ہے کہ یہ بھی دوسرے عدالتی فیصلوں کی طرح کا ایک فیصلہ ہے۔ ایک فریق کہہ رہا ہے کہ اس کے بعد پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت ختم ہو گئی ہے۔ دوسرا فریق کہہ رہا ہے کہ نہیں حمزہ محفوظ ہیں۔ ابھی حمزہ کے ووٹ زیادہ ہیں۔ یہ لڑائی پہلے ہی عدالتوں میں ہے اور اب بھی عدالتوں میں ہی جا رہی ہے۔
کیا عمران خان کا لانگ مارچ حکومت کو انتخابات پر مجبورکر سکتا ہے؟ کیا عمران خان کا مارچ کامیاب ہوگا یا ناکام۔ کیا عمران خان اسلام آباد پہنچ سکیں گے؟ کیا پہلے گرفتار ہو جائیں گے؟ کیا انھیں روکا جائے گا؟ کیا حکومت طاقت کا استعمال کرے گی؟ کیا گرفتاریاں ہوں گی؟ یہ سب قیاس آرائیاں موجود ہیں۔ سب کے پاس اپنا اپنا جواب ہے۔ یہی پاکستان کا سیاسی منظر نامہ ہے۔