میں سیکرٹریٹ چوک میں بہت ساری خواتین میں گھرا ہوا تھا، یہ خواتین عورت مارچ کی شرکا کی طرح نہ نوجوان تھیں اور نہ ہی سٹائلش، ان میں سے بہت ساری بوڑھی ہو رہی تھیں، ان کے چہروں پر نہ لالی تھی نہ لبوں پر سرخی، نہ انہوں نے ٹائیٹ جینز پہن رکھی تھیں۔ چادرو ں کے ساتھ ساتھ پانچ دنوں سے سڑکوں پر احتجاج کرنے والی ان لیڈی ہیلتھ ورکرز نے تھکاوٹ اوڑھی ہوئی تھی بلکہ تھکاوٹ سے بھی زیادہ بے بسی، لاچاری اورمجبوری کا غم تھاغصہ تھا۔ کچھ باقاعدہ آنسووں کے ساتھ رو رہی تھیں اور جو رو نہیں رہی تھیں ان کی باتیں کرتے ہوئے سسکیاں نکل رہی تھیں۔ وہ مجھے بتا رہی تھیں کہ وہ پولیو، ڈینگی، کورونا اورنجانے کون کون سی بیماریوں کی روک تھام کے لئے کتنی مشکل نوکری کرتی ہیں، ان کے گھروں میں کتنی مجبوریاں ہیں، ان کے لئے وہ پندرہ، بیس یا پچیس ہزار روپے کتنے اہم ہیں جوماں بچے کی صحت یقینی بنا کے ملتے ہیں۔ وہ کہہ رہی تھیں کہ آج کی اولادیں بوڑھے ماں باپ کا خرچہ نہیں اٹھا سکتیں اور اگر ان کو پندرہ، پندرہ اوربیس، بیس برس کی ملازمت کے بعد ریٹائرمنٹ پر پنشن مل جائے تو وہ بھیک مانگنے سے بچ جائیں، بہووں اور بیٹوں کی بدتمیزیوں سے محفوظ ہوجائیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ میں ا ن کے لئے کیا کر سکتا ہوں، میں لاہور کے ایک چینل کا ایک عام سا صحافی، میرے پاس تو کسی نیشنل چینل کا شو بھی نہیں ہے کہ نیشنل چینل یہ سب مجبوریاں اور آہیں آن ائیر کرنے کی سکت کب رکھتے ہیں، اللہ نے ان کو توفیق ہی نہیں دی اور اس کے سوا یہ ایک کالم ہے۔ میں ان کے لئے قومی خزانے کے تالے نہیں توڑ سکتا، و ہاں سے اپنے ہی ٹیکسوں سے جمع کئے ہوئے پیسوں کی اس تقسیم کو نہیں روک سکتا جس سے ارکان اسمبلی پچاس، پچاس کروڑ ترقیاتی سکیموں کے نام پر لے اڑیں مگر وہاں بے چاری ہیلتھ ورکرز کو گریڈ پانچ کے بجائے سات دینے کے لئے روپے نہ ہوں۔ میں نے پوچھا کہ آپ پنجاب کی کابینہ کے سب سے مہذب اور سمجھدار وزیر راجا بشارت سے بھی ملیں اور بار بار ملیں توانہیں اپنی بات کیوں نہ سمجھا سکیں۔ ویسے میں حیران ہوتا ہے کہ پنجاب میں ہر جگہ پھڈا پیدا کرنے والے وزیروں نے راجا بشارت کو آگے رکھا ہوا ہے جیسے مراد راس تعلیم کا بیڑہ غرق کرتا ہے، پنجاب ایجوکیشن فاونڈیشن کو تباہ کرتا ہے توجھوٹے وعدے کرنے کے لئے راجا بشارت کوآگے کر دیا جاتا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ مذاکرات تواچھے ہوئے مگر اسلا م آباد میں ہونے والے معاہدے پر عملدرآمد کی راہ میں اصل رکاوٹ یاسمین راشد ہیں جوبدترین آمرانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے لیڈی ہیلتھ ورکرز کو جبری بے روزگارکررہی ہیں، لیڈی ہیلتھ ورکرز چاہتی کیا ہیں، گریڈ سات اور ساتھ میں پینشن، بس۔
مجھے وزیراعلیٰ پنجاب کے سوشل میڈیا سیل کے سربراہ اظہر مشوانی کی ٹوئیٹ یاد آ گئی، انہوں نے پندرہ مارچ کی صبح لکھا، بہت کم لوگوں کو یہ پتا ہوگاکہ ڈاکٹر یاسمین راشد تقریبا اکہتر سال کی ہیں اور آج کل ان کی کینسر کی کیمو تھراپی چل رہی ہے۔ اس کے باوجود وہ نہ صرف پچھلے ایک سال سے کورونا کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن پر ہیں بلکہ اپنی سرکاری ذمہ داریاں بھی مسلسل نبھا رہی ہیں،۔ اظہرکی اس ٹوئیٹ سے میرا دھیان فوری طور پر کینسر کے پنجاب میں ان ساڑھے پانچ ہزار مریضوں کی طرف چلا گیاجن کی ادویات بیگم یاسمین راشد وزیر بننے کے بعد تین مرتبہ بند کرچکی ہیں۔ یاخدا، ایک ستر، اکہتر برس کی وزیر، جو ایک عورت بھی ہے اور عورتیں عام طور پر نرم دل سمجھی جاتی ہیں، جو ڈاکٹر بھی ہیں اور اپنے پروفیشن کے مسائل بھی جانتی ہے، جو کینسر کی خود مریض بھی ہیں اورکینسر کے مرض کی تکلیف بھی جانتی ہیں، جو اس پارٹی کی رہنما ہیں جس کا سربراہ اپنی ماں کی کینسر کی تکلیف پر ہسپتال بناتا ہے، وہ خود کینسر کے مریضوں کے لئے اتنی سخت دل کیسے ہوسکتی ہیں، ہائے، اگر یہ اس کا ذمہ داریاں نبھانا ہے تو کاش وہ نہ نبھائیں۔
عہدے اللہ کی عطا ہوتے ہیں۔ یہ رب کی مہربانی ہے کہ وہ باربار الیکشن ہارنے کے باوجودوزیر کے عہدے پربراجمان ہیں مگر وہ کسی کمزور پر مہرباں نہیں ہیں، سب ان سے نالاں ہیں، پریشان ہیں، خفا ہیں۔ پی ایم اے واحد تنظیم تھی جو کچھ عرصہ پہلے تک بیگم یاسمین راشد کادم بھرتی تھی مگر اب اس کے رہنما بھی بی بی کے دفاع کے نام پر کنی کترا جاتے ہیں۔ بیگم یاسمین راشد سے نہ ڈاکٹر خوش ہیں، نہ نرسیں، نہ پیرامیڈکس اور نہ ہی لیڈی ہیلتھ وزیٹرز۔ لیڈی ہیلتھ وزیٹرز کی صدر رخسانہ انور کے اندر شائد کوئی جن ہے یا شائد زندگی بھر کی جدوجہد کے باوجود حق نہ ملنے کا غصہ۔ بولتی ہیں تو انقلاب برپاکرنے کی باتیں کرتی ہیں۔ جب لیڈی ہیلتھ ورکرز کے پانچویں روز بھی مذاکرات ناکام ہوئے تو انہوں نے کہا کہ یہ برا دور نہیں، یہ بدترین دور ہے، ہمیں شودر سمجھ لیا گیا ہے۔ اب ہماراسب سے بڑا مطالبہ یاسمین راشد کا استعفیٰ ہے۔ وائے ڈی اے کے ایک گروپ کامنہ اقتدار کے لالی پاپ نے بند کر رکھا ہے مگر ڈاکٹروں میں سے ننانوے فیصد پریشان ہیں کہ سرکاری ہستپال ٹھیکیداروں کے حوالے کئے جا رہے ہیں اور یہ وہ کام ہے جسے پرویز الٰہی اور شہباز شریف جیسے طاقتوروزیراعلیٰ بھی نہیں کرسکے تھے۔ یاسمین راشد سے پنجابی مریض بھی خوش نہیں بلکہ جھولیاں اٹھااٹھا کے اس وقت بددعائیں دیتے ہیں جب وہ سرکاری آپریشن تھیٹر میں آپریشن کروانے جاتے ہیں تو انہیں ڈاکٹروں کے دستانے اوراپناپیٹ بند کرنے کے لئے لگائے جانے والے ٹانکوں کے دھاگے بھی خود خرید کر لانے پڑتے ہیں۔ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب کورونا میں ڈاکٹرز اور نرسیں حفاظتی لباسوں کے لئے ترستے تھے اور وہ بیوروکریسی سمیت نامعلوم پیارے لے اڑے تھے۔ کوئی اظہر مشوانی کو یاسمین راشد کی کارکردگی بتائے کہ دنیا بھر کے مقابلے میں کورونا سے ہمارے ڈاکٹرز، نرسیں اور پیرامیڈکس سب سے زیادہ مرے۔
اکہتربرس کی بزرگ کینسر کی مریض لیڈی ڈاکٹر وزیر صحت ہیں مگر وہ کوئی ایک ایسا کام نہیں کر رہیں کہ لوگ انہیں دعائیں دیں۔ عہدے تو اس لئے ملتے ہیں کہ آپ سے تعلق رکھنے والے او رنہ رکھنے والے فیض یاب ہوں۔ ظاہر ہے کہ آپ نے لوگوں میں نوٹوں کی بوریاں نہیں بانٹنی ہوتیں مگر ایسی اصلاحات کرنی ہوتی ہیں کہ آپ کا شعبہ آپ کو محسن کے طور پر یاد رکھے مگرصحت کا شعبہ تاریخی تباہی کے دہانے پر ہے۔ میں نے لیڈی ہیلتھ وزیٹرز کے آنسو دیکھے تو سوچا آپا یاسمین راشد مسلسل دکھ، تکلیفیں اورمشکلات کیوں بانٹ رہی ہیں۔ ہمارے لاہور کی شاندار اور طرح دار بہو، ہماری پرانی سمجھداراور غم خوار آپا یاسمین راشدوزیر بن کے اتنی ظالم کیوں ہیں۔ اظہر مشوانی سمیت کسی کے پاس سوال کا جواب ہوتو ضرور بتائے۔