چوہدری برادران سیاست کے کہنہ مشق کھلاڑی ہیں، وہ دھڑے کی اہمیت جانتے ہیں او ر آسانی سے دوست، دشمن تبدیل نہیں کرتے۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا اور خواہش تھی کہ چوہدری برادران آصف زرداری اور نواز شریف کے ساتھ چلے جائیں جس کے پلس پوائنٹس بھی بیان کئے جا رہے تھے کہ حکومتی نااہلی اور مہنگائی کی وجہ سے عوا م میں حکومتی پارٹی کا گراف گرتا چلا جا رہا ہے۔
مسلم لیگ قاف اگر نواز لیگ کے ساتھ انڈرسٹینڈنگ ڈیویلپ کر لیتی ہے تو اگلی اسمبلی میں زیادہ بہتر پارلیمانی پوزیشن پا سکتی ہے اور شہباز شریف، پرویز الٰہی کا کمبی نیشن قوم کی تقدیر بدل سکتا تھا۔ اپوزیشن کا فی الوقت خیال ہے کہ مرکز اور پنجاب میں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد جیسے ہی نئی حکومت بنے، وہ چند ہفتوں میں معاملات سازگار کرتے ہوئے اسمبلیاں توڑدے اور نئے انتخابات کے لئے میدان ہموا ر کر دے۔
پیپلزپارٹی کی چوہدری پرویز الٰہی کو پیشکش تھی کہ وہ ایک مرتبہ پھر پنجاب کے وزیراعلیٰ بن جائیں مگر ان شرائط کے ساتھ پنجاب کی وزارت اعلیٰ ایک مذاق تھی، نواز لیگ کے ہاتھوں کٹھ پتلی بننے والی بات تھی۔ ہمارے بہت سارے تجزیہ کار معاملات کو اپنی پسند ناپسند کے مطابق دیکھتے ہیں حالانکہ فیصلے کا سب سے اہم پہلو فیصلہ کرنے والے کے مفادات ہوتے ہیں۔ فرض کیجئے کہ چوہدری پرویز الٰہی اس عرصے کے لئے وزیراعلیٰ بن جاتے اور اس کے بعد ان کی وزارت اعلیٰ کو بنیاد فراہم کرنے والی سب سے بڑی جماعت اسمبلی توڑنے پر اصرار شروع کر دیتی جس کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی کہ چوہدری پرویز الٰہی اس کے ارکان میں اپنا اثرورسوخ نہ استعمال کریں اور بطور وزیراعلیٰ اپنا سیاسی وزن نہ بڑھا لیں۔
اس امر کی کوئی گارنٹی نہیں تھی کہ جب نئے انتخابات ہوں اور منصوبہ بندی کے مطابق نواز لیگ پنجاب میں اکثریت حاصل کر لے تو وہ چوہدری پرویز الٰہی کو ہی وزیراعلیٰ پنجاب بنائے بلکہ اس امکان کو ہی بعید از قیاس کہا جا سکتا ہے یعنی چوہدری پرویز الٰہی نواز لیگ کے سہولت کار بن جاتے مگر کس قیمت پر؟
میں نے کہا کہ چوہدری برادران آسانی سے دھڑا تبدیل نہیں کرتے اور اگر جمع تفریق کی جائے تو انہوں نے نواز شریف کے مخالف دھڑے میں جا کے کوئی گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔ انہیں نواز شریف کو چھوڑے ہوئے بائیس برس ہو رہے ہیں اور یہ کوئی کم مدت نہیں ہوتی۔ اس مدت میں ان کے گھر میں وزارت عظمیٰ بھی آئیں اور وزارت اعلیٰ بھی۔ کسی بھی سیاستدان گھرانے کے لئے ا س سے بڑا اعزاز او رکیا ہو سکتا ہے۔ سو یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے نواز شریف کو چھوڑ کر ہرگز گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔
نواز شریف اور ان کے قریبی ساتھیوں کی طرف سے الزام لگایا جاتا ہے کہ جب پرویز مشرف نے مارشل لا لگایاتو چوہدری برادران نے ان کے ساتھ کھڑے ہونے کی بجائے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور اپنا وزن پرویز مشرف کے ترازو میں ڈال دیا۔ میں نے یہی سوال چوہدری برادران کے ساتھیوں کے سامنے رکھا تو اس کا مدلل جواب آیا۔ جواب تھا کہ اسی کی دہائی میں نواز شریف اور چوہدری برادران کا ساتھ ہوا۔ نواز شریف کے ساتھ اس حد تک تعلق نبھایا گیا کہ نواز شریف جب گجرات آئے تو ان کی جیپ کو چوہدریوں کے ساتھیوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔
نواز شریف کا وعدہ تھا کہ وہ وفاق میں جائیں گے تو پنجاب چوہدریوں کو دیں گے مگر انہوں نے وعدہ خلافی ستانوے میں نہیں بلکہ اس سے بھی بہت پہلے کی جب چوہدری پرویز الٰہی کی بجائے غلام حیدروائیں کو وزیراعلیٰ بنا دیا گیا حالانکہ وہ وہ درویش صفت کارکن اتنا سیاسی وزن ہی نہیں رکھتا تھا۔ چوہدری برادران اسے یہاں تک برداشت کر گئے کہ جب میاں منظور وٹو والا واقعہ ہوا تو انہوں نے پوری طرح نواز شریف کا ساتھ دیا۔ میاں منظور وٹو کی طرف سے اسمبلی توڑنے کے خلاف عدالت میں بھی چوہدری برادران ہی گئے تھے اور پھر نواز شریف کو آج سے پچیس برس پہلے دو تہائی اکثریت مل گئی۔ اس موقعے پر بھی انہوں نے اپنا وعدہ پور انہیں کیا، چوہدریوں کو ان کا حق نہیں دیا۔
بارہ اکتوبر ننانوے کی شام ٹرننگ پوائنٹ تھا جب میاں نواز شریف نے پرویز مشرف کو آرمی چیف کے عہدے سے نتائج کا اندازہ کئے بغیر ہٹایا۔ چوہدری برادران اس فیصلے کا بوجھ کیوں اٹھاتے جس میں وہ شامل ہی نہیں تھے۔ حقیقت تویہ ہے کہ چوہدری برادران کو اہم فیصلوں میں شامل ہی نہیں کیا جاتا تھا مگر پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے بعد بھی وہ پارٹی میں موجود رہے اور ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی نہ کرنے کی صلاح دیتے رہے۔
کیا یہ بات تاریخ کا حصہ نہیں کہ انہوں نے پارٹی نہیں چھوڑی بلکہ بیگم کلثوم نواز نے اٹک قلعہ میں نواز شریف کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد ان کو پارٹی سے نکالنے کا یکطرفہ اعلان جاری کیا۔ چوہدری برادران اس موقعے تک بھی نواز شریف کے خلاف ایکٹو نہیں تھے حالانکہ ان کے مشوروں کو نہیں مانا جا رہا تھا۔ غلطی پر غلطی کی جارہی تھی۔ یہ بات تو سچ ہے کہ نواز شریف نے جس سیاسی نظرئیے اور گراونڈ پر اپنی سیاست شروع کی تھی وہ اپنی طاقت کے زعم میں اس سے ہٹ گئے تھے۔ چوہدری برادران نے حتمی فیصلہ اس وقت لیا جب نوازشریف نے اپنی پارٹی کی منظوری تو ایک طرف رہی بلکہ ساتھیوں تک کو بتائے بغیر خاندان سمیت جلاوطنی کا معاہدہ کر لیا۔
کیا یہ بات منطقی ہوتی کہ نواز شریف سرور پیلس میں سعودی حکمرانوں کے شاہی مہمان ہوتے اور چوہدری برادران ان کے غلط فیصلوں کا حصہ نہ ہونے کے باوجود یہاں ماریں کھا رہے ہوتے۔ جب نواز شریف جدہ میں تھے اور حمزہ شہباز کونوجوان ہونے کے باوجود کاروباری او ر سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے پاکستان چھوڑا گیا تھا تو چوہدری برادران نے ان کی ہر ممکن مدد کی۔ ویسے ایک سوال اور بھی ہے کہ جنہوں نے اپنی سفید داڑھیوں کے ساتھ نواز شریف کے نام پر ماریں کھائیں جیسے سردار ذوالفقار کھوسہ، انہیں کیا صلہ ملا؟
میرا گجرات بہت آنا جانا رہتا ہے، کھاریاں، لالہ موسی، منڈی بہاوالدین اور دیگر علاقوں کے بہت سارے قاف لیگیوں کی باتیں سننے کا بھی موقع ملتا رہتا ہے۔ میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ وہ تمام آصف زرداری اورعمران خان سے اتنے ناراض نہیں جتنے نواز شریف سے ہیں۔ چوہدری برادران کا ووٹ بنک تھوڑا ہے یا زیادہ مگر وہ اپنی ایک سوچ بنا چکا ہے۔ یہ بات عمومی طور پر کی جاتی ہے کہ چوہدری برادران وہی فیصلہ کریں گے جو اسٹیبلشمنٹ کا ہو گا اور اس وقت یہ بھی کہ جا رہا ہے کہ مقتدر حلقے تقسیم ہیں یا غیر جانبدار ہیں تو ایسے میں چوہدری برادران کو زیادہ حق مل جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی اور مفاد کے مطابق فیصلہ کریں، عمران خان کے ساتھ جانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی اینٹی نواز شریف پوزیشن پر برقرار ہیں۔
باڈی لینگویج اہم ہے، بتایا جا رہا ہے کہ جیسے قہقہے عمران خان کے ساتھ لگے ویسے شہباز شریف کے ساتھ نہیں لگے تھے۔ دعویٰ ہے کہ عمران خان نے بھی چوہدری پرویز الٰہی کو وزارت اعلیٰ دینے کا وعدہ کیا تھا اور انہوں نے بھی ان کے ساتھ وہی کیا جو نواز شریف نے کیا تھا مگر میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کے ساتھ محض سیاسی اتحاد ہے مگر دوسری طرف نہ نواز شریف دل سے چوہدریوں کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں اور نہ ہی چوہدری برادران نوازشریف پروہ اعتماد کرنے کے لئے، ملاقاتوں کے حوالے سے مروت اور سیاسی رواداری اپنی جگہ پر مگر اصل بات یہ ہے کہ دلوں میں فاصلے بہت بڑھ چکے ہیں۔ بتیس برسوں کی خلش ایک رسمی، ادھوری ملاقات میں کہاں جاتی ہے؟