حکومت کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ملک کی تینوں بڑی اپوزیشن جماعتیں حکومت گرانے یا اس کے خلاف سازش کرنے کے موڈ میں نہیں ہیں بالخصوص ن لیگ اور پی پی پی۔ زیادہ مضبوط رائے یہ ہے کہ عمران خان کو مدت پوری کرنی چاہیے۔ اسی میں اپوزیشن کا فائدہ ہے۔
وہ عمران خان کو سیاسی شہید نہیں بنانا چاہتے۔ ایسے میں جب عمران خان کو اپوزیشن سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ تو پھر خطرہ کہاں سے ہے؟ بدلتے منظر نامے میں اپوزیشن مقتدر قوتوں کے لیے بھی کوئی مسائل پیدا نہیں کرنا چاہتی۔ کیونکہ مقتدر حلقوں سے مفاہمت کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں۔ اسی لیے دونوں بڑی سیاسی جماعتیں مہنگائی پر کوئی تحریک چلانے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ مہنگائی پر اپوزیشن کی خاموشی، حکومت کے لیے ایک این آر او ہی ہے۔ گورننس کے مسائل پر خاموشی بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ اپوزیشن کسی بھی قسم کی محاذ آرائی کے موڈ میں نہیں ہے۔ وہ عمران خان کے لیے کوئی مسئلہ نہیں پیدا کرنے چاہتے۔
لیکن اپوزیشن کی طرف سے امن کے پیغام کے باجود عمران خان کے لیے مسائل کم نہیں ہو رہے۔ میں سمجھتا ہوں اتحادیوں سے اختلافات بھی کوئی خاص خطرے والی بات نہیں ہے۔ اتحادی سیاست میں اتحادیوں کی ناراضگیاں چلتی رہتی ہیں۔ جب تک کسی بھی اتحادی کی اپوزیشن سے کوئی بات طے نہیں ہوگی اتحادی بند گلی میں ہیں۔ ان کے پاس فرار کا کوئی راستہ نہیں ہے۔
ایم کیو ایم، ق لیگ اور دیگر اتحادیوں کے پاس کوئی سیاسی آپشن نہیں ہے۔ اس لیے وہ تحریک انصاف کے ساتھ رہنے پر مجبور ہیں۔ ہاں اگر اپوزیشن آج عدم اعتماد لانے کا اعلان کر دے۔ قائد حزب اختلاف وطن واپس آجائیں۔ اپوزیشن متحد ہو جائے۔ تو پھر اتحادی جماعتوں کے پاس آپشن آجائے گا۔ لیکن ابھی جب قائد حزب اختلاف ملک سے باہر ہیں۔ اپوزیشن باہمی اختلافات کا شکار ہے تو پھر ایسے میں عدم اعتماد کا کوئی امکان نہیں ہے اور اتحادیوں کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔
ایسے میں عمران خان کے لیے سب سے بڑا مسئلہ تحریک انصاف کا اندرونی خلفشار ہے۔ آپ دیکھیں کے پی جہاں تحریک انصاف کی سب سے مضبوط حکومت ہے۔ وہاں کے اختلافات بھی سب کے سامنے ہیں۔ تین وزرا کو جس طرح نکالا گیا ہے، وہ بھی پوچھ رہے ہیں کہ ہمیں کیوں نکالا۔ کے پی تحریک انصاف میں پہلی دفعہ اختلافات سامنے نہیں آئے ہیں۔ گزشتہ دور حکومت میں پرویز خٹک کے خلاف بھی بہت گروپنگ تھی۔ کئی بار بغاوت ہوئی۔ لیکن جس طرح آج پنجاب میں عثمان بزدار کو قائم رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اسی طرح تب پرویز خٹک کو قائم رکھنے کی کوشش کی گئی۔ انتخابات کے قریب پانچ سال کی تمام بغاوتیں اور گروپنگ کا حساب برابر کیا گیا۔
جنھوں نے بھی اختلاف کیا تھا انھیں نکال دیا گیا۔ لیکن آج دیکھ لیں گروپنگ پھر بھی ختم نہیں ہوئی۔ ان تین وزرا کو فارغ کرنے کے نقصانات ابھی سامنے نہیں آئیں گے لیکن جب بھی وقت آئے گا، اسکے نقصان سامنے آئینگے تاہم یہ بات بھی حقیقت ہے کہ کے پی کے موجودہ سیاسی بحران میں اپوزیشن کا کوئی کردار نہیں تھا۔ یہ تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات ہیں۔ جن کی وجہ سے بحران پیدا ہوا۔
پنجاب کی صورتحال کے پی سے مختلف ہے۔ یہاں تحریک انصاف کی حکومت عددی اعتبار سے کے پی کی طرح مضبوط نہیں ہے۔ حالانکہ پنجاب میں اندرونی اختلافات کے پی سے شدید ہیں۔ لیکن پنجاب میں کے پی جیسا ایکشن کرنا ممکن نہیں ہے۔ یہاں تین وزرا تو دور کی بات ہے ایک کوبھی فارغ کرنا ممکن نہیں ہے۔ حالانکہ عثمان بزدار کے خلاف سازشیں محمود خان سے زیادہ ہیں۔ عثمان بزدار کے خلاف حالیہ سازش میں بھی اپوزیشن کا کوئی کردار نہیں تھا۔ یہ بھی تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات ہی ہیں۔ فواد چوہدری کا عثمان بزدار کے بارے میں بیان بھی تحریک انصاف کے اندر سے ہی تھا۔ جہانگیر ترین کی مخالفت بھی اندر سے ہی ہے۔
فارورڈ بلاک بھی اندر سے ہی تھا۔ علیم خان کی سرگرمیاں بھی تحریک انصاف کے اندر کی ہی کہانیاں ہیں۔ اگر چیف سیکریٹری اور آئی جی نے وزیر اعلیٰ کے خلاف محاذ بنا لیا تھا تو یہ بھی تحریک انصاف کا اندرونی معاملہ ہی ہے۔ اس میں اپوزیشن کا کوئی کردار نہیں ہے۔
آپ اندازہ لگائیں جب ہر طرف شور تھا کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کو تبدیل کیا جا رہا ہے تو سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی کی قیادت خاموش تھی۔ جب پنجاب کے سب سے بڑی اتحادی جماعت ق لیگ کی ناراضی کی خبریں گرم تھیں تو ن لیگ ایسے خاموش تھی جیسے اس کا اس سب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جب بیس ارکان کا فارورڈ بلاک سامنے آگیا تھا تو اپوزیشن نے ان سے بھی رابطہ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ حالانکہ یہی شہباز شریف پہلے ق لیگ کے فاروڈ بلاک ہم خیال کے ساتھ پانچ سال حکومت میں رہے ہیں۔ اس لیے یہ کہنا کہ ن لیگ کو ایسے ماحول سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ نہیں آتا درست نہیں۔ بات یہ ہے کہ ن لیگ نے کوشش ہی نہیں کی۔ ورنہ فاروڈ بلاک کو ساتھ ملکر حکومت بنانے کی دعوت دی جا سکتی تھی۔
مرکز میں بھی تحریک انصاف کے اندرونی اختلافات کا بہت شور ہے۔ وزرا آپس میں لڑ رہے ہیں۔ ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی جاری ہے۔ قومی اسمبلی میں حکومتی رکن نے ایک وزیر پر نوکریاں بیچنے کا الزام عائد کر دیا ہے۔ حکومتی ارکان خود حکومت کی کارکردگی پر تنقید کر رہے ہیں۔ میں اتحادیوں کی بات نہیں کر رہا، تحریک انصاف کے اپنے اندر پانی پت کی لڑائی جاری ہے اور سب تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ وزیربھی ناراض ہیں اور جو وزیر نہیں بن سکے، وہ بھی ناراض ہیں۔ اسی لیے حکومت قومی اسمبلی سے کوئی بل پاس کرانے کی ہمت نہیں کرتی۔ لیکن اپوزیشن اس ماحول سے فائدہ اٹھانے کی کوئی کوشش نہیں کر رہی ہے۔
بلوچستان میں بھی حکمران جماعت ہی آپس میں لڑ رہی ہے۔ اسپیکر اور وزیر اعلیٰ کے درمیان اختلافات میں بھی اپوزیشن کا کوئی کردار نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ وہاں تحریک انصاف آپس میں نہیں لڑ رہی بلکہ باپ پارٹی آپس میں لڑ رہی ہے۔ لیکن جس طرح تحریک انصاف اقتدار میں آئی، اسی طرح باپ بھی حکومت میں آئی ہے۔ اس کے اندر بھی تحریک انصاف کے طرز پر ہی اختلافات نظر آرہے ہیں۔ لیکن وہاں بھی پنجاب کی طرح ایک کمزور حکومت ہے۔ اسی لیے وزیر اعلیٰ چاہتے ہوئے بھی اسپیکر کو فارغ نہیں کر سکتے۔ جیسے پنجاب میں عمران خان چاہتے ہوئے بھی کسی کو فارغ نہیں کر سکتے۔ عددی کمزوری ہر معاملے میں حائل ہے۔
ایک ایسا منظر نامہ لگ رہا ہے کہ تحریک انصاف کی عددی اعتبار سے کمزور حکومتوں کو کسی اپوزیشن سے نہیں بلکہ اپنے اندرونی اختلافات سے ہی خطرات پیدا ہو گئے ہیں۔ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے کے مصداق اس حکومت کو بھی اس کے اپنے ہی بچے کمزور کر رہے ہیں۔ لیکن عمران خان کے پاس اس کا کوئی حل نظر نہیں آرہا۔ بے شک انھوں نے کے پی میں تین وزیر فارغ کر دیے ہیں۔ لیکن پنجاب اور مرکز میں ایسا ممکن نہیں۔ اس کا سب کو علم ہے اور وہ اسی کمزوری کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ اپوزیشن کو جس ڈنڈے سے خاموش کرایا گیا ہے، کیا تحریک انصاف کے اپنے باغی ارکان پر بھی یہ ڈنڈا استعمال ہو سکتا ہے۔ بظاہر یہ مشکل نظر آتا ہے۔